یہ میری بدقسمتی ہے کہ مسقط اور دبئی میں میری موجودگی کے دوران علامہ طاہرالقادری اپنے وطن کینیڈا روانہ ہوگئے اور میں انہیں خدا حافظ نہ کہہ سکا بلکہ مجھے تو اس امر کا بھی افسوس ہے کہ جب قادری صاحب اسلام آباد کے کنٹینر میں استراحت فرمانے کے لئے پاکستان آئے تھے۔ میں انہیں خوش آمدید کہنے سے بھی محروم رہا کہ میں اس وقت ان کے وطن کینیڈا میں تھا تاہم اسلام آباد میں ان کی موجودگی کے دوران ہی میں واپس آگیا تھا اور اللہ نے مجھے یہ استطاعت بخشی کہ اپنے قلم سے مہمان گرامی کی جتنی خاطر مدارات ہوسکے وہ میں کروں اورالحمد للہ وہ میں نے کی، پاکستانی میڈیا نے بھی اس ضمن میں اپنا کردار حسب توفیق ادا کیا، بلکہ ان میں سے تو کئی ایک نے انہیں عالم رویا یعنی خواب کی حالت میں بہت جلد واپس کینیڈا جاتے بھی دیکھا، حالانکہ انہی دنوں علامہ صاحب نے اپنی ایک تقریر میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں اگر ملک میں انقلاب برپا کئے بغیر واپس جانے کی کوشش کروں تو مجھے شہید کردیا جائے، میرے خیال میں ان کے جان نثار مریدوں کو ان کی اس کوشش کا پتہ نہیں چلا ورنہ وہ اپنے مرشد کی بات کیسے ٹال سکتے تھے؟
علامہ صاحب میرے پسندیدہ سیاست دان ہیں اور یوں ان کی مدح سرائی میں مجھے اپنے محبوب سے گفتگو میں لطف آتا ہے، چنانچہ میرا ارادہ ان کی خدمت میں ابھی مزید گلہائے عقیدت پیش کرنے کا تھا، مگر اس دوران اسلام آباد سے پروفیسر رفیع اللہ صاحب کا مکتوب موصول ہوا وہ میں نے پڑھا تو محسوس کیا کہ حضرت والاکے حوالے سے ہم دونوں کی عقیدت میں بس انیس بیس کا فرق ہے، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ میری عقیدت کی شرح انیس اور ان کی بیس ہے، چنانچہ ان کا حق فائق سمجھتے ہوئےباقی کالم ان کے حوالے کررہا ہوں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ اللہ نواز حکومت جسے وہ ہٹلر اور مسولینی کی حکومت قرار دے چکے تھے، کو فوری گرانا نہیں چاہتا۔ مطلب کہ اللہ ہٹلر اور مسولینی کی حکومت ابھی گرانا نہیں چاہتا اور یہ کہ اب ہٹلر مزید حکومت کرے گا اور آئین و قانون بھی یہی رہے گا۔ قادری صاحب آپ تو ان کو گلیوں میں گھسیٹنا چاہتے تھے جو آپ کی علالت میں آپ کے منہ میں لقمے دیتے تھے، انہیں سولی پہ لٹکانا چاہتے تھے جو آپ کے جوتوں کے تسمے باندھتے تھے۔ آپ نے تو ان کی رائیونڈ کی جائیداد ضبط کرنے کی قسم کھائی تھی اور اسے غریبوں اور ناداروں کے حوالے کرنے کا عہد کیا تھا جو آپ کے مدرسوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ آپ نے تو ان کی لوٹی ہوئی رقم نکلوانا تھی اور پائی پائی کا حساب لینا تھا جو آپ کو اپنے کندھوں پہ بٹھا کر غار حرا کی زیارت کرواتے تھے۔ آپ تو اللہ عزوجل اور رسول ﷺ کے قریب تھے، آپ مقرب انسان تھے۔ آپ اتنا بڑا ہنگامہ بغیر کسی بشارت اور بغیر کسی خواب کے تو برپا نہیں کرسکتے۔ پھر یہ چالیس ضرب دو دنوں پر محیط گالم گلوچ والا چلہ کیوں کر اور کس لیئے کاٹا تھا۔ کیا ملک پاکستان جست لگا کر ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہوگیا؟ کیا چور، ڈاکو اور لٹیرے اس دنیا سے اٹھ گئے؟ یا پھر آپ کی انار کو تسکین اور مزید تقویت ملی؟ ویسے آپ کی نویدیں، بشارتیں اور تبرے سن کر بچے اپنی بلوغت کو پہنچ گئے۔ گلی محلے میں خطیب اور مفکر پیدا ہوگئے۔ مولوی، عالم اور مفتی توبہ تائب ہوگئے اور شرابیوں نے شراب پینا چھوڑ دی۔ سچا انقلاب برپا ہوگیا اور ایدھی دن دھاڑے لٹ گیا۔
اللہ کی عظمت کی قسم (بقول قاری صاحب) یہ وہ دھرنا تھا جس سے انقلاب برپا ہونا تھا نہیں تو شہادت کا رتبہ نصیب ہونا تھا۔ قبریں کھد گئیں تھیں اور زندہ لوگوں نے کفن اوڑھ لئے تھے۔ یہ وہ دھرنا تھا جس میں شہدائے لاہور کے حوالے سے قتل کے بدلے قتل (ویسے شہادت اور قتل کا کوئی جوڑ نہیں بنتا)، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، کان کے بدلے کان کا نعرہ تھا لیکن افواہ یہ ہے کہ سردی کی آمد سے قبل ہی 65کروڑ سے جیب گرم کر لی گئی اور ایمان تازہ ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ پچھلی بار 35 کروڑ کی رقم سے دھرنے کا روزہ افطار کرلیا گیا تھا، اگر یہ سچ ہے تو یہ جان رکھو کہ انشا ء اللہ آئندہ 100 کروڑ سے کم پہ بات نہیں ہوگی۔ اس انقلابی دھرنے کے حوالے سے اچھی اچھی پیش گوئیاں تھیں کہ نظم و ضبط سے سرشار ہوگا اور اک گملا تک نہیں لوٹے گا۔ جب اس کے سوار چیختے چنگاڑتے لاہور سے نکلے تو لوگ 14اگست کو بھول کر اپنے گھروں میں ٹی وی کے آگے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے کہ کون بازی لیجاتا ہے انقلابی مارچ والے یا آزادی مارچ والے؟ وطن کی محبت میں سرشار انقلابیوں نے جب اپنے کپڑے ان بلڈنگز کے جنگلوں پہ سکھانا شروع کیے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وقار کی علامت ہیں تو سچ پوچھئے کہ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر لوگوں کے سرشرم سے جھک گئے۔ جب ٹی وی کیمرے نے شاہراہ دستور اور ڈی چوک سے منسلک گرین بیلٹ اور پارکس کو بیت الخلا کے طور استعمال ہوتا اور گندگی کے ڈھیر دکھائے تو گھن آنا شروع ہوگئی اور جب لائیو کوریج کرنے والوں نے وہاں تعفن سے اٹھتی ہوئی بدبو کا ذکر کیا تو لوگوں نے سانس روک لیئے اور مزید شرمسار ہوئے جب پرامن دھرنے والوں نے قومی اثاثوں جیسا کہ پاکستان ٹیلی ویژن، وزیراعظم ہائوس اور پارلیمنٹ کی عمارتوں پہ حملے کئے تو ٹی وی دیکھنے والوں کے اعضا شل ہو کر رہ گئے کہ اپنے ہی اپنی عزت کی پامالی پہ تلے ہوئے ہیں، باہر سے کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے خود اپنے وقار پہ کالک ملی، اپنا دامن اٹھا کر واویلا کر کے اپنا تن تک دکھا ڈالا۔ ابھی کسر باقی تھی کہ پاکستانی کرنسی (نوٹوں) پہ نازیبا نعرے لکھوا کر قومی وقار اور بھرم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
یہ دھرنا شہدائے لاہور کے سوگ میں تھا، ان کے خون کے قطرے قطرے کی قیمت وصول کرنا تھی۔ حکمرانوں کے انخلاء تک اورنئے نظام کے نافذالعمل ہونے تک کے وچن تھے اور ہم نے دیکھاکہ یہ سوگ تبلوں کی تھاپ پر ناچ ناچ کر منایا گیا، ہم نے دیکھا کہ یہ اس سوگ میں لالی، پائوڈر، سرخی اور فیشن کی بھرمار تھی۔ ہم نے دیکھا کہ اس سوگ میں شادیانے بجے ، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور مبارکبادیں دی گئیں۔ عجیب سوگ تھا، عجیب انتقام تھا اور عجیب انقلاب تھا کہ لکھنے والےچیخ اٹھے کہ کیا لکھیں جب کچھ لکھنے کے لئے سوچ قلم کا ساتھ دیتی ہے تو قادری صاحب کا بیان اور ڈیڈ لائن تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہماری تحریریں مسخرہ پن ہیں یا جس کے بارے میں لکھ رہے ہیں کہ وہ ہے۔ یہ کیسا انقلابی دھرنا تھا کہ جس میں بعض ہنستے بستے گھر اجڑ گئے اورآخر میں جب اس امر کا انکشاف ہو کہ اللہ نواز حکومت کو فوری گرانا نہیں چاہتا تو سب ششدر ہو کے رہ گئے کہ چالیس ضرب دو دنوں پہ محیط یہ سب کیا تھا؟ جب انقلابیوں نے روتے ہوئے اپنے خیمے لپیٹے تو راوی کہتا ہے کہ ان کے پاس واپسی کا کرایہ تک نہ تھا، خالی ہاتھ اور خالی جھولی واپسی کا سفر اتنا بھاری تھا کہ اگر اسلام میں خودکشی کی ممانعت نہ ہوتی تو اسلام آباد کی انتظامیہ کو کوئی 1000 کے قریب لاشیں اٹھانا پڑ جاتیں۔ وہ معصوم لوگ جو خالی ہاتھ اور خالی دامن واپس لوٹے ہیں وہ اپنے گلی محلے اور حلقہ احباب کا کیسے سامنا کریں گے اورانہیں کیا بتائیں گے اورکیسے بتائیں گے کہ ہم کہیں کے نہیں رہے۔ کیا ہمیں اس قسم کے انقلاب کی ضرورت ہے کہ قوم تماشا بن جائے، سارا ملک مفلوج ہو کر رہ جائے، اربوں روپئے کا نقصان کر بیٹھو، اپنے ملک میں آنے والی سرمایہ کاری پہ کاری ضرب لگادو، اپنے قومی اداروں کو متعصب بنا دو، اپنی انا کی تسکین کے لئے اور دوسروں کی خواری کے لئے قرآن و حدیث کا بیجا استعمال کرو۔ اگرہم باشعور اور پڑھے لکھے اس ڈگر پہ چل پڑے تو باقی سادہ لوح کیا کریں گے۔ کیا انقلاب کا حاصل یہی کچھ تھا؟