آہ! گلونوخارکا ایک اور دردناک قصہ،سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک اور سقوط…کیا اب نوحے ،ماتم اور گریئے ہمارا مقدر ہو چکے؟دسمبر کے دنوں میں مائیں اپنے پھول جیسے بچوں کو سردی سے بچانے کے لئے کتنے جتن کرتی ہیںمگرجن کے نور نظر سردیوں کی ان شاموں میں سویٹر،جرابوں اور مفلر کے بغیر قبروں میں جا سوئے ،ان کے درد کا عالم کیا ہو گا؟پھولوں کا شہر سوگوارہے،ہر آنکھ اشکبار ہے ،دلوں پر نہ جانے کیسا غبار ہے مگر زبانیں گنگ ہیں ،قلم خاموش ہیں ،تخیل کی زرخیز زمین بنجر ہو ئی،الفاظ بانجھ ہو چلے اور تسلی کے دوجملے کہنا بھی دشوار ہو رہا ہے ۔کیسے نہ ہو دشوار، ان مائوں کو کوئی کیسے پُرسہ دے سکتا ہے جن کے لخت جگر ایک ایسے اسکول میں داخل ہو گئے ہیں جہاں چھٹی کا کوئی تصور نہیں۔ہر اس آنکھ میںنمی ہے جس کی پتلیاں گردش کرتی ہیں،ہر وہ دل مضطرب ہے جس میں دھڑکن کے آثار باقی ہیںاور ہر وہ شخص مغموم ہے جس میں انسانیت کی کوئی ایک بھی رمق موجود ہے۔
مکتب بھی بنے مقتل میرے وطن کے
اب ڈگری شہادت کی ملتی ہے یہاں سے
ہر طرف ہی بکھرے ہیں جگر گوشوں کے لاشے
کھوئے ہوئے بیٹے ماں ڈھونڈے کہاں سے
غم و اندوہ سے نڈھال پاکستانیوں کی زبان پر ایک ہی سوال ہے،یا الہٰی! ہم سے ایسی کون سی خطاء ہوئی ہے جس کی سزا ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔اے پروردگار! ہم گناہگاروں سے ایسا کون سا جرم سرزد ہوا ہے کہ تیرے قہر کا تازیانہ برستا ہی چلا جاتا ہے۔اے خالق ارض و سماء!کچھ تو بتا،ہم حرماں نصیبوں کا قصور کیا ہے۔تیرے ان مجبور و مقہور بندوں کی ایسی کونسی لغزش ہے اے ابرار! کہ معافی کے خواستگار ہیں مگر تیرے در سے فقط ایک ہی حرف،انکار۔ہر پل نئی افتاد،ہر آن نئی پھٹکار،ہر ساعت نیا حادثہ…زخموں سے نڈھال ،درد سے بے حال ،کس سے کریں سوال اے رب ذوالجلال؟معافی کی تلافی کیسے ہو،گناہ کا کفارہ کیسے ادا کریں؟ ہم تو وہ قرض بھی چکا چکے جو واجب بھی نہ تھے۔سوختہ سامانوں کا خیال تھا حکومت بدلے گی تو امن و آشتی کی صبح خوش جمال کا ایک نیا سورج طلوع ہو گا مگر اندھیرے ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔افسردہ و مغموم لوگ پوچھتے ہیںکہ یہ ظالم کس مٹی سے بنے ہیں؟ یہ قیامت برپا کر کے ،معصوم بچوں کا خون بہا کر ،مائوں کی گود اجاڑ کر جنت کے خواب دیکھتے ہیںتو آخر وہ کون بد بخت ہیں جنہوں نے ان انسانوں کو یہ خواب دکھا کر حیوان بنایا؟پوری قوم پر بدلے اور انتقام کا جنون سوار ہے۔ہر طرف یہی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہاجا رہا ہے کہ اب حشر اٹھا دو، نیست ونابود کر دو ان طالبان کو ،ان کی نسلیں مٹا دو،جو جیلوں میں قید ہیں انہیں الٹا لٹکا دو۔مگر میں ایک بار پھر یہ کہنے پہ مجبورہوں کہ دہشتگردوں کی یہ کھیپ کیسے ختم کرنی ہے ،یہ ضرور طے کریں لیکن اس سے پہلے ان حیوان نما انسانوں کے پیداواری یونٹ تو بند کریں۔ریاستی سر پرستی میںکام کر رہے کارخانوں میں ان سے ملتے جلتے جو روبوٹ تیار کیئے جا رہے ہیں ان پر تو پابندی عائد کریں۔اوروہ روبوٹ جو ابھی تک آپ کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں،ان کی فکر کریں کہ کب ان کا سوفٹ ویئر کرپٹ ہو جائے اور وہ اپنے تخلیق کار پر ہی چڑھ دوڑیں ۔طالبان پر لشکر کشی کریں ،ان کی باقیات کو ختم کریں ،ان کے سہولت کاروں کو انجام تک پہنچائیں لیکن براہ کرم پہلے ان کی’’ ماں ‘‘کی منت سماجت کریں،اسے قائل کریںکہ جو بچے بگڑ گئے ،نافرمان ہو گئے ،ان سے سبق سیکھے اور مزید بچے جننا چھوڑ دے۔وہ خوں آشام بندر جنہیں ہم نے سدھایا اور ان کے ہاتھ میں جہاد کا نام لے استراکر تھمایا ،انہیں پنجرے میں بند کرنا دشوار ہو رہا ہے تو کم از کم آئندہ کے لئے سبق سیکھ لیں۔کوئی جا کر ہمارے پالیسی سازوں کو بتائے،تذویراتی گہرائی پر ایمان رکھنے والوں کو سمجھائے کہ اگر آپ نے اپنے گھر کے پچھواڑے میں سانپ پال رکھے ہوں ،دودھ پلا کر ان کی پرورش کر رہے ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ صرف ہمسایوں کے گھر میں داخل ہو ں ،ایک دن وہ آپ کو بھی کاٹ کھاتے ہیں کیونکہ ڈنگ مارنا سانپ کی سرشت،جبلت اور فطرت کا حصہ ہے۔
زیر نظر سطور آپ تک پہنچیں گی تو کل جماعتی کانفرنس کے بعدسیاسی و عسکری قیادت کے روائتی بیانات سامنے آچکے ہونگے۔اس دلخراش واقعہ کی مذمت کی جائے گی ، دہشتگردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا اعلان ہو گااور پھر اس وقت تک خاموشی چھا جائے گی جب تک کوئی نیا سقوط،کوئی نیا سانحہ جھنجھوڑ کر نہیں رکھ دیتا۔پوری قوم بچوں کے ناحق قتل عام پر سوگ منا رہی ہے مگر میرے خیال میں ہمیں اپنی عقل پر ماتم کرنا چاہئے۔جب ہم ان بچوں کے ورثاء کے لئے صبر جمیل کی دعا کریں تو یہ ضرور دیکھیں کہ کہیں ہمارے ہاتھوں پر ان بچوں کے خون کے چھینٹے تو نہیں۔ یہ ہم سب کی ناکامی ہے،سیاسی قیادت بروقت فیصلہ نہ کرسکی، اسٹیبلشمنٹ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی تکمیل سے قاصر رہی، پولیس گرفتار ہونے والے مجرموں کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی اور عدلیہ ان مجرموں کو عبرتناک سزائیںدینے میں ناکام رہی۔ اگر اس ملک سے درندگی کہ اس لہر کا خاتمہ کرنا ہے تو پھر عسکری و سیاسی قیادت کو طے کرنا ہو گا کہ آج کے بعد اس ملک میں کوئی لشکر ،کوئی سپاہ،کوئی مسلح تحریک نہیں ہوگی۔بندوق صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ میں ہو گی۔ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کی ذمہ داری صرف اور صرف افواج پاکستان کی ہو گی ،کسی اور گروہ یا لشکر کو فرنچائز نہیں دی جائے گی۔علماء و فقہا کو جمع کیا جائے جو یک آواز ہو کر کہیں کہ جہاد اور قتال کا اختیار کسی شخص یا گروہ کو نہیں بلکہ یہ ریاست کی صوابدیدہے۔2015ء دہشت گردی سے نجات اور ملک میں امن و امان کے قیام کا سال ہو گااور تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس منزل کے حصول کے لئے مل کر کام کریں گے۔
اگر یہ سب نہ ہوا تو یکے بعد دیگرے اس طرح کے سقوط اور سانحے ہمارا مقدر بنتے رہیں گے ۔میں اس موضوع پر قلم اٹھانے سے گریزاں تھا مگراسی اثناء میں ایک باذوق سول سرونٹ اور دردمند پاکستانی حامد عتیق سرور نے اس دردناک قصے پر کہی گئی ایک نظم ارسال کی۔اس نظم کی بدولت میرے درد کو زباں ملی تو دل و دماغ لکھنے کی طرف مائل ہوا۔یہ نظم نہیں نالہ ء دل ہے: امن کے خواب کے پیغمبرو…نغمہ برو…راہبرو…کچھ تو کرو…خاک اور خون میں لتھڑے ہوئے بے جان لاشے…ان کے چہروں کو کبھی غور سے آ کر دیکھا کرو…ان کی آنکھوں میں سوالوں کا نشاں باقی ہے…کتنی جانوں کا ابھی اور زیاں باقی ہے…وہم۔امید کے تصویر گرو…دام۔گفتار کے ایجاد گرو