کراچی یونیورسٹی کا شکریہ کہ یوں تو ہر سال وہ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری کرتی ہے مگر اب کے برس ڈاکٹریٹ کی ایک ایسی ڈگری دی گئی ہے جس نے راولپنڈی اسلام آباد کے سارے قلمکاروں کو ایک جگہ جمع کردیا ہے یہ مجمع اسلام آباد میں پاک میڈیا فائونڈیشن میں گزشتہ سوموار کو سجا تھا۔ سید سجاد بخاری جو برسہا برس سے سینیٹ کے ممبر ہیں، جیالے ہیں۔بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں سینئر صحافی ہیں، ہمارے نوجوانی کے تعلق داروں میں سے ہیں۔ وہ گزشتہ چند برس سے اسلام آباد کی پاک میڈیا فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے قائد اعظم آڈیٹوریم 9/8 مرکز میں ڈاکٹر زاہد حسین چغتائی کے اعزاز میں محفل آرائی کی تھی جنہیں کراچی یونیورسٹی نے اس سال پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ کی ہے۔ یہ خالص ادبی علمی اور دوستوں کی تقریب تھی۔ پروفیسر، ڈاکٹروں اور سینئر صحافیوں کا اجتماع تھا۔ اگر کوئی سیاسی شخصیت اس تقریب میں تھی بھی تو وہ اپنے ادبی حوالے سے موجود تھی۔ مثلاً سید سجاد شاہ بخاری اگر سینیٹ کے ممبر ہیں یاچہیتے جیالے رہے ہیں تو تقریب میں بحیثیت شاعر اور ادیب کے شریک تھے۔ ان کاپہلا شعری مجموعہ’’ فیصل درد‘‘ جو 1977ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد اب 37 برس بعد ہماری ملاقات ہوئی، اسی طرح حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کےنئے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر شاہد صدیقی سے34 سال بعد ملاقات ہوئی جبکہ ہم ایک ہی شہر میں رہتے ہیں۔ دراصل اسلام آباد ہے تو بابوئوں اور گریڈوں کا شہر مگر اس کا مزاج وڈیروں جیسا ہے، جو اپنی حویلی کی چھت پر تنہا بیٹھے مونچھوں کو تائو دیتے رہتے ہیں۔ محترمہ بشریٰ رحمٰن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اسلام آباد میں سبزے کا رشتہ ہے ایک گھر کی بیل دوسرےگھر میں جاری ہے مگر دونوں گھروں کے مکینوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ اس بے حسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کی ادبی تقریبات مشاعرے راولپنڈی کےادبی آستانے اسلام آباد کے ادبی گھرانے کچھ خاموش ہیں اور بعضوں کے مقیم شہر خاموشاں میں جابسے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب میں بچھڑ جانے والے ادیبوں،شاعروں کو بہت شدت سے یاد کیا گیا، جن کی محفلوں میں بیٹھ کے علم میں اضافہ ہوا کرتا تھا۔ قدرت اللہ شہاب،ممتاز مفتی،منصور قیصر،فوق لدھیانوی، فضل حق۔ پوٹھوہار کا بابائے اُردو عبدالعزیزفطرت،یوسف ظفر،کرم حیدری، سید عبدالحمید عدم، جام نوائی،نسیم میرٹھی، ڈاکٹر بشیرسیفی، پروفیسر صدیق چیمہ، پروفیسر نجمی صدیقی، ڈاکٹر رشید نثار،کرنل محمد خان، سید ضمیر جعفری، جنرل شفیق الرحمٰن، حفیظ جالندھری، ایوب محسن، پروفسر شوکت واسطی، ضیاءجالندھری، عبدالباری رانا، اخترہوشیار پوری،جوش ملیح آبادی، پروفیسر پریشان خٹک،انوار فیروز اور قمر صدیقی کو بہت شدت سے یاد کیا گیا۔ اس تقریب میں سب لکھاریوں اور دوستوں کا مدتوں بعد جمع ہونا ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کی محبت اورحسن سلوک کا کرشمہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے راولپنڈی کے ایک مرد درویش جناب عزیز ملک پر پی ایچ ڈی کی ہے، عزیز ملک کو شیخ نذیراُردو ادب کا حجرہ شاہ مقیم کہا کرتے تھے۔راولپنڈی کا قطب بھی انہیں کہا گیا۔ممتاز مفتی نےکہا تھا انکی تحریروں میں جو رس ہے وہ عزیز ملک کی صحبت کا اثر ہے۔سید ضمیر جعفری نے انہیں کتابی چہروں میں شامل رکھا، عزیز ملک کے دادا مولوی ہدایت اللہ نے سب سے پہلا قرآن کا پنجابی ترجمہ کیا تھا۔ عزیز ملک بیسیوں کتابوں کے مصنف تھے۔سیرت اورتاریخ کی نادرکتابوں کے علاوہ ’راول دیس‘ نامی جو ان کی دسویں کتاب تھی۔ راولپنڈی کی تاریخ کی ایک مستند جھلک تھی۔ عزیز ملک اپنے دور کے باکمال انشاء پرداز تھے ان کی تخلیقات عصری ادب کی پہلی قطار میں جگہ پاتی رہیں۔ عزیز ملک بھی راولپنڈی گورڈن کالج میں پڑھے تھے۔ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی بھی گورڈونین ہیں۔اسلام آبادکی پاک میڈیا فائونڈیشن کی اس تقریب میں تاحد نظر گورڈونین ہی گورڈونین تھے۔ تقریب کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی کی تھی اور تقریب کے مہمان خاص، ڈاکٹر نسیم، ڈاکٹر پروفیسرمقصود جعفری، ڈاکٹر پروفیسر احسان اکبر، ڈاکٹر جمال ناصر اور جسٹس عباد الرحمٰن لودھی تھے۔ تقریب کی نظامت معرو ف شاعرآفتاب ضیاء کے سپردتھی۔ مقررین میں اُردو یونیورسٹی کے ڈاکٹر پروفیسر وسیم انجم اور ڈاکٹر پروفیسر فہمیدہ تبسم، ایڈوکیٹ قاضی عارف، الیکشن کمیشن والے کنور دلشاد، ڈاکٹر مظہر قیوم ،جناب عبدالباقی رانا، محترمہ عائشہ مسعود ملک، جناب صفدر قریشی، جناب علی محمدفرشی اور عبید بازغ شامل تھے۔تقریب کے مہمان اعزاز جناب منور حسن راہی تھے۔ منور حسن راہی ذوالفقار علی بھٹو کے اسسٹنٹ سیکریٹری رہے۔اس سے پہلے فوج میں تھے۔ سیٹلمنٹ کمشنر آفس میں بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں راہی صاحب نے صحافیوں اور دیگر اہل قلم کے لئے پاک میڈیا فائونڈیشن کی بلڈنگ بنواکر اسلام آباد میں علمی ادبی، مذہبی اور دیگر تقریبات کیلئے ایک بہت بڑی سہولت فراہم کردی۔ راہی صاحب سے 1995ء سے اب 19 سال کے بعد ملاقات ہوئی۔آجکل وہ اپنی یاداشتیں مرتب کررہے ہیں۔ 1996ء سے پاک میڈیا فائونڈیشن کے سیکریٹری ہیں۔ ان کی ذاتی لائبریری میں قریب قریب 20 ہزارکتابیں ہیں لیکن ان سب کتابوں میں ان کی پسندیدہ ترین کتاب ’’چھوٹے لوگ‘‘ ہے یہ کتاب میں نے 2000ء میں لکھی تھی اس میں میری صحافتی زندگی کی35 سالہ یادیں ہیں جن لوگوں کو بڑا بلکہ بہت بڑا سمجھتا تھا۔ قریب جاکر دیکھا تو چھوٹے نکلے۔ ہم سب دوست جب ایک دوسرے سے 25 یا 30 سال بعد ملے تو یقیناً حالات میں تبدیلی آچکی تھی۔ ہم تختی، سلیٹ والے لوگ ہیں۔ سب ٹاٹ فیلو تھے۔اب ڈیسک اورکمپیوٹر آگئے ہیں یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی اورڈاکٹر نسیم صاحب نے تقریب میں پروفیسر شوکت واسطی کا یہ شعر سنایا کہ
شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارازمانہ چلا گیا
ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے عزیز ملک پر پی ایچ ڈی کرکے دو بڑے کام کئے ہیں ایک یہ کہ عزیز ملک نوجوان نسل کے ذہن میں تازہ ہوگئے اور دوسرا یہ کہ بہت حدتک راولپنڈی کی تاریخ کا احاطہ ہوگیا ہے۔ لاہور میں ہمارے قلمکار مہربان دوست جناب فرخ سہیل گوئندی جو اکثر مجھے اسلام آباد کی تاریخ لکھنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ ان سے کہوں گا کہ ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کا مقالہ ’’عزیز ملک فن اور شخصیت‘‘ کو کتابی صورت دے کر ادب اور تاریخ کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قلبی تسکین بھی کرلیں کہ یہ مقالہ راولپنڈی اسلام آباد کے علاوہ عصری تاریخ بھی ہے۔ ڈاکٹرشاہد صدیقی کے بقول علم و ادب کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اسکالرمعاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہدحسن چغتائی کی شخصیت کا ایک بابرکت پہلو یہ بھی ہے کہ ممبر سینٹ سید سجاد بخاری نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ مشاعروں کا سلسلہ شروع کررہے ہیں جبکہ وائس چانسلر علامہ اقبال یونیورسٹی ڈاکٹر شاہد صدیقی نےکہاکہ وہ عنقریب ایک مصنف ایک کتاب کے عنوان سے لیکچروں کا آغاز کرنے جارہے ہیں جس میں ملک بھر سے صاحب کتاب مصنفین کو دعوت خطاب دی جایا کرے گی۔راولپنڈی اسلام آباد کے اہل قلم نے مدتوں بعد یکجا ہو کر بہت خوشی محسوس کی۔ اس تقریب کو جڑواں شہروں کی کئی ایک علمی و ادبی تنظیموں کی حمایت حاصل تھی جس میں ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان کا پنا، نسیم سحرکی تنظیم اور آفتاب ضیاء کی سخنور کے علاوہ اکادمی ادبیات کے طارق شاہد کی محبتیں بھی شامل تھیں۔ راولپنڈی کے عبدالستار ایدھی اور جوان فکر ودانشور سوشل ورکر ڈاکٹر جمال ناصر جنہیں اس برس صدارتی ستارہ حسن کارکردگی بھی ملا انہوں نے ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی سے والہانہ عقیدت اورمحبت کا اظہار کرتے ہوئے جب محسن نقوی کا یہ شعر ان کی نذر کیا تو پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا کہ
مجھے سمجھائو مت محسن کہ اب تو ہوچکی مجھ کو
محبت مشورہ ہوتا تو سب سے پوچھ کر کرتا
اسلام آباد میں پاک میڈیا فائونڈیشن کا وجود غنیمت ہے ایک جھلسے ہوئے ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔