• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمین سخت ہے آسماں دور ہے
بہت سعی کرئیے تو مررھئیے میر
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
16دسمبر2014کو صبح سورج کی کرنیں پشاور کے سرد موسم کوتمازت بخش رہی تھیں ۔ صبح صبح بچے اپنے اپنے گھروں میں اسکول جانے کے لئے تیار ہورہے تھے کچھ تو بستر سے بڑی مشکل سے نکلے تھے کیونکہ سردیوں کے موسم میں بچوں کا علی الصبح بستر سے نکلنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے بہرحال آرمی اسکول کے ہونہار بچے شروع ہی سے عمدہ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور پھر آرمی اسکول کی ٹریننگ انہیں مستعد اور چاق وچوبندبنادیتی ہے ذہنی اور جسمانی طور پر یہ بچے اعلیٰ ہوتے ہیں ۔ مائوں نے ٹفن تیار کئے تھرماس میں پانی بھرا ۔ اپنے لاڈلوں کو خود اسکول چھوڑ آئیں یا والد، بھائی ، ڈرائیور نے چھوڑا کئی بچے تو واپسی پر اپنی پسندیدہ چیز پکا کر رکھنے کی فرمائش کرکے گئے تھے اور ماوں نے بڑے شوق سے اپنے پیارے بچوں کا فرمائشی پسندیدہ کھانا بنوایا تھا ۔ مگر کسے معلوم تھا کہ سفاک ظالم دہشت گرد مذہب کے نام پر معصوم پھولوں کو مسل دیں گے دنیا کی تاریخ کا یہ ایک بہت بڑا اور انوکھا سانحہ ہے ۔ دنیا بھر کی جنگوں میں عورتوں اور بچوں کو بخش دیا جاتا ہے سندھ میں تو اچھے پیشہ ور ڈاکو بھی اگر کسی قافلے میں عورت کو دیکھتے تھے تو پورے قافلے کو بخش دیتے تھے اتنا احترام کیا جاتا ہے عورت کا ۔ یہ کیسے لوگ تھے جنہیں عورتیں اور بچے بھی نہ متاثر کرسکےاورانہوں نے نہتے بچوںاورپاکیزہ عورتوں پر حملہ کرکے انہیں شہادت کے درجے پر پہنچایا باہر ملکوں میں کبھی کبھار اسکولوں، کالجوں یا سینما گھروں میں کبھی کبھار کوئی فائرنگ کا واقعہ ہوجاتا ہے جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے مگر وہ دشمن یا تو پاگل ہوتا ہے یا نفسیاتی مریض زیادہ ترواقعات میں وہ خود کوبھی گولی مارلیتا ہے یا پھر وہاں کی پولیس اسے مار دیتی ہے مگر اس طرح سرد مہری سے باقاعدہ پلاننگ کرکے آج تک کسی نے اسکول کے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے میں سوگوار خاندانوں کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔اور معصوم بیگناہ شہیدوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعاگو ہوں۔ ان لوگوں کی قربانی سے قوم نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور سوئی ہوئی غافل قوم مجھے اب جاگتی ہوئی نظر آرہی ہے سب سے پہلے تو عمران خان نے اپنے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کرکے اس موقع پر قوم کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا ۔ اور وہ دھرنا جو آہستہ آہستہ دم توڑ رہا تھا اسے فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا۔ میں نے اپنے گزشتہ ہفتے کے کالم میں دھرنے کے خاتمے کی پیشگوئی کردی تھی ۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ ہماری فوج اور عوام نے دہشت گردوں کےگرد اپنا دائرہ تنگ کردیا ہے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے پوری قوم اسطرح متحد اور مستعد ہوگئی ہے جس طرح 1965کی پاکستان ہندوستان جنگ کے دوران تھی ۔ ایک مرتبہ پھر وہی اتحاد نظر آرہا ہے جو جاوید میانداد کے دبئی میں آخری بال پر چھکے کے موقع پر نظر آیا تھا خدا کا شکر ہے کہ بچوں کی بہت بڑی قربانی اور اس المناک سانحے نے قوم کو متحد اور ایک کردیا ہے۔ الطاف بھائی نے بھی بعد نماز جمعہ قومی یکجہتی، شہداء کی یاد میں اور فوج کی حمایت میں ایک بہت بڑی ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا گویا قوم خیبر سے کراچی کے ساحل تک ایک ہے ۔ میری دعا ہے کہ قوم کا یہ اتحاد برقرار رہے اور اسے دشمنوں کی نظر نہ لگے سزائے موت کی کھولیوں میں گزشتہ10سال سے پھانسی کے منتظر افراد کی فہرستیں تیار ہوگئی ہیں اور امید ہے کہ اسی ہفتے 50کے قریب دہشت گرد کیفر کردار تک پہنچیں گے ۔ یہ مطالبہ عوام اورسول سوسائٹی نے کیا ہے اور وہ اس میں حق بجانب ہیں جنرل راحیل شریف نے فوری طور پر چھ دہشت گردوں کے موت کے پروانے پر دستخط کرکے اس نیک کام کی ابتدا کی ہے ۔
میں نے پہلے بھی اپنے کالموں میں لکھا ہے کہ دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لئے کوسمری طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ ان کے مقدمے زیادہ لمبے نہ چلیں اور عوام کو فوری انصاف مہیا ہو۔ موجودہ کیس میں ملزمان تواپنے لئے خود ہی موت کی سزا تجویز کرکے لائے تھے انہوں نے اپنی گاڑی کوآگ لگادی تھی گویا اپنی واپسی کا راستہ بند کردیا تھا۔ ہماری بہادر افواج نے انہیں واصل جہنم کردیا اور اب ان کے نیٹ ورک کابھی سراغ لگ گیا ہے اور جنرل راحیل شریف نے افغانستان سے مجرم مانگ لئے ہیں انہیں یہاں لا کر قرار واقعی سزا دیں گے معصوم جانوں کے ساتھ کی گئے ظلم کابدلہ پوری قوم لے گی اور لیتی رہے گی جب تک آخری دہشت گرد فنا نہیں ہوجاتا سوگوار خاندانوں کے پھول جیسے معصوم بچے واپس تو نہیں آسکتے مگر ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے ان کے آنسو کچھ تھم جانے کا امکان ہے صبر تونہیں آتا کہتے ہیں کہ وقت بڑے سے بڑا زخم مندمل کردیتا ہے مگر میرا تجربہ یہ ہے کہ مائوں کو جن کے لخت جگر یوں ہاتھ سے چھن جائیں کبھی نہ تو صبر آتا ہے اور نہ ہ یہ زخم مندمل ہوتا ہے وہ یہ گھاو اپنے ساتھ لیکر ہی اس دنیا سے جاتی ہیں اور اس آس میں فوت ہوتی ہیں کہ اگلے جہاں میں اپنے بیٹے سے ملیں گی ، اسے چومیں گی اور اسکے ساتھ کھیلیں گئیں ، مرزا غالب کالے پالک بیٹا عارف جب فوت ہوا تھا تو مرزا نے بھی بڑی غمناک غزل لکھی تھی
تم ماہ شب چار دہم تھے میرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کوملیں گے
کیا خوب ! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
تازہ ترین