• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لٹریچر فیسٹول کے لئے نام کمایا آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے۔ سارے ادیب انتظار کرتے ہیں کہ کب موقع آتا ہے کہ پھر وہ بہارِ ادب آراستہ ہو اور کب سب ہم خیال لوگ اکٹھے ہوں لیکن اس خوشخبری سے پہلے فیصل آباد کی پڑھی لکھی خواتین کو خیال آیا کہ ہم کیوں نہ اس سلسلے میں قدم اٹھائیں۔ مل کر بیٹھیں۔ اصغر ندیم سید اور شیبا سے صلح مشورہ کیا اعلان کردیا کہ29 نومبر کو فیصل آباد لٹریچر فیسٹول ہوگا۔ شاعروں اور ادبیوں کے نخرے بھی بہت ہوتے ہیں۔ ان خواتین نے ذہن میں ان نزاکتوں کو رکھا اور اور معدودے چند منتخب ادیبوں کو دعوت نامے بھجوادیئے۔ بلانے کیلئے گاڑیوں کا اہتمام کیا اور ٹھہرنے کیلئے شہر کے بہترین ہوٹل کا انتخاب کیا۔ چونکہ یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی اس لئے نصرت فتح علی جیسے بڑےآڈیٹوریم میں کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ سرکاری تحویل میں ہونے کے باعث اس کے آڈیٹوریم کا حلیہ کتنا بگڑا ہوا تھا پر ہمت کو داد دیجئے ان خواتین کی کہ رات گئے تک صفائیاں اور سفیدیاں کرواتی رہیں۔ دن چڑھا تو دنیا نے دیکھا کہ چمک دمک کے ساتھ نہ صرف آڈیٹوریم بلکہ پوری بلڈنگ آراستہ و پیراستہ تھی۔ ایک طرف کتابیں ان مصنفین کی کتابیں رکھی گئی تھیں جو اس فیسٹیول میں شریک تھے۔دوسری طرف پورے ہال میں انہی ادیبوں کی تصویروں سے مونتاژ بنا ہوا تھا۔ منتظم خواتین کے باعث بے شمار نوجوان لڑکیاں، بزرگ خواتین اور نوجوان طلبا، استاد، کون تھا شہر میں جو نہیں تھا۔ پانچ سو کرسیاں کم پڑ رہی تھیں،نوجوانوں کو کوئی گلہ نہیں تھا وہ زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ معاصر ادب کے مسائل اور پاکستان میں مصوری، شاعری اور ناول پر کیا بیت رہی ہے۔ یہ سارے موضوعات دس دس منٹ کی گفتگو میں زیر بحث آئے۔ تمام نوجوان سوال تیار کرکے لائے تھے۔خوش تھے کہ انہیں مکالمے کا موقع مل رہا ہے۔ منتظم خواتین نہال تھیں۔ ہر جگہ ہر لمحہ آنکھیں بچھانے کو تیار، سلیقہ مندی تو ان پر ختم تھی۔ مانگو تو سہی کوئی چیز پانی، کاغذ، چائے، ہر چیز لمحہ بھر میں حاضر کردی جاتی تھی۔ صبح دس بجے سے شام 6 بجے تک بغیر کسی وقفے کے یہ سارا پروگرام جاری رہا۔ نئے لکھنے والے اپنی اپنی کتابوں کے پلندے بھی ساتھ لائے کہ پیش کرسکیں مگر ایسا تو ہر کانفرنس میں ہوتا ہی ہے۔ پروگرام کو سلیقے سےمرتب کیا اور چلایا بھی۔ وہ سب کچھ دیکھنے کی چیز تھی کہ اصغر ندیم سید نے پڑھانے اور ٹی وی کے لئے لکھنے کا سارا ہنر یہاں آزمایا۔ شیبا نے بھی اپنی خامشی توڑی اور عبداللہ حسین، انتظار حسین کی تحریروں میں سے اقتباسات پڑھے اور خوب پڑھے۔
تحائف دیکھ کر مجھے شنکر شاد کا مشاعرہ یاد آگیا۔ وہ لوگ پہلے فیصل آباد میں مشاعرے کرواتے تھے اور ہر شاعر کو کم از کم ایک تھان کپڑا بھی تحفے میں دیا کرتے تھے۔وہ بزنس مین تھے،یہ سلیقہ مند خواتین تھیں انہوں نے تحائف کو سلیقے سے ٹرے میں سجایا اور ہر مہمان کے کمرے میں پہنچادیا۔
یہ پہلی کانفرنس تھی جس میں پروفیسر اور نقاد ایک ایک گھنٹہ کا مقالہ لکھ کر نہیں لاسکے تھے۔ یہاں تو ادیبوں سے سوال جواب کے علاوہ خود ادیبوں کو اپنی تحریروں کے بارے میں بیان کرنے کا موقع تھا۔ مثلاً ہمیں تک معلوم نہیں تھا کہ عبداللہ حسین کا اصل نام یہ نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ میرے ناول کی اشاعت سے پہلے کرنل محمدخان کا ناول شائع ہوا تھا جو بہت مقبول ہوا تھا۔ اب عبداللہ حسین کا اصل نام بھی محمد خان تھا۔ پبلشر نے کہا کہ ناول چھپوانا ہے تو نام بدلو کہ ایک جیسے نام کا فائدہ پہلے شائع ہونے والے ادیب کو مل جائے گا۔ عبداللہ نے دفتر میں ملازم ایک شخص کے نام کو اڑالیا۔ اس کا نام طاہرعبداللہ حسین تھا۔ اب ہمارے سامنے مصنف عبداللہ حسین آگیا اور وہ جیتا جاگتا احوال بیان کررہا تھا۔ اداس نسلیں کا پس منظر اسی طرح بیان کیا جیسے غزالِ شب کا پس منظرمستنصر نے بیان کیا تھا۔ لوگوں نے یہ بھی پوچھا کہ ناول لکھتے لکھتے آپ کے اندر کا سفر نامہ نگار جاگ اٹھتا ہے۔ مستنصر نے اپنے ناولوں کے پس منظر بیان کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ اس کے اندر ایک خانہ بدوش ہے، وہ جدھر منہ اٹھتا ہے اس کی تحریر میں داخل ہوجاتا ہے مگر ہر کردار، تراش خراش چاہتا ہے۔
یوں تو ہر مشاعرہ، مذاکرے، سیمینار اور کانفرنس میں شیلڈ دینے کا رواج ہوگیا ہے۔ ایسے بے شمار تحائف سنبھالنے کو گھر میں جگہ بھی نہیں ہوتی ہے مگر یہاں پھر انوکھا طریقہ اختیارکیا گیا۔ ہر مصنف کو اس کی تصویر فیسٹیول کے لوگو کے ساتھ پرنٹ کرکے ایسے دی گئی کہ مزہ ہی آگیا۔
البتہ ایک چیز یا کہئے خامی میں نے نوٹ کی کہ تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں بس ایک چناب کلب میں لائبریری ہے باقی یونیورسٹیوں کی اپنی لائبریریاں ہیں۔ باقاعدہ کوئی پبلک لائبریری نہیں ہے، میں نے کہا یہاں تو جاوید قریشی، مسعود مفتی جیسے پڑھے لکھے لوگ کمشنر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے ڈسٹرکٹ کونسل کی لائبریریاں کیوں نہیں بنائیں۔ خیر ان کا زمانہ تو گزر گیا اب ہماری ان خواتین ہی کو ہمت کرکے باقاعدہ ایک لائبریری قائم کرنی چاہئے کہ میں نے دیکھا لوگ کتابوں کو دیکھ کر بھوکوں کی طرح پڑ رہے تھے۔ ان میں بزرگ اور جوان دونوں شامل تھے۔ ویسے تو فیصل آباد میں کئی پبلشنگ ادارے بھی ہیں۔ ریاض مجید، انور محمود خالد اور انجم سلیمی جیسے دانشور بھی ہیں توقع ہے کہ ہماری یہ بچیاں جنہوں نے اتنا خوبصورت فیسٹیول منعقد کیا اب چین سے نہیں بیٹھیں گی۔ سال کے سال صرف فیسٹیول ہی نہیں کریں گی۔ بلکہ سال بھر میں قابل ذکر اور قابل فخرلائبریریاں بھی قائم کریں گی۔ مجھے مردوں سے توقعات رہی نہیں ہیں کہ بینظیر کے بعد مردوں کے کارنامے تو ہم نے بہت دیکھ لئے اور دھرنوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ خدا اس ملک کی عورتوں کو فیصل آباد کی خواتین کی طرح نئی بہار دکھانے کا موقع دے۔
تازہ ترین