صحت ایسی تھی کہ جو دیکھتا رشک کرتا۔ رخساروں سے رستی سرخی، مضبوط کندھے، کسرتی جسم، ورزش اور خوش خوراکی ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔جو دیکھتا ماشااللہ کہتا پھر یوں ہوا کہ وہ صحت مند شخص رات کے اندھیرے میں ٹھوکر لگنے سے گرا کمر پر چوٹ آئی آرام اور روٹین کی ادویات سے افاقہ نہ ہوا تو سارے ٹیسٹ کئے گئے تب ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ گرنے سے جو چوٹ لگی ہے وہ تو گہری نہیں، چند دن میں ٹھیک ہو جائے گی لیکن ٹیسٹ کینسر کی نشاندہی کر رہے ہیں جو ایڈوانس اسٹیج پر ہے۔ ہاں، علاج معالجہ ہوتا رہے تو دو تین سال نکل جائیں گے ۔
ایک مہینہ، صرف ایک مہینہ گز را تو وہ شخص جس کی صحت دیکھ کر اپنے پرائے رشک کرتے تھے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔ رخسار ڈھلک گئے، بالوں میں چاندی آ گئی، ورزش اور خوش خوراکی ہوا ہو گئیں۔ کینسر تو مہینوں پرانا تھا تو پھر ایک ماہ میں جسم ڈھلنے کا سبب کیا تھا ؟ یہ علم کہ موت صرف دو تین سال پرے ہے !مستقبل میں کیا ہو گا ؟موت کب آئے گی؟ حادثہ ہو گا یا نہیں؟ ہو گا تو کب ہو گا؟کیسے ہو گا ؟ یہ سب کچھ جاننا مفید ہوتا تو وہ ذات جو ماں سے بھی ستر گنا زیادہ شفیق ہے ہمیں ضرور یہ علم عطا کرتی ۔ اس نے انسان کو ایسی ایسی صلاحیتیں دیں کہ انسان نے ہوائی جہاز اور انٹرنیٹ جیسی حیران کن چیزیں بنا ڈالیں ۔ اس لئے کہ یہ ضروری تھیں اور مفید ! جو علم نقصان دہ تھا نہیں دیا !تین سال بعد موت نے آ جانا ہے لیکن خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کا علم نہیں ! تین سال خوش وخرم زندگی سے بھرپور کٹتے ہیں اگر کسی نے سوسال مزید جینا ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ کب مرنا ہے تو ہر روز یہی سیاپا ہو گا کہ اتنے دن رہ گئے ۔ وہ جو نصیحت کی گئی کہ دنیا میں رہو تو اس طرح جیسے قیام عارضی ہے اور فرائض اس طرح سرانجا م دو جیسے ہمیشہ رہنا ہے تو یہی حکمت تھی !
لیکن انسان کو مزہ اسی شے میں ملتا ہے جس سے منع کیا جائے ہر روز مچھلیاں پکڑنے میں وہ مزا کب تھا جو سنیچر کے دن پکڑنے میں تھا۔ انسان اس ضبط میں ابتدا ہی سے مبتلا ہے کہ اسے مستقبل کا علم ہو ، وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ وہ صرف اس پر قافع نہیں کہ خوب محنت کرے، نیت صاف رکھے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے ۔ نہیں ! اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا کاروبار کتنا پھلے پھولے گا۔ بیرون ملک جائے گا یا نہیں؟ کروڑ پتی بنے گا یا نہیں، وزیر، وزیر اعظم، صدر بنے گا یا نہیں، اور بنے گا تو کب بنے گا یہ ہے وہ خبط جس کا استحصال کیا گیا اور خوب کیا گیا۔ کچھ نے ستارہ شناسی کو کاروبار کیا ،کچھ نے دست شناسی کو اپنایا، کچھ نے اعداد کو بنیاد بنایا، فال ایجاد ہوئی، زائچے کھینچے گئے، مال کے نام کو اساس قرار دیا گیا، دکانیں کھل گئیں ،اشتہار بازی نے انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی، خلق خدا ٹوٹ پڑی،سینکڑوں ہزاروں میل کا سفر لوگ صرف ہاتھ دکھانے اور زائچہ بنوانے کی خاطر کرنے لگے۔ یہ علوم جو ظنی علوم کہلاتے ہیں وجود یقیناً رکھتے ہیں ! ان کی موجودگی سے انکار نہیں لیکن سوال اور ہے ۔اللہ کے بندو! اگر تم زائچے کھینچ کر، لکیریں دیکھ کر یہ بتاتے ہو کہ میرا ماضی کیا تھا؟ تو وہ تو مجھے پہلے ہی معلوم ہے ! اور اگر یہ بتاتے ہو کہ مستقبل میں کیا ہو گا تو وہ میں جاننا ہی نہیں چاہتا اس لئے کہ یہ میرے لئے مفید نہیں ! تم مجھے بتاتے ہو کہ میں کار کے حادثے میں مروں گا تو میںجب بھی کار میں بیٹھوں گا مرنے کی کیفیت سے گزروںگا۔ تم مجھے بتاتے ہوکہ میں ہسپتال میں مروں گا تو میں ساری زندگی اسپتال کا رخ نہیں کروں گا یہ علم نافع ہوتا تو جس نے دل اور دماغ دیا وہ یہ علم بھی عطا کر سکتا تھا!اسلام نے انسان کو انسان کا محتاج ہونے سے بچایا ،لمبے چولے والا ہو یا تھری پیس سوٹ پہن کر گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان! لیکن افسوس! انسان انسانوں کو غیب دان سمجھ کر ان کے سامنے بچھنے لگے وہ انسان جو غیب دان تو کیا ہوں گے اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے ! اس واقعہ میں ذرہ بھر مبالغہ ہو تو دست قدرت کو سزا کا اختیار ہے، ایک بہت بڑے افسر کے دفتر میں کہ ماشااللہ حیات ہیں (خدا سلامت رکھے) ایک صاحب ملے تعارف کرایا گیا کہ دست شناس ہیں اور اس زمانے کے سب سے بڑے حاضر سروس جرنیل اور سب سے مشہور سائنس دان کے چہیتے ہیں۔ اس لکھنے والے کے ’’باغیانہ ‘‘ تیور دیکھ کر دست شناس صاحب نے (انتقال کر گئے غالباً جہلم سے تھے ) بہت بڑی ’’دلیل ‘‘ پیش کی ۔’’سورۃ اشقاق میں ہاتھ دیکھنے کا ذکر کیا گیا ہے ‘‘ وہ سورۃ انشقاق کہنا چاہتے تھے !! اس میں ہاتھ دیکھنے کا نہیں، اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جانے کا ذکر ہے!! اس سے وہ لطیفہ یاد آیا کہ ایک شخص ہانپتا ہوا ایک بزرگ کے پاس آیا کہ مولوی صاحب کی صاحبزادی کو کتا کھا گیا ہے پوچھا کس نے بتایا ؟ کہنے لگا بتانا کس نے تھا کلام پاک میں لکھا ہوا ہے ! بزرگ ہنسے فرمایا !احمق ! وہ مولوی صاحب نہیں تھے پیغمبر تھے ۔ بیٹی نہیں ان کے صاحبزادے تھے کتا نہیں ،بھیڑیا تھا اور کھایا بھی نہیں تھا وہ تو بھائیوں نے جھوٹ بولا تھا!
فرانسیسی ڈاکٹر فرانسس برنیئر داراشکوہ کا پرسنل ڈاکٹر تھا اورنگزیب سر پر آرائے تخت ہوا تو اس کے دربار میں بھی ایک عشرہ رہا اس کی تصنیف ’’ٹریولز ان مغل ایمپائر‘‘ اب کلاسکس میں شمار ہوتی ہے اس نے اس وقت کے شاہ ایران (غالباً شاہ عباس دوم) کے بارے میں دلچسپ واقعہ لکھا ہے بادشاہ نے کچھ پودے شاہی محل کے بائیں باغ میں لگوانے تھے باغبان موجود نہیں تھا وقت اور جگہ کا تعین شاہی نجومی نے کرنا تھا نجومی نے نشاندہی کی کہ پودے فلاں فلاں جگہ پر لگائے جائیں کیونکہ اس کے علم کے مطابق یہاں ان کا مستقبل تابناک ہو گا۔ پھولیں پھلیں گے اور بہار دکھائیں گے نجومی کے حکم کی تعمیل کی گئی چند دن بعد باغبان آیا نئے پودے دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا۔ فن باغبانی کی رو سے غلط مقام پر لگائے گئے تھے جہاں وہ پھول دے سکتے نہ پھل، اس نے اکھاڑ کر پھینک دیئے۔ بادشاہ نے جواب طلبی کی باغبان نے مختصراور سادہ عرض گزاری کی ! جہاں پناہ ! نجومی کی بتائی ہوئی جگہ پر پودے چند دن بھی سلامت نہ رہ سکے اور اکھاڑ پھینکے گئے مستقبل ان کا کیا تابناک ہونا تھا !!
ارض پاک پر ان ایام میں روحانیت کی یلغار ہے روح، عربی زبان کا لفظ ہے اور کلام پاک میں کئی بار آیا ہے تاہم روحانیت کی اصطلاح اسلامی علوم کے لئے اجنبی ہے یہ نام نہاد روحانیت صرف دو پہلوئوں پر مشتمل ہے ۔کسی کے ماضی سے پردہ اٹھا کر اسے برہنہ کر دیا جاتا ہے اور کسی کے مستقبل میں جھانکا جاتا ہے حقوق العباد پر زور ہے نہ اکلِ حلال کی تلقین !اس ہر طرفہ تماشا یہ ہے کہ کتابوں کا کاروبار عروج پر ہے اس ملک کے عوام کا کیا کہنا ! جس کتاب کے نام میں روحانی کا لفظ ہو یا فقیر کا، دیوانہ وار کہتے ہیں ۔اقبال نے کئی دہائیاں پہلے ماتم کیا تھا کہ جنہیں مٹی کا دیا بھی میسر نہیں وہ نذرانوں کی صورت میں اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں یوں کہ
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن !
وہ شخص جو قلاش تھا اسے سرکار دوعالم نے یہ نہیں فرمایا کہ گوشے میں بیٹھ کر یہ وظیفہ کرو، پوچھا گھر میں کیا ہے کہا برتن اور کپڑا منگوا کر فروخت کرایا دو درہم ملے فرمایا ایک درہم گھر والوں پر خرچ کرو دوسرے سے کلہاڑی اور رسی خریدوائی پھر حکم دیا جنگل سے لکڑی کاٹ کر لائو اور بازار میں فروخت کرو ۔روفی نے اس فرمان کو نظم بند کر دیا
گفت پیغمبر بآوازِ بلند
بر توکل زانوئی اشتر بہ بند
یہ تعلیم بلند آواز سے تھی ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ توکل کرو لیکن ساتھ ہی اونٹ کے گھٹنے بھی باندھو
رمز الکاسب حبیب اللہ شنو
از توکل برسبب کاہل مشو
رمز تو یہ ہے کہ حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے توکل کے نام پر کاہلی کیوں اختیار کرتے ہو؟
کاش !ہم اس زمانے میں ہوتے جب روحانیت کے بازار لگتے تھے نہ مجمعوں میں بٹتی تھی جب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ جیسے اولیا کا زمانہ تھا۔ بادشاہ وقت نے بوریاں درہم و دینار سے بھر کر خدمت اقدس میں بھیجیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے انہیں دست مبارک سے پکڑ کر زمین پر رگڑا،خون بہنے لگا فرمایا، غریبوں کا خون چوس کر یہ دولت اکٹھی کی گئی ہے ! آج کے روحانیت کے علم برداروں کی خدمت میں ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ غریبوں کی دولت جو چھین کر جدہ ،لندن، فرانس اور امریکہ میں جمع کی گئی ہے ،روحانیت کے زور سے ملک کو واپس دلوا دیں کہ باقی طریقے اب تک کامیاب نہیں ہوئے !ہم جیسے ’’گستاخ ‘‘ بھی آمنا و صدقنا کہیں گے !!