• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری ریاست اور معاشرہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ شہریوںکو اُن بنیادی انسانی حقوق کی ہر گز ضرورت نہیں جو آئین میں درج ہیں۔ یہ حقوق اُنہیں صرف اسی صورت دئیے جاسکتے ہیں جب ریاست اپنے سیکورٹی چیلنجز سے نمٹ لے ۔ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد ہم بہت فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بہت قوت ِ برداشت رکھنے والی قوم ہیں۔ اس دعوے کے بعد پھر ہم انسانی جانیں بچانے کی ضرورت یا زحمت سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ اب تو ہلاکتوں کابھی تخمینہ ہی لگایا جاتا ہے، اور اگر ریاست کے اندازے میں ہلاک ہونے والوں کی تعدادپانچ یا دس فیصد غلط بھی نکل آئے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
اس ہفتے سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائے موت پانے والے مجرموں کی اپیلیں مسترد کردیں۔ اس فیصلے کو غیر معمولی قرار نہیں دیا جاسکتاکیونکہ جب فاضل عدالت نے اکیسویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کو سویلینز پر مقدمات چلانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے سے نہ تو انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے اور نہ ہی طاقت کے دھڑوں کی علیحدگی کا تصور مجروح ہوتا ہے ، تو پھر ایسے ہی فیصلوں کی توقع تھی ۔ تاہم یہ فیصلہ ہماری قانون سازی پر ایک دھبے کی مانند ضرور رہے گا، اور ہمیں ایک نہ ایک دن اسے ختم کرنے کی ضرورت پیش آئے گی ، خاص طورپر اُس وقت جب ہم ہر معاملے میں فوج پر انحصار کرنے کی پالیسی سے اجتناب کرنا چاہیں گے۔
اکیسویں ترمیم کے تحت کیسز چلانے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ تھی کہ قومی اتفاق ِرائے سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کے لئے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو رازداری میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ یقیناََ عدالتیں قومی پالیسی نہیں بنا سکتیں، چنانچہ یہ عدالتوں کا کام نہیں کہ وہ ایگزیکٹوکو بتائیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کس طرح لڑنی ہے ، یا قانون ساز اداروں کو ہدایت دیں کہ آئین کا مواد کیا ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے عدالت یہ سب کچھ نہیں کہہ سکتی ۔ جوبات کہنی ضروری تھی وہ یہ کہ اس کے پاس آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا اختیار ہے۔ یہ پارلیمنٹ کے اکثریتی فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے سکتی ہے ۔ تاہم اس نے فوجی عدالتوں کے قیام کو بنیاد فراہم کرنے والی اکیسویں ترمیم کو منسوخ نہ کیا۔ اس کے نزدیک فوجی عدالتوں کی طرف سے پردے کے پیچھے شہریوں کا ٹرائل کرنے سے آئین کی کوئی اقدار اور اصول مجروح نہیں ہوتے ۔ چنانچہ اکیسویں ترمیم کے بعد جوڈیشل نظر ِ ثانی کی بہت کم گنجائش باقی بچی تھی۔
تازہ ترین فیصلے میں سزائے موت کے مجرموں کی اپیلیں آئین کے مطاق ہی مسترد کی گئیں (وہ آئین جس میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی تھی)۔ فاضل عدالت کا کہنا ہے کہ ان فیصلوں میں آئین کی روح کو مقدم رکھا گیا ہے ، نیز سزا پانے والے ملزموں کے جرائم فوج کے دائرہ کار میں آتے ہیں، نیز فیصلے کرنے والے افسران نے قانون کو اس کی روح کے مطابق ہی استعمال کیا تھا ، اور سزا سناتے ہوئے کسی ذاتی عناد کو اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی ۔ ظاہر ہے کہ اکیسویں ترمیم کے بعد یہ فیصلہ کس طرح غلط قرار دیا جاسکتا ہے ؟ریاست کی طرف سے کیس میں کیے گئے انصاف کو جانچنے کا معیار اس قدر پست ہے کہ یہ فیصلہ غلط ثابت ہوہی نہیں سکتا۔ روایتی طور پر ہم انصاف کو جانچنے کے لئے جو معیار مد ِ نظر رکھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ منصف غیر جانبدار ہوں اورجسٹس سسٹم شفاف طریقے سے کام کرے ۔ اس کے لئے کچھ دیگر اصول بھی ہیں، جیسا کہ ’’جرم ثابت ہونے تک بے گناہ سمجھنا‘‘، یا ’’انصاف صر ف ہونا ہی نہیں چاہئے، ہوتا دکھائی بھی دینا چاہئے ۔‘‘
تاہم ہمارے ہاں یہ اصول اب متروک ہوچکے ہیں۔ اب پاکستان میں شہریوں کے اس حق کو عملی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا کہ گرفتار شدہ شخص کو خفیہ خانوں میں بند نہیں رکھا جائے گا، گرفتاری کے وقت الزامات بتائے جائیں گے،گرفتار شدہ شخص کو بلاتاخیر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ اب قانونی طریق ِ کاربے گناہی کے معیار کو تسلیم نہیں کرتا۔ غیر جانبدار منصف کا زیادہ سے زیادہ معیار یہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی ذاتی تعصب نہ رکھتا ہو، چاہے وہ یونیفارم میں اُن افسران کے ماتحت ہو جنھوں نے آپ کو گرفتار کرنے کے بعد تحقیقات کی ہیں۔ ہماری ریاست اور معاشرے نے مجموعی طور پر یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑی جاسکتی ۔ نیز یہ بھی مان لیا کہ ان حقوق کو سلب کرنے کے عمل کی نگرانی نہیں کی جاسکے گی۔ ہم یہ بھی تسلیم کرچکے کہ ہماری سیکورٹی کی موجودہ صورت ِحال ایسی ہے کہ اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم یہ بات مان چکے کہ ہماری سیکورٹی فورسز جن کے خلاف لڑرہی ہیں، وہ حتمی طور پر غدار ہیں، نیز جب افراد کو فورسز، جج، پولیس یا سزا سنانے والوں کا یونیفارم پہنا دیا جاتا ہے تو اُن سے غلطی سرزد نہیں ہوسکتی۔ ہم نے یہ سوال اٹھانا بھی موقوف کردیا ہے کہ ایک گرفتار شدہ ملزم، فرض کریں کراچی سے ، کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟ہم اس سوال کی بھی زحمت نہیں کرتے کہ کیا کسی جرم پر سنائی گئی سزا کی درست تحقیقات ہوئی تھیں، اور کیا میڈیا کے سامنے کرائے گئے اعترافات کسی بدترین تشدد کا نتیجہ تو نہ تھے ؟ہم نے صیحیح اور غلط کی بابت سوال اٹھانا چھوڑ دیا ہے ، کیونکہ ہمارے معاشرے میں ان کے پیمانے سمٹتے جارہے ہیں۔ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جو معاملات کو باریک بینی سے دیکھنے سے قاصر ہے ۔ ہم استعمال کی گئی قوت اور کی گئی تحقیق پر سوال اٹھانے کے حق میں نہیں۔ ہمیں کوئی غرض نہیں کہ ملک اسحاق یا سری لنکن ٹیم پر حملہ کرنے والوں کو کس طرح بھی سزا دی گئی ؟ ہوسکتا ہے کہ وہ واقعی مجرم ہوں لیکن اُنہیں قانونی طریق ِ کار اختیار کیے بغیر مبینہ مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔ ہم اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ شہریوں کی لاشیں بوریوں سے برآمد ہورہی ہیں یا وہ ’’غائب ‘‘ ہورہے ہیں ، کیونکہ ریاست کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے، اس کا اتناکہنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے ۔
اگر ہمیں یقین ہے کہ ایم کیو ایم کے کچھ کارکن دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے توہم رینجرز کی طرف سے اٹھائے گئے ہر اقدام کی حمایت کریں گے ، لیکن تھوڑی دیر کے لئے رک کر ریاست سے یہ سوال پوچھنے کی زحمت نہیں کریں گے کہ جب ایم کیو ایم کے کچھ کارکن مبینہ طور پر راسے ٹریننگ حاصل کرنے انڈیا جارہے تھے تو ریاست کیا کررہی تھی؟ہم یہ سوال بھی نہیں کرپارہے کہ ہماری ریاست منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین کو سزا دینے کے لئے کلی طور پر برطانیہ پر ہی تکیہ کیوں کررہی ہے ؟اس کے دیگر ملزمان کو پاکستان میں سزا کیوں نہیں دی جاسکتی، خاص طور پر جب وہ رقم کراچی میں بھتہ خوری کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے اکٹھی کی گئی تھی؟
کیا ہم ریاست کو مستقل طور پر ان ہنگامی اصولوں کی بنیادپرچلانا چاہتے ہیں کہ معمول کے اصول وضوابط کے تحت ریاست کے مفادات کا تحفظ ممکن نہیں؟کیا ہم اخلاقی سمت کھورہے ہیں؟ ہم دہشت گردوں، ان کی برین واشنگ کرنے والوں، ان کے حامیوں، ان کے سہولت کاروں کے ساتھ ساتھ بوری بند لاشوں، افراد کو غائب کرنے والوں اور مشکوک مقابلوں میں ہلاک کرنے والوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے ؟بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں جبر اور بلوچستان میں مداخلت پر تنقید کرنے والے لشکر ِ طیبہ، جیش ِ محمد اور طالبان کے حوالے سے ریاست کی غلط پالیسیوں پر تنقید کیوں نہیں کرسکتے ؟بات یہ ہے کہ حب الوطنی ایک قابل ِ قدر جذبہ ہے ، لیکن یہ ریاستی اداروں کے احتساب کا متبادل نہیں ۔ اگر حب الوطنی اور خوف کے چابک سے قانون کی حکمرانی کو ختم کرنے اور ریاست کے غلط رویوں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کی زبان بند کردی جائے تو اس سے ریاست طاقت ور نہیں، کمزور ہوگی۔ اگر ہم اس مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں ہم ریاست کی سیکورٹی کے نام پر ہر قتل کو جائز سمجھتے ہیں تو یقین کرلیں کہ ہم نہ صرف صیحح اور غلط کا فرق کھوتے جارہے ہیں بلکہ ہمارے طاقتور اور محفوظ ہونے کا تاثر بھی غلط ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 کہتا ہے ۔۔۔’’کسی شخص کو بھی زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جائے ، سوا ئے قانون میں درج طریق ِ کار کے ‘‘۔ اکیسویں ترمیم اور دیگر قوانین کے ذریعے ہم نے قانونی طریق ِ کار کے معیار کو اتنا گراد یا ہے کہ جان لینے کا جواز نکل ہی آتا ہے ۔ جہاں تک آزادی کا تعلق تو ہمارے ہاں اس کا مسخ شدہ تصور یہ ہے کہ شہری اپنی آزادی سے اپنے نمائندوں کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ ان کی آزادی کا تحفظ کریں لیکن وہ صاحبان ِ اختیارعوام کی ہی آزادی سلب کرنے پر تل جاتے ہیں۔


.
تازہ ترین