اسلام آباد میں پاکستان کے دو قومی سطح کے علمی اور ادبی ادارے لاوارث پڑے ہوئے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ایک ادارے کا نام مقتدرہ قومی زبان (National Language Authority) اور دوسرا ادارہ ہے ’’پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز‘‘ مقتدرہ قومی زبان کو اسی ادارے کا ڈپٹی سیکرٹری چلا رہا ہے جبکہ اکیڈمی آف لیٹرز کو وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کا ایک جوائنٹ سیکرٹری سنبھالے ہوئے ہے دونوں ادارے چیئرمین کے عہدے سے محروم ہوئے عرصہ ہوگیا اب وہ بابوئوں کے رحم و کرم پر ہیں عملہ محض دہاڑیاں لگا رہا ہے دھوپ تاپتا ہے اور ڈنگ ٹپا رہا ہے وہ اداروں کے قیام کے مقاصد بھلا بیٹھے۔
مقتدرہ قومی زبان کے قیام کی منظوری 19؍اگست 1979ء کو جنرل ضیاء الحق کی عبوری کابینہ نے دی تھی جس کی روشنی میں 4؍اکتوبر 1979ء کو مقتدرہ قومی زبان کا قیام عمل میں آیا ادارے کے بنیادی مقاصد میں اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے سرکاری دفاتر میں اس کے نفاذ کی سفارشات حکومت کو پیش کرنا اور اردو کو انگریزی کی جگہ لینے کے لئے تیار کرنا تھا مگر ہوا کیا کہ ملک کے کسی بھی ادارے میں اردو نافذ نہ ہوسکی حالانکہ 25؍فروری 1948ء کو شہید ملت لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی، اسی تناظر میں 26؍مارچ 1948ء کو پنجاب یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک نے یونیورسٹی ہال لاہور میں پاکستان کی پہلی اردو کانفرنس کرانے میں کردار ادا کیا جس کا افتتاح سر شیخ عبدالقادر نے کیا تھا اور صدارتی خطبہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے دیا تھا سردار عبدالرب نشتر نے حکومتی نمائندگی کی تھی کئی قراردادیں اردو کے نفاذ کے لئے منظور ہوئیں زبان کے فروغ کے لئے انسائیکلو پیڈیا کی تدوین کے لئے عملی تدابیر کرتے ہوئے دسمبر 1950ء میں ڈاکٹر پروفیسر مولوی محمد شفیع کی صدارت میں ایک ادارہ ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ قائم ہوا جس نے اردو کے سب سے دقیع انسائیکلو پیڈیا کی تدوین کی، پھر 14؍جون 1958ء کو حکومت پاکستان نے اوکسفرڈ انگلش ڈکشنری کی طرز پر اردو کی جامع لغت کی تیاری کے لئے ترقی اردو بورڈ بنایا جس کا نام 27؍مارچ 1982ء میں بدل کر ’’اردو ڈکشنری بورڈ‘‘ کردیا گیا اب تک اس کی دو درجن کے قریب جلدیں چھپ چکی ہیں پہلی جلد 17؍دسمبر 1977ء میں چھپی تھی اسی طرح 3؍جون 1962ء کو مرکزی اردو بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور 6؍اپریل 1982ء کو اس کا نام بدل کر اردو سائنس بورڈ کردیا گیا پھر 12؍مئی 1964ء کو اردو سائنس کالج کا افتتاح کراچی میں ہوا جس میں ساری تعلیم اردو میں دی جاتی رہی ہے اور اب وہ ادارہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پلٹ کے دیکھیں تو اردو کے نفاذ اس کی ترویج اور فروغ کے لئے پاکستان کے نامی گرامی دانشوروں نے مقدور بھر محنت کی جن میں مولوی عبدالحق، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ابو الخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر پاریکھ، ڈاکٹر سحر انصاری، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر جمیل جالبی، جسٹس ایس اے رحمان، جسٹس ایس اے مرشد، جناب اختر حسین، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین، اشفاق احمد اور ڈاکٹر یونس حسنی کے علاوہ احمد مرزا جمیل کا اردو پر احسان کہ جنہوں نے اردو کو کمپیوٹر کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناس کراکے سسکتی اردو کو کاتبوں کے گھٹنوں سے اٹھا کر دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ دنیا میں اس وقت تقریباً 6ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو کا نمبر تیسرا ہے، قیام پاکستان سے آج تک اردو کو بنانے سنوارنے اور فروغ کے لئے دانشور اساتذہ کرام اور اہل صحافت سے جو ہوسکا انہوں نے اپنے حصے کا کام کیا مگر اردو کا نفاذ نہ ہوسکا اور اب عالم یہ ہے کہ مقتدرہ قومی زبان کے سارے علاقائی دفاتر کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور آزاد کشمیر بند ہوئے عرصہ گزر گیا مقتدرہ قومی زبان دسمبر 2012ء تک کینٹ ڈویژن کا ذیلی اور خودمختار ادرہ تھا پھر اسے قومی ورثے کے حوالے کیا گیا اس کا نام بدل کر ادارہ فروغ قومی زبان کرکے اسے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے ماتحت کردیا گیا جہاں اس کا نہ کوئی والی وارث ہے نہ چیئرمین اور نہ کوئی سیکرٹری اور نہ ڈی جی یوں اردو کے فروغ اور نفاذ کا ادارہ محض چند ملازمین کی ملازمت کے ضامن کے طور پر قائم ہے۔
’’پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز‘‘ 7؍جولائی 1976ء ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستانی زبانوں کے ادبیات کی ترویج اور ادیبوں اور شاعروں کی فلاح و بہبود کے لئے ادارہ قائم کیا گیا تھا اکادمی ادبیات پاکستان (PAKISTAN ACADEMY OF LETTERS) یہ ادارہ وزارت تعلیم کے تحت مگر خود مختار ادارہ تھا، اس کے پہلے پروجیکٹ ڈائریکٹر احمد فراز مقرر کئے گئے تھے پھر وہ عہدہ چیئرمین کہلایا اکادمی کے پہلے چیئرمین ممتاز مزاح نگار جنرل شفیق الرحمٰن تھے اکیڈمی آف لیٹرز نے ادب کے ذریعے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے ایک سہہ ماہی پرچہ ادبیات جاری کیا جس کے نگران اعلیٰ پروفیسر پریشان خٹک اور پہلے چیف ایڈیٹر سید ضمیر جعفری تھے بیرونی دنیا میں پاکستانی ادب کو متعارف کرانے کے لئے پاکستانی لٹریچر کے نام سے ایک انگریزی جریدہ بھی جاری کیا 1979ء سے اکادمی نے ملک بھر کے اہل قلم کی کانفرنسوں کے انعقاد کا آغاز کیا 1980ء میں پاکستانی زبانوں میں چھپنے والی کتابوں پر ادبی انعامات کا سلسلہ شروع ہوا ضرورت مند ادیبوں کی مالی اعانت بھی کی جس کی حد شروع میں پانچ ہزار تھی اور آج کل 25ہزار روپے ہے۔ اہل قلم کی بیوائوں کے لئے اور مستحق قلم کاروں کے لئے 5ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی جاری کی جو برسہا برس گزر جانے کے باوجود بھی بڑھائی نہ جاسکی اور اب عالم یہ ہے کہ گزشتہ تین چار ماہ سے وہ پنشن رکی ہوئی ہے کوئی ایک ہزار قلمکاروں کا اجتماعی بیمہ بھی ہوا تھا جس کے تناظر میں حادثاتی موت کی صورت میں 2لاکھ روپے اور طبعی موت پر ایک لاکھ روپے اہل قلم کو ملنے تھے۔ پاکستانی ادب کے معمار ایک کتابی سلسلہ شروع ہوا تھا۔
اکادمی کے افتتاحی اجلاس 11؍اپریل 1979ء کو صدر مملکت نے اکادمی کے اساسی ارکان کا اعلان کیا تھا جن میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، اے کے بروہی، حفیظ جالندھر، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، پروفیسر احمد علی، احمد ندیم قاسمی، احسان دانش، پروفیسر شریف کنجاہی، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، میاں سید رسول رسا اور سردار خان کشکوری شامل تھے۔ جوش ملیح آبادی کا اعلان تو ہوا تھا مگر بعد میں ان کا نام واپس لے لیا گیا تھا۔ 10؍اکتوبر 1999ء کو چیئرمین نذیر ناجی نے 1998ء میں چھپنے والی کتابوں پر وزیر اعظم ایوارڈ دینے کا اعلان اور کمال فن ایوارڈ کا اجراء کے اعادہ بھی کیا مگر اسی روز حکومت کے خاتمے پر وہ ایوارڈ التوا کی نظر ہوئے۔ 29؍جون 2001ء اکادمی ادبیات نے اعلان کیا کہ ایوارڈ اور وزیر اعظم ادبی ایوارڈ کو مدغم کرکے اس کا نام قومی ادبی ایوارڈ رکھ دیا گیا ہے، جس کی مالیت پچاس ہزار روپے ہوگی جبکہ کمال فن ایوارڈ بدستور جاری رہے گا جس کی مالیت پانچ لاکھ روپے ہوگی۔
راجہ پرویز اشرف نے اپنی وزارت عظمٰی کے آخری دنوں میں گزشتہ اہل قلم کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ فوری طور پر کمال فن ایوارڈ کی رقم بڑھا کر دس لاکھ کردی گئی ہے اور ماہانہ پنشن 10ہزار روپے ملے گی مگر آج تک اس اعلان پر عمل درآمد نہ ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دبدبے والا چیئرمین میسر نہیں اکیڈمی کو جو وزارت خزانہ سے اپنے حصے کا روپیہ نکال کے لاسکے بابو چیئرمین اپنی نوکری کو خطرہ میں ڈالنا نہیں چاہتے اکادمی ادبیات کے چیئرمین کا عہدہ چند دن پہلے بحال تو ہوگیا ہے اور نئے چیئرمین کے لئے درخواستیں مانگ لی گئی ہیں 12؍دسمبر آخری تاریخ ہے مگر اکادمی نے اپنا وہ اشتہار اپنی ہی ویب سائیٹ پر ڈالا ہوا ہے اخبارات کو جاری نہیں ہوا خفیہ راستے سے چیئرمین کا انتخاب ہوگا ایک بے روزگار کو نوکری مل جائے گی مگر اکیڈمی کے سارے کام جو بند پڑے ہیں وہ جوں کے توں رہیں گے کیونکہ اکیڈمی آف لیٹرز کو نوکروں کی نہیں مزدوروں کی ضرورت ہے جو پوری دیانت سے اہل قلم کے حقوق مقتدر طبقے سے وصول کرسکے اکیڈمی کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ کروڑ روپے ہے جو انتہائی ناکافی ہے جبکہ مقتدرہ قومی زبان کا سالانہ بجٹ ایک کروڑ روپے ہے جو تنخواہوں اور یوٹیلٹی بلز پر خرچ ہوجاتا ہے پاکستان کے ان دونوں قومی اداروں میں تحریر و اشاعت کا سلسلہ بند پڑا ہے وزارت اطلاعات و نشریات ان دونوں اداروں کی افادیت اور اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے وزیر اعظم براہ راست ان اداروں کی نگرانی کریں جو معاشرے اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے وہ بانجھ ہوجاتے ہیں اور جو حکومتیں اپنے دانشوروں قلمکاروں کا خیال نہیں کرتیں وہ بے توقیر ہوجاتی ہیں۔ دانشور ادیب شاعر قلمکار قوموں کی پہچان اور دماغ ہوتے ہیں ان کے لاوارث اداروں کو بچایا جائے۔