• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ یہ سوچ کر گئی تھی کہ بہت سردی ہوگی مگر وہاں تو خشک ہوا نے ساری سردی اڑا دی تھی۔ ہر دفتر اور ہر گھر میں گیس بھرپور آرہی تھی۔ میں نے زبان نہیں کھولی کہ اسلام آباد میں تو گیس ہی نہیں آرہی ورنہ جواب آتا کہ ایک عمر تک تم لوگوں نے بلوچستان کو گیس سے محروم رکھا اب گلہ کس بات کا۔ مگر گلہ گزار تو بلوچی ادیب اسی طرح تھے جیسے کہ ایک زمانے تک بنگالی ادیب ہوا کرتے تھے۔ شکایتیں یہ کہ ساری مرکزی نوکریوں سے لے کر میڈیا تک پر پنجاب کا قبضہ ہے۔ رسالے ہوں کہ اخبار کہ ٹیلی وژن پروگرام، انہوں نے کہا کہ ہمیں تو بلوچی زبان کے علاقائی پروگراموں میں دھکیل کر، خود کو پروموٹ کرتے ہیں۔ میری وضاحتوں کےباوجود کہ ادب کوتوکسی کھاتے میں میڈیا والے ڈالتے ہی نہیں اور جواب یہ دیتے ہیںکہ ادبی پروگراموں کیلئے اشتہار نہیں ملتے ہیں۔ یہ بھی گلہ تھا کہ بلوچی لوگ اپنے علاقے کی صعوبتوں کو جب سامنے لاتے ہیں تو اخباروں کے کرتا دھرتا، یا تو وہ سارا مضمون اپنے نام سے شائع کردیتے ہیں یا پھر سارا مضمون غتربود کردیتے ہیں۔ گلہ یہ بھی تھا کہ ہمارے علاقے کے مسائل کی جانب توجہ ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے علاقے میں جو معدنیات اور سونا نکل رہا ہے۔ ہمارے لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ تو نہیں پہنچ رہا۔ بلوچستان کا علاقہ 52 فیصد پاکستان کے کل رقبہ پر محیط ہے مگر یہاں صرف 5 فیصد آبادی ہے۔ میں نے یہ سنا تو واپسی پہ میں نے ونڈو والی سیٹ لی کہ پورے علاقے کا سروے کرسکوں۔ جہاز نے جیسے ہی اڑان بھری، چاروں جانب مٹیالے پہاڑ اور ویران زمین دکھائی دی۔ جہاز کو چلتے ہوئے 45منٹ ہوگئے۔ مجھے ونڈو سے وہی ویران مٹیالی پہاڑی علاقہ دکھائی دیتا رہا۔ میرے ساتھ ایک وکیل صاحب بیٹھے تھے۔ پوچھا یہ ویرانی آخر کب تک چلے گی۔ بولے ڈی آئی خاں تک بیٹھے ہوئے پچاس منٹ ہوئے کہ دور سے پانی کی رمق نظر آئی۔ وکیل صاحب نے کہا ’’یہ چشمہ کی جھلک جو آپ کو دکھائی دی ہے۔‘‘ میں سوچنے لگی کہ سوویت یونین نے صحرائے گوبی اور وسط ایشیاء کے پورے علاقے کو کیسے آباد کرلیا تھا۔ وہ سارے مغل اور تیمور، سب انہی علاقوں سے آئے تھے۔ یہ چین جو ہمیں دوستی کے نام پر آبادکاری کرنے کے دلاسے دے رہا ہے۔ جب کاشغر سے لے کر گوادر تک سڑک بن جائے گی اور سڑک کے کنارے آبادیاں خود بخود پھیل جائینگی۔ خیر یہ ہماری زندگی میں نہ ہو، ہمارے بچوں کی زندگی میں تو ہوگا ہی۔بھلا میں کوئٹہ کس سلسلے میں گئی تھی۔ جہاں آرا تبسم نے عورتوں کے حوالے سے سہ روزہ تقریبات منعقد کی تھیں جس میں مشاعرہ بھی تھا۔ بے شمار تقریبات، بچوں اور عورتوں کو نئے راستے دکھانے کے لئے وڈیو، آڈیو اور تقاریر کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل اورجنسی ہراسانی کے موضوع پر نوجوان طلباء اور طالبات کے درمیان مصوری کا مقابلہ بھی تھا اور ان کو انعامات بھی دئیے گئے تھے۔کمال تو صبر اور استقامت کا تھا وزیر موصوف کھوسو صاحب اور سیکریٹری شکوہ صاحب کا کہ ہر تقریب میں شامل رہے اور جہاں آرا کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔جب میں شہرکوئٹہ میںہوں اور لوگوں کو خبر نہ ہو۔ یہ تو ناممکن تھا روٹری کلب والوں نے خاص تقریب کا اہتمام کیا۔ موضوع گفتگو وہی تھا کہ لوگوں کو کیوں اور کیسے مارا جارہا ہے۔ کس طرح خواتین بازار جاتے ہوئے گھبرا جاتی ہیں۔ کیسے شوہروں اور بچوں کے خیریت سے لوٹنے کی دعائیں کرتی ہیں۔ ایک بہت خوب صورت اور پر لطف لنچ کا اہتمام جسٹس کو ہلی نے کیا جہاں دوستوں سے ملاقات میں بھی یہ موضوع تھا تو سہی، مگر یہ لطف کھانے کی طرف اور مسٹر جے کوہلی کی جانب باتوں کا رخ مڑ گیا۔ سارے شہر میں ملالہ نظم تو یاد تھی مگر جب مشاعرے میں بھی میں نے زیادہ تر شاعروں کو حالات کی نوحہ گری کرتے ہوئے سنا تو میں نے بھی ان ہی حالات کے حوالے سے جو نظم لکھی تھی دیگر نظموں کے علاوہ وہ نظم میں نے بھی سنادی۔ لیجئے آپ بھی سنئے بلکہ پڑھیئے: بلوچستان کا نوحہ
قبائے شر زرغوں
کیوں ترے دامن، تری گلیوں میں
افسردہ لہو بہتا ہی رہتا ہے
اٹھے ہیں ہاتھ ان کی فاتحہ پڑھنے
کہ جن کے نام سے واقف ہی نہیں ہیں
اے مرے چلتن کی آزردہ ہوائو
تم نے تو لک پاس پہ بھی امن دیکھا تھا۔
ہزارہ بستیوں میں پھول دیکھے تھے
یہ کیسا ماتمی موسم ہے
خوں آشام صبحیں ہیں
دوپٹوں کی سفیدی سرخ ہوتی جارہی ہے
کسی بھی آنکھ میں آنسو نہیں رکتے
جنازے سسکیوں ہی کا کفن پہنے
گزرتے جارہے ہیں
نہیں معلوم قاتل کون ہے
کسنے ہے لوٹا، امن،
میرے گھر دریچوں کا
کبھی جو مرثیہ لکھتے
انہیں! آکے یہاں
قلم سے خوں ٹپکتا
اور آنکھیں پوچھتیں تم سے
مرے اے شہر زرعوں
کن بلائوں نے تجھے گھیرا ہوا ہے
تازہ ترین