اللہ پاک کو دو قسم کے لوگ پسند ہیں ، علم عطا کرنے والے یا علم حاصل کرنے والے یعنی استاد اورطالب علم، گزشتہ منگل کو اللہ پاک کے ان دونوں طبقوں کو پشاور وارسک روڈ کے آرمی پبلک اسکول میں اس بےدردی سے شہید کیا گیا کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے، ایف سی کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے اسکول میں گھس کر بچوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے گولیاں ماریں خاتون ٹیچر کو زندہ جلا دیا 16دھماکے کیے کمسن طلباء یرغمال اساتذہ سمیت 245زخمی اور شہید ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب جا پہنچی۔ بچوں کی عمریں 9سے 16سال کے درمیان تھیں۔ اسکول اور اسپتال میں قیامت صغریٰ، مائیں بچوں کے لئے اِدھر ادھر بھاگتی رہیں، پرنسپل طاہرہ قاضی، لیکچرار نواب علی اور پروفیسر سعید پشاور کے علمی اور ادبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک عمر سے وہ علم و نور بانٹتے چلے آرہے تھے جو شہادت سے سرفراز ہوئے ،دنیا بھرمیں سوگ منایا گیا، ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی دو منٹ کی خاموشی اختیار کر کے یکجہتی کا اظہار کیا، پشاور اسکول پر حملہ آوروں نے ٹیچر حفصہ خوش جو اسلامیہ کالج پشاور کے سابق پروفیسر خوش محمد کی دختر تھیں، میجر جمشید کی بیگم اور دو بچوں ، بریگیڈیئر طارق کی بیگم جو آٹھویں جماعت کی ٹیچر تھیں انہیں دہشت گردوں نے قریب سے گولیاں ماریں، جبکہ آفس اسسٹنٹ خاتون کو آگ لگا دی، پھر ستم یہ کہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان نے دہشت گردی کے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی بھلا یہ کون سی فخر والی بات تھی یہ تو ایک ایسی بزدلانہ اور مذموم فعل ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس قسم کی حرکتیں مردوں اور خاص طور سے مسلمانوں کے شایان ِ شان نہیں،محبت اور جنگ میں سب جائز نہیں ہوتا دشمنی کے بھی اصول ہیں چہ جائیکہ عورتوں اور بچوں پر حملے اسلام وہ دین ہے جس نے علم کا حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض قرار دیاہے اور اسی ادارے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو عین اسلام کے مطابق اپنے فرائض منصبی نبھا رہا تھا۔
ملک بھر سے مذمتی بیانات اور SMSمجھے موصول ہوئے کئی شہروں اور اداروں میں شہید ہونے والوں کی نمازِ جنازہ پڑھیگئی، پشاورکورہیڈ کوارٹر بادشاہی مسجد،راولپنڈی لیاقت باغ، لاہور ہائی کورٹ بار کے علاوہ اسلام آباد کے دھرنا چوک میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی، غم کی اس گھڑی میں ساری قوم اکٹھی ہو گئی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کوئٹہ کا دورئہ مختصر کر کے پشاور پہنچے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف مسلسل، دو دن منگل اور بدھ پشاور گئے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ہنگامی اجلاس ہوا۔
گورنر ہائوس میں آل پارٹی کانفرنس ہوئی گورنر اور وزرائے اعلیٰ صاحبان خاص طور سے مل بیٹھے تحریک انصاف نے اپنا احتجاج موخر کیا، مگر یہ سارا کچھ وقتی غم و غصے تک ہو گا؟ خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لینے کی باتیں تو پہلے بھی سنتے آئے ہیں۔ ملک دشمن عناصر کو کسی قسم کی جارحیت کی اجازت نہ دینے کی باتیں سنتے زمانہ گزر گیا، آخری دہشت گرد تک لڑنے کی باتیں تو بڑے عزم اور حوصلہ افزاء ہیں مگر اس پہلو پر بھی غور کر لینا چاہئے کہ 2002ء سے 2014ء تک ہونے والے خود کش حملوں میں اس کا نمبر 406ہے آج تک ساڑھے چھ ہزار قیمتی جانیں دہشت گردی کا شکار ہو چکیں صرف پشاور میں 59 خود کش حملے ہو چکے۔ جس میں 800شہادتیں اور سترہ سو زخمی ہوئے تحریک انصاف نے جب سے صوبے میں ا قتدار سنبھالا تب سے یہ تیسرا بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہے پہلا 30 جولائی 2013ءکو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا تھا جس میں دہشت گردوں نے جیل توڑ کر اپنے 200 ساتھیوں کو فرار کرایا تھا، دوسرا واقعہ کوہاٹی چرچ کا تھا جس میں 83افرادجاں بحق ہوئے اور اب پشاور آرمی پبلک اسکول دیکھنا یہ ہے کہ سات آٹھ دہشت گرد 47 کلاشنکوف لیکر شہر میں گھومتے رہے اور سیکورٹی اداروں کو پتہ نہ چلا ، پھر انہوں نے اسکول کے قریب اپنی اسلام آباد نمبر کی سوزوکی کیری کو آگ لگائی پتہ نہ چلا اور پھر بلڈنگ کے عقبی حصے میں سیڑھی لگا کر اسکول میں داخل ہوئے اور صبح صبح یونیفارم میں آنے والے بچوں کو تابوت میں واپس بھجوایا ہم بحیثیت قوم تو اکٹھے ہیں مگر بحیثیت ِ سیاستدان اور اداروں کے سربراہ کے اکٹھے کیوں نہیں ہو پا رہے کیا ہمیں ملک و قوم کے دشمنوں سے نبردآزما ہونے کے لئے اسی قسم کے سانحات کا انتظار کرنا پڑا کرے گا، ہم ہجوم سے قوم کب بنیں گے اور آج تک ہونے والی دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والوں کے خون کا حساب کون دے گا۔ ابھی تک وہ زخم ہرےہیں اور اب ایک نیا وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ہم ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے مگر کب ! بقول فیض ؔ
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصب ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے