• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خطا کے بعد ندامت بھی عشق کو نہ ملی
نگاہ ناز یہ کہتی ہے کوئی بات نہیں
بچا بچا کے ہوئی کاوش نگاہ اس کی
مٹائے مٹنے کے اے دل یہ سانحات نہیں
سارک کانفرنس کے موقع پر ایک تصویر اخبارات میں شائع ہوئی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب اسٹیج پر ہندوستان کے وزیر اعظم مودی کے پیچھے سے نگاہیں بچا کر خاموشی سے گزر رہے ہیں۔ اس پر فراق گورکھپوری کا مندرجہ بالا شعر یاد آیا ۔ گزشتہ دنوں اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاکلفٹن کراچی فنڈز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہے میں نے معلومات کے لئے یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر سابق جج سندھ ہائیکورٹ جسٹس(ر) ڈاکٹر قاضی خالد علی سے رابطہ کر کے یونیورسٹی کے بارے میں معلومات حاصل کیں کیونکہ وکیل ہونے کی حیثیت سے لایونیورسٹی کی خبر میرے لئے اہمیت کی حامل تھی۔
قاضی صاحب نے بتایا کہ حکومت سندھ نے پبلک سیکٹر میں یہ یونیورسٹی قائم کی ہے اور سندھ اسمبلی سے شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا ایکٹ2013پاس ہوا ہے ۔ یونیورسٹی نے اپنی ویب سائٹ بنائی ہوئی ہے اور یونیورسٹی نے لندن کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لنک بناکر ایل ایل ایم کیلئے 17 اسکالر شپ حاصل کرلئے ہیں اور17لوگوں کو اخبارات میں اشتہارات دیکر میرٹ پر سلیکٹ کرکے لندن روانہ کردیا گیا ہے ۔ وہ وہاں اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ حکومت سندھ نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے ایک ارب14کروڑ78لاکھ روپے کی اسکیم سالانہ ترقیاتی بجٹ میں منظور کی ہے اور پہلے کوارٹر کے فنڈ جاری ہوگئے ہیں کے ایم سی نے کورنگی میں یونیورسٹی کے لئے13.19ایکٹر کا پلاٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے حوالے کردیا ہے اوراس پر تعمیر کاکام شروع ہوگیا ہے یہ پاکستان کی پہلی لایونیورسٹی ہے اور اسکے بارے میں23قوانین بنائے گئے ہیں جنکی منظوری گورنر سندھ نے دیدی ہے اور وہ گورنمنٹ گزٹ میں شائع ہوگئے ہیں ۔ اسٹاف کے لئے کارپوریٹ لیول کی مراعات دی ہیں اور پڑھانے والوں کو نان پر یکٹسنگ الاونس بھی دیا گیا ہے گورنر سندھ اور کورکمانڈر کے تعاون سے ڈی ایچ اے فیز 9کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن میں یونیورسٹی کے لئے 10ایکٹر زمین کی منظوری دیدی گئی ہے ۔ حکومت سندھ نے کلفٹن میں زیر تعمیر عمارت یونیورسٹی کو دیدی ہے اور وہاں تعمیراتی کام ےتقریباً مکمل ہو گیا ہے اور جنوری2015سے کلاسوں کا آغاز ہوجائے گا اس کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سندھ ایجوکیشن کمیشن کودرخواستیں دیدی گئی ہیں ۔ فیکلٹی بھی میرٹ پر سلیکٹ کی گئی ہے اور سلیکشن بورڈ میں سپریم کورٹ کے سابق جج صاحبان جناب حامد علی مرزا جناب عارف خلجی اور موجودہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ صاحب شامل ہیں ۔ جوسب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ کلفٹن کے علاقے میں قائم اس یونیورسٹی کی فیس کراچی یونیورسٹی کے معیار کے مطابق ہوگی اور کوئی غریب قابل شخص فیس نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہیگا اور بھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں سن کر دل کو خوشی ہوئی کہ چلو اس شہر میں جہاں ہم ہر وقت قتل وغارت کی خبریں سنتے ہیں کوئی اچھی تعلیمی خبر بھی سننے کو ملی ۔ میری دعا ہے کہ یونیورسٹی اور دوسرے تعلیمی ادارے ہمارے ملک میں پھلیں پھولیں اور اس طرح عوام کا معیار زندگی بلند ہو جس معاشرے میں تعلیم معیاری اور عام ہوتی ہے وہاں خود بخود جرائم بھی کم ہوتے ہیں اور تعلیم سے معاشرے میں اور کاروبار میں ترقی ہوتی ہے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی بے حد ضرورت ہے پرائیوٹ سیکٹر میں اگرچہ کافی اسپتال اور یونیورسٹیاں قائم ہوئی ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ وہ اسقدر مہنگے ہیں کہ عام آدمی نہ تو علاج کروا سکتا ہے اور نہ ہی ان اداروں میں تعلیم حاصل کرسکتا ہے ، یہ دونوں شعبے حکومت کی خصوصی توجہ کے منتظر ہیں کتنی عجیب خبر ہے کہ ملک کے قائم ہونے کے65سال بعد ملک میں پہلی لایو نیورسٹی سرکاری شعبے میں بنی ہے حیرت کی بات ہے کہ65سال تک کسی حکومت کو خیال ہی نہیں آیا بہرحال دیرآید درست آید ابھی بھی اس یونیورسٹی کے لئے بجٹ میں مختص نان ڈی 554ملین روپے کے فنڈ سرخ فیتے کی نذر ہوگئے ہیں اور کام سست پڑا ہوا ہے امید ہے کہ وزیر اعلیٰ اور گورنر سندھ اس سلسلے میں خصوصی توجہ دیں گے اور ایک پوداجو انہوں نے خود لگایا ہے اس کو پھلتا پھولتا دیکھیں گے۔ یہ ضروری معلومات تھیں میں نے سوچا اپنے قارئین تک پہنچا دوں اب اصل کالم کی طرف آتے ہیں کل ایک اخبار میں خبر شائع ہوئی ہے کہ حکومت سندھ415افسر براہ راست بھرتی کرنے کا پروگرام بنارہی ہے جن میں 111 اسسٹنٹ کمشنر192سیکشن افسران،27ڈی ایس پی23 ای ٹی او اور53مختار کار شامل ہیں اگریہ خبر سچی ہے تو انتہائی تشویش کی بات ہے ہم پہلے ہی کرپشن کا شکار ہیں اورخبریں ملتی ہیں کہ سپاہی اور ٹیچر کی نوکری لینے کے لئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں ان حالات میں اگر یہ اعلیٰ نوکریاں مارکیٹ میں آگئیں توان پر تو بھی آکشن ہوگا اور زیادہ سے زیادہ بولی دینے والا یہ نوکری حاصل کرے گا چیف جسٹس پاکستان کوچاہئے کہ ایسی خبر ملتے ہی فوری طور پر سوموٹو حکم جاری کریں اور تمام نوکریاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے دینے کا حکم دیں ملک میں اگر میرٹ نہیں ہوگی تو تعلیم یافتہ طبقہ دل برداشتہ ہوجائیگا اور وہ نوجوان جو ملک سے باہر جانے کے وسائل نہیں رکھتا اور اپنے ملک میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرکے بھی بے روزگاری کی بھینٹ چڑھ جائے زندگی سے مایوس ہوجائیگا اور کہے گا کہ
تنگ آچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
یہ کام اب عدالت کا ہے کہ نوکریاں بانٹنے کے سلسلے میں بھی سوموٹو انصاف کرے اور حقدار کواسکا حق ملنا چاہئے ۔ ملک کے سیاسی حالات بھی دگرگوں ہیں عمران خان ساڑھے تین ماہ سے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں اوراب30نومبر کو پٹاری سے کوئی نیاسانپ نکالنا چاہتے ہیں ہر شخص یہ پوچھتا ہے کہ 30نومبر کو کیا ہوگا میں جواب دیتا ہوں کہ پہلے کیا ہوا تھا ؟
نشتاً، گفتن، برخاستن، اس کے سوا ابھی تک تو کچھ بھی نہیں ہوا میاں صاحب دھرنوں کی ناکامی کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ خوش اور بااعتماد نظر آنے لگے ہیں۔ آصف زرداری بھی اپنے وطویل قیام کے بعد وطن واپس آگئے ہیں ۔ اب میدان دوبارہ سج گیا ہے ، دیکھیں نیا گیم کیا ہوتا ہے ، سابقہ گیم توفلاپ ہوگیا ہے مگر ختم نہیں ہوا عمران خان کے دھرنے جاری ہیں اور جلسوں کی تاریخیں بھی دے رہے ہیں ق لیگ نے بھی ایک جلسہ بہاولپور میں کرڈالا گویا ہلچل ضرور ہے قادری صاحب کی طبعیت کی ناسازی کو بھی سیاسی لوگ سیاسی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس وقت سیاسی میدان میں ’’ انتظار فرمائیے ‘‘ کاتاثر ہے اگلا پلان واضح نہیں اسکرپٹ تیار نہیں صرف خون گرم رکھنے کاعندیہ ہے علامہ اقبال کا شعر ہے
پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
تازہ ترین