• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اکیسویں صدی ہے جس میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کے بڑے چرچے ہیں اور عالمی سطح پر طاقتور تنظیمیں انسانی حقوق اور قانون کے سامنے برابری کے عظیم تصورات کوبڑی اہمیت دے رہی ہیں۔ امریکہ اِس جدوجہد میں پیش پیش ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امداد بند کر دیتا اور معاشی سرچشموں پر پہرے بٹھا دیتا ہے ، مگر بنگلہ دیش میں گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے انصاف اور قانون کے نام پر جو خون آشام کھیل جاری ہے اور نوے نوے سال کے بزرگ تختۂ دار پر لٹکائے جا رہے ہیں ، اُن سے شرفِ انسانیت کی قبا چاک ہو رہی ہے۔ اب تک مختلف سیاسی جماعتوں کی دس سے زائد سرکردہ شخصیات کو سزائے موت یا عمر قید کی سزائیں دی جا چکی ہیں اور وزیراعظم حسینہ واجد اپنے ملک میں ریاستی دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے سیاسی مخالفوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالت قائم کر رکھی ہے جو گواہوں کو آزادی کے ساتھ بات کرنے کی اجازت دیتی ہے نہ بین الاقوامی شہرت یافتہ وکیلوں کے لیے آنے کی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ حکومت ملزمان کے غیر ملک میں رہنے والے قریبی عزیزوں کو ویزہ جاری کرتی ہے نہ باہر سے وکیلوں کو اپنے ہاں آنے دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش ابھی تک چوتھی یا پانچویں صدی میں سانس لے رہا ہے جب حکمران اپنے مخالفین کے سرقلم کروا دیتے یا اُنہیں خونخوار کتوں کے سامنے پھینک دیا کرتے تھے۔ ملزمان کو ایک ہی طرح کی چارج شیٹ دی جا رہی ہے کہ اُنہوں نے بنگلہ دیش کی جنگ ِآزادی میں پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر لاکھوں بنگالی قتل کر ڈالے تھے اور ہزاروں خواتین کی عزتیں لوٹی تھیں۔یہ دس افراد جن کو سزائے موت یا عمر قید کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں ، اُن میں پروفیسر غلام اعظم بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے کروڑوں ہم وطنوں کی موجودگی میں تقویٰ کی زندگی بسر کی تھی۔ اِن میں صلاح الدین چودھری بھی شامل ہیں جن کے والد فضل القادر چودھری پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اور نہایت اچھی شہرت اور ایمانی قوت کے مالک تھے۔ اِن میں عبدالعلیم چودھری بھی شامل ہیں جو سیاسی اخلاقیات کا بہت اعلیٰ نمونہ تھے۔ اِن میں جناب مطیع الرحمٰن نظامی بھی شامل ہیں جو طالب علمی کے زمانے ہی سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کا بطورِ خاص اہتمام کرتے تھے۔ اِس تناظر میں حکومت کے یہ اقدامات بدترین بدنیتی پر مبنی دکھائی دیتے ہیں اور اِس کے ارادے بڑے خطرناک معلوم ہوتے ہیں۔ لاکھوں کا قتلِ عام ایک ایسی کہانی ہے جس کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین ، بنگلہ کے بہت بڑے دانشور سبھاش چندر بوس کی پوتی سرمیلا بوس ، ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر جی ڈبلیو چودھری اور لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق والیم نے غلط ثابت کیا ہے۔ محترمہ سرمیلا بوس جو بنگلہ دیش سے باہر ایک یونیورسٹی سے وابستہ ہیں، وہ بنگلہ دیش آئیں اور کئی ماہ کی تحقیق کے بعد اُنہوں نے کتاب لکھی جس میں انکشاف کیا کہ زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار بنگالی مارے گئے تھے جن میں سے بیشتر مکتی باہنی کا نشانہ بنے تھے۔ اِس سے ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر تیس لاکھ بنگالیوں کے قتلِ عام کی تاریخی طور پر کوئی حیثیت نہیں۔پھر یہ بھی ایک بنیادی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی گزشتہ کئی عشرے حکومت یا اپوزیشن میں رہتی چلی آئی ہیں۔ جماعت اسلامی نے توسیاسی عمل کے استحکام کی خاطر عوامی لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد بھی کیا اور بنگلہ دیش کو فوجی حکومت سے نجات دلوانے میں ایک اہم کردار بھی ادا کیا تھا۔ اُس نے انتہائی ناسازگار حالات میں بھی قانون، امن اور جمہوریت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور پارلیمانی جمہوریت کے لیے ناقابلِ فراموش جدوجہد کی۔ بی این پی بھی سالہا سال اقتدار میں رہی اور اُس نے سیاسی توازن قائم رکھا تھا۔ اگر یہ جماعتیں نسل کشی کی مجرم ہوتیں اور اُن کے ہاتھوں پر انسانوں کا خون نظر آتا ، تو عوام اُنہیں کبھی منتخب کرتے نہ اقتدار میں لاتے، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک جعلی عدالت کے ذریعے سیاسی قائدین کا عدالتی قتل ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ، یہ تو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ریاستی دہشت گردی کی ایک بدترین مثال ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی برادری کو اپنا پورا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عالمی ضمیر میں کسک تو بیدار ہوئی ، مگر اِس کے اندر سے ایک ایسی چیخ نہیں نکلی جو انسانی ہمدردی کے جذبوں میں ایک طوفان اُٹھا دیتی۔ بلاشبہ ہیومن رائٹس واچ ، اقوامِ متحدہ کا جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، امریکہ میں وکلاء کی نامور تنظیموں ، بھارت کے وکلاء اور خود بنگلہ دیش ہیومن رائٹس کمیشن نے حسینہ واجد کی بین الاقوامی عدالت کو کنگرو کورٹ قرار دیا۔ یہ ادارے اور یہ تنظیمیں اپنی رپورٹوں میں گاہے گاہے سنگین خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں ، مگر اُنہوں نے عدالتی قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کو عالمی ایشو نہیں بنایا۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ ممالک انسانی تہذیب کو لاحق اتنے بڑے مسئلے میں قرار واقعی دلچسپی نہیں لے رہے۔ پاکستان جس کے ساتھ وفا نبھانے کے جرم پر صاحبانِ استقامت کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں ، وہ مصلحتوں کا شکار ہے اور صریح ظلم پر احتجاج کرنے کے لیے تیار نہیں۔بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی ایسے اصحابِ نظر موجود ہیں جو حسینہ واجد سے میڈل وصول کرنے ڈھاکہ جاتے اور ’’شہیدانِ وفا‘‘ پر تبرے بھیج کر آتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ مسلم اُمہ یہ ایشو عالمی سطح پر اُٹھا سکتی اور بنگلہ دیشی حکومت پر سفارتی اور معاشی دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں تھی ، مگر وہ خود ایک ہولناک انتشار کی شکار ہے۔ عالمی ضمیر تو اُسی وقت حرکت میں آتا ہے جب ایک طاقتور تحریک اُٹھتی ہے اور ایک عالمی ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ ویت نام کی جنگ کے خلاف عالمی دانشور اُٹھے تھے اور اُن کی مجاہدانہ کوششوں نے امریکہ کو پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔
بنگلہ دیش کے اندر ظلم کا دور دراصل ایک انسانی مسئلہ بھی ہے اور تہذیبی اور نظریاتی کشمکش بھی اور اِس کے اثرات پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ دراصل جب مشرقی پاکستان ، پاکستان کا حصہ تھا ، تو وہاں مسلم قومیت اور بنگلہ قومیت کے درمیان کشمکش جاری تھی۔ عوامی لیگ بنگلہ قومیت کو پروان چڑھا رہی تھی جبکہ دینی حلقے اورنورالامین کی قیادت میں سیاسی جماعتیں مسلم قومیت کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی تھیں جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد بی این پی اور جماعت اسلامی نے مسلم بنگلہ قومیت کے لیے کام کیا اور عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ عوامی لیگ کی وزیراعظم اِن قوتوں پر کاری ضرب لگانے کے لیے جبر کے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں اور یہ فراموش کر بیٹھی ہیں کہ ہرباشعور بنگالی کے دل میں اسلام اور پاکستان بستا ہے اور قدرت کا انتقام بہت شدید ہوتا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم نے قید و بند کے دوران اپنے انتقال سے پہلے جو تحریر لکھی تھی ، وہ ضمیروں کو جھنجوڑتی اور دلوں کو گرماتی رہے گی۔ وہ کہتے ہیں: ’’الحمدﷲ میں اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ میں شہید ہونے کی تمنا لے کر ہی اسلامی تحریک میں شامل ہوا تھا۔ اب اگر اِس جھوٹے مقدمے میں مجھے پھانسی پر لٹکا دیا گیا ، تو مجھے شہادت کا درجہ ملے گا جو یقیناً میرے لیے خوش قسمتی کا باعث ہو گا‘‘۔ ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور قوم کو زندگی اور تازگی بخشتے ہیں ، تاہم اِس وقت انسانی ضمیر کا بہت کڑا امتحان ہے کہ اہلِ استقامت، جمہوریت کے پرستار اور انسانیت کے علم بردار جبر کا نشانہ بن رہے ہیں اور اکیسویں صدی کے امام بے عملی کا شکار ہیں۔
نوٹ:گزشتہ سے پیوستہ کالم میں مومنؔ کا ایک مصرع غلط شائع ہو گیا تھا جس کی طرف ہمارے صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے توجہ دلائی ہے۔ شعر یہ ہے
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تازہ ترین