جھنگ پہلی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا جو اُن پانچ اضلاع میں سے ایک ہے جسے برصغیر کے پنجاب میں 1849ء میں قائم کیا گیا۔ محترم نصیراحمدسلیمی کی خواہش پر مجھے 8نومبر کو کیڈٹ کالج جھنگ میں ’’پہلاکل پاکستان بین الکلیاتی اُردوو انگریزی گوہرصدیقی مقابلہ حُسنِ خطابت‘‘ میں بطور مہمان خصوصی حاضری دینا تھی جبکہ تقریب کی صدارت جناب الطاف حسن قریشی نے فرمانا تھی۔مجھے ذاتی طور پر تقریب میں مہمان خصوصی ہونے سے زیادہ صدرِتقریب کے پہلو میں بیٹھنے کی خوشی تھی۔ دوستوں کے مشورہ کے مطابق مجھے اسلام آباد سے زیادہ سفرموٹروے پر کرتے ہوئے پنڈی بھٹیاں۔ چنیوٹ سے ہوتے ہوئے جھنگ جا نکلنا تھا۔ہم نے اس کے بر عکس شارٹ کٹ مارتے ہوئے بھیرہ سے اُتر کر پہلے شاہ پور کو سلام کیا پھر خوشاب کو چیرتے ہوئے تقریباً پانچ گھنٹوں میںہیر کے شہرجا پہنچے۔ دورانِ سفر سڑک کبھی پتلی، کبھی کشادہ اور یک لخت ندارد۔ گاڑی واجبی رفتار سے دوڑتی رہی مگرمتوقع مہمان خصوصی خاصے غیر واجبی انداز میں اچھلتے کودتے رہے۔ دورانِ سفرپنجاب کی بے ہنگم آسودگی اور خوشحالی، ایزی لوڈ کے اشتہارات، موٹرسائیکلوں کی بھرمار، ٹریکٹر ٹرالیوں کی یلغار، ’’ چنگ چی‘‘ پرلدے ہوئے چِنکے اورچِنکیاں اور صبح سویرے سڑک کے کنارے بیٹھی ہوئی ہٹی کٹی بھینسوں اورکٹیّوں کی جگالی دیکھ کر انقلابی تبدیلی کو قریب سے دیکھنے کانادر موقع ملا۔ شاہ جیونہ سے گزرے تو اپنے دوست فیصل صالح حیات کی دولہے کے لباس میں تصویروں کو کھمبوں سے لٹکے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ کچھ ہی لمحو ں کے بعد ہم جھنگ شہر کے اندراور کیڈٹ کالج جھنگ کے باہر کھڑے تھے۔ کالج کا منظر اور پھر چاق و چوبند وردی میں ملبوس طلباء سے سلامی لینے کے بعد سفر کی ساری تکان جاتی رہی۔ حسنِ خطابت کا مقابلہ کالج کے وسیع میدان میں ایک دیدہ زیب پنڈال کے اندر منعقد کیا گیا تھا جس میں کثیر تعداد میں مردوخواتین، طلباء و طالبات نے شرکت کی۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ تقریب کا آغاز صبح 9 بجے ہوااور شام 4بجے تک بغیر کسی نقاہت کے مقررین کی تقاریر سامعین کی تالیوںکی گونج میں چلتی رہیں۔
قارئین کرام! میں بذاتِ خود ایک کیڈٹ کالج کی پیداوار ہوں۔ وہ کیڈٹ کالج جس پرپاکستان آرمی کا براہِ راست سایہ رہتا ہے۔ یعنی ہر شعبے میں منصوبہ بندی، ترتیب اور ڈسپلن کی کوئی کمی نہیں مگر کیڈٹ کالج جھنگ کی اس تقریب میں شمولیت کے بعد یوں لگا جیسے اسے کسی انتہائی منظم ادارے کی سرپرستی حاصل ہے لیکن جلد عیاں ہواکہ یہ ادارہ ایک شخص ’’پروفیسرگوہرصدیقی‘‘ کے اندر ہی موجود ہے جواِن تمام خوبیوں اورصلاحتیوں کے مالک ہیں جن کی جھلک طلباء اور طالبات کی تقریروں میں جھلک رہی تھی۔آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جناب گوہر صدیقی جنہوں نے 60 برس پہلے اس کارِخیر کا آغاز کیا اورآج81 سال کی عمر میں بھی کھڑے ہو کر پڑھاتے ہیں۔ ماشااللہ ان کی لگن کو دیکھیے کہ انہوں نے اپنے بیٹے لیفٹیننٹ کمانڈر (ریٹائرڈ) صہیب فاروق کو نوکری سے استعفٰی دلا کر اس راستے پر لگایا جو آج اس ادارے کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ بیٹا بھی باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بیٹے یعنی پروفیسر گوہر صدیقی کے پوتے خبیب فاروق کو بھی اسی راہ پر لے آیا جو آج علی کوثرجعفری ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے صدر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ طلباء اور طالبات کی خود اعتمادی اور بے باکی خوش کن تھی۔ دور دراز علاقوںسے آئے ہوئے بچوں کی تقاریر، ان کازبان پر عبور اور اندازِ ادائیگی بے حد متاثر کن تھی۔ کالج کی سہولیات، رہن سہن اورطلباء کو سونپی گئی ذمہ داریا ں یعنی استقبالیہ ،سیکیورٹی اور رہنمائی سے لے کر تقریری مقابلوں کی صدارت تک سب کچھ طلباء اور طالبات کے ہاتھ میں تھا۔تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ جذبہ پاکستانیت اور بین المذاہب ہم آہنگی دیدنی تھی۔جناب الطاف حسین قریشی نے کالج کی لائبریری کا افتتاح فرمایا ۔ نقاب کشائی کے پردے کی رسی کے سرے کا کچھ حصہ جناب سجاد میر اور میرے ہاتھ بھی آیا۔ لائبریری جس میں ۴۰۰۰سے زائد کتب موجود ہیں اس کو چوہدری رحمت علی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ میں داد دیتا ہوںچوہدری رحمت علی میموریل سوسائٹی کو جس نے تحریک پاکستان پر لکھی ہوئی کتابوں کا انمول عطیہ اس لائبریری کی نذر کیا۔ نیا پاکستان بنانے کیلئے کوشاں اس قوم کو پاکستان کی تاریخی بنیادوںکا علم حاصل کرنااور سمجھنا ضروری ہے۔ تقریب کے ا ختتام پر جناب سجادمیر، ڈاکٹر طاہرمسعوداورجناب الطاف حسین قریشی کی ولولہ انگیز تقاریر سے حاضرین اور خاص طور پر میں بذات خود بہت مستفید ہوا۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ ایک خالص فوجی اور تین سویلین دانشوراس طویل تقریب کے دوران ایک پیج پر ہی رہے۔
قارئین کرام! اس پُر مسرت موقع پر جہاں خوشی سے دل باغ باغ ہوا وہاں ایک دِلخراش خلش بھی پیدا ہوئی اور وہ اپنے سرکاری سکولوں کی حالت زار کے بارے میں سوچ کرجن میں اگر سکول ہے تو اس میں مقامی وڈیرے کی بھینسوں کا ڈیرہ ہے، سکول کی بلڈنگ ہے تو بیٹھنے اور پڑھنے کا سامان موجود نہیں، بورڈ ہے تو چاک نہیں، طالبعلم ہیں تو استاد نہیں اور بیٹھنے کے لئے آج بھی ٹاٹ اور کرسی کی بجائے پتھر کا استعمال ہورہا ہے۔ یہ سب حکومتی سرپرستی اور ذرائع کے باوجود کیوں ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہی نظر آیا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود اگر کمی ہے تونیت اور عزم کی ! کاش متعلقہ حکومتی ادارے اب بھی جاگ جائیں اور کیڈٹ کالج جھنگ کے منتظمین جیسے لوگوں سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے ملک کی نئی نسل کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ سب کچھ ممکن ہے۔ آخر میں علامہ اقبال کا شعر پیش خدمت ہے: ؎
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔاپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
آپکا ضمیر