• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک عمر تک بلکہ استادوں نے ہمارے نصاب اور زمانے تک اگر حوالے دیئے تو مولانا حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری کے تھے اور ہیں۔ بہ قول ظفر اقبال جتنے نقاد ہیں وہ سب کے سب ٹھس ہیں۔ جیسا کہ ٹی ایس ایلیٹ اور خود ظفر اقبال نے لکھا ہے کہ جب تک شاعر خود تنقید نہیں لکھیں گے نئے زاویئے اور نئے ذائقے سامنے نہیں آئیں گے۔ یہ حوالہ ظفر اقبال کی تنقید پر مشتمل سات سو صفحات کی کتاب پر ہے۔ یہ پہلی تنقید کی کتاب ہے جس کو پڑھ کر لطف آیا اور مسلسل پڑھتے رہنے ہی میں عافیت سمجھی کہ پھر ایک کالم تیار ہو گا کہ آئو اور میری عدالت میں پیش ہو کہ ’’لا تنقید‘‘ میں اتنا سچ ہے کہ جگہ جگہ میرے منہ سے واہ نکل گیا۔ ظفر اقبال نے لکھا ہے اور سچ لکھا ہے کہ دھڑا دھڑ شعری مجموعے شائع ہو رہے ہیں پھر ان کے فلیپ، دیباچے بہت سے شاعری کے خلیفہ لکھ دیتے ہیں۔ عظیم سے کم درجہ تو کسی کتاب کو دیا ہی نہیں جاتا ہے، شعر نا شعر کا فرق تو ایسی تحریروں میں رکھا ہی نہیں جاتا۔ اب تو شاعری اور مقبولیت کو یکساں سمجھا جاتا ہے۔ توصیفی کلمات میں احمد فراز اور پروین شاکر کا نام ہر جگہ ہوتا ہے۔ مجید امجد یا پھر ن م راشد کے نام کہیں دکھائی نہیں دیتے کہ ہمارے معاشرے میں موزوں گوئی کو عمدہ شعر سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ وہ شاعری ہے جس کے بارے میں منیر نیازی نے ’’بے برکت شاعری‘‘ کہا تھا اور ظفر اقبال اس کو ماٹھی غزل اور ماٹھی تنقید کہتے ہیں۔
جب میں ’’لا تنقید‘‘ عنوان لکھ رہی تھی تو مجھے عرب معاشرہ یاد آ رہا تھا جو پاکستانی سوال کنندہ کو ہر سوال کا جواب ’’لا‘‘ میں دے کر چھٹکارا حاصل کرتے ہیں۔ ظفر اقبال کے یہاں معاصر شعراء میں انیس ناگی، افتخار جالب، جیلانی کامران کیلئے توصیفی جملے ہیں، وہیں کہیں وہ رستم نامی اور فرحت عباس کی شاعری کی بھی توصیف کرتے ہیں۔ ہم عصروں کے بارے میں مکالمہ کرتے ہوئے وہ رومانوی شعراء میں اختر شیرانی اور عدم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ اب انہیں کون یاد کرتا ہے۔ ساتھ ہی شمس الرحمان فاروقی، انتظار حسین اور ناصر کاظمی کی چٹکیاں بھی لیتے جاتے ہیں۔ خاص کر فاروقی صاحب کی ’’شعر و ناشعر‘‘ کی تین جلدوں والی کتاب پر بہت برہم ہوتے ہیں۔ ظفر اقبال کی آب رواں جب شائع ہوئی تو سب طرف سے اس کی تحسین ہوئی۔ اسی زمانے میں انیس ناگی اور افتخار جالب نے لسانی تشکیلات کا ڈول ڈالا۔ اگلی شعری کتاب جس کا عنوان ’’گل آفتاب‘‘ رکھا گیا اس کے دیباچے میں کئی اشعار درست تھے مگر کتاب کے مندرجات میں کئی اشعار کو بگاڑ کر لکھا گیا۔ بس بحث چل نکلی کہ لفظ کا متوقع یا غیر متوقع یا معمولی یا غیر معمولی استعمال کیا اور کیسے ہوتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے پڑھتے میں کئی دفعہ ہنسی کہ ادھر سنجیدہ فقرہ ختم ہوا نہیں کہ ظفر اقبال نے لطیفہ ٹانک دیا ہے۔ کچھ باتیں اپنے ہم عصروں کے بارے میں مناسب اور درست ہیں۔ خود شہزاد احمد کو ایک مصرعے کا شاعر کہتی ہوں کہ بہت اچھی پہلی لائن آ گئی تو دوسرا مصرعہ برابر کا نہیں ہے۔ ظفر اقبال کا اصرار ہے کہ اچھا شعر محبت کے تجربے سے گزرنے کے بعد ہی اور وہ تجربہ جان لیوا نظر آتا ہو تب ہی ڈھلتی ہے شعر کی صورت۔ ہمارے رسالوں اور مدیران کے بارے میں بھی ظفر اقبال کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ میرے بھی خیال میں بہت سے مدیر ڈاک خانے کا کام کرتے ہیں۔ نہ مضمون کے سلسلے اور نہ شعری انتخاب میں توجّہ دیتے ہیں بلکہ جو غزل یا نظم یہ لکھ کر بھیج دی گئی ’’امید ہے پسند آئے گی‘‘ وہ رسالے کی زینت بن جاتی ہے اس لئے رسالوں کا معیار بھی سوائے دنیا زاد اور آج کل کے بالکل ہی نہیں رہا۔
سیاست اور شاعری کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے فیض صاحب اور جالب کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ یہاں فیض صاحب کو بہتر نمبر، بہتر شاعری کی بنا پر دیئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی میں حیران ہوں کہ مشکور حسین یاد کو بھی اچھے شعراء میں شمار کر جاتے ہیں۔ کیا پتہ کل انور سدید کو بھی شاعر مان جائیں۔ نثری نظم کیلئے وسعت نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتے ورنہ کل کلاں بشریٰ رحمان اور رضیہ فصیح احمد نثری نظم نما اپنی تخلیقات روانہ کر دیں تو لحاظ کرتے ہوئے ان پر بھی لکھ ڈالیں۔ ایک بات جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ظفر اقبال کہتے ہیں کہ ہمیں شعری جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ چیلنج قبول کرنے والے اور نہ قبول کرنے والے مضمون، شعر، اسلوب اور تلمیحات میں کون لوگ ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ شاعری میں آج کے زمانے میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ جام اور میخانے نہیں رہے ادھر زلفیں اور نقابیں بھی مفقود ہوئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کی پھانسیوں کے باعث یہ مضمون تازہ ہو جائیں مگر پھر بھی بہ قول ظفر اقبال مدقوق غزل سے ہمارا پیچھا شاید چھوٹ جائے۔ غزل کو نیا پیرا دیتے ہوئے خود ظفر اقبال کہہ دیتے ہیں کہ:
یہ اندر جا کے دیکھیں گے تو کچھ معلوم ہو گا
کہ آدھا اور کچھ ہے اور آدھا جمگھٹا ہے
یہ جانتے ہوئے بھی کہ نئے شعراء ان کی نقل کرتے ہوئے عجیب و غریب قافیے اور ردیف لگانے لگتے ہیں۔ اب سے کوئی دس سال پہلے سے نئے شاعر جون ایلیا کی نقل میں غزلیں لکھ رہے تھے۔ اپنی غزل کی وکالت میں ظفر اقبال نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ اب اس تلاش میں کہ نئے شاعر اپنا ایک آدھ شعر ظفر اقبال اپنے کالم میں لکھ دیں۔ بہت لوگ اپنی کتب بھیج کر ان کے اشعار کی توصیف کر دیتے ہیں، بس اور کیا چاہئے، کالم کا پیٹ بھرنے کیلئے۔ ویسے عرفان صدیقی جیسے نفیس شاعر کے حوالے سے جب مضمون لکھتے ہوئے ان کے اشعار کا بھی حوالہ دیتے ہیں تو یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ لفظ کا غیر متوقع اور غیر معمولی استعمال اصل میں شعر کو شناخت دیتا ہے۔
یہ مضمون جو لکھا گیا اس میں چند فقرے میرے ہیں۔ شعر کی شناخت موزونیت، سستی رومانویت، شعر نا شعر کا فرق، ایک دوسرے کو پڑھنے والے شعراء وغیرہ۔ یہ ساری باتیں میں نے ظفر اقبال کے متفرق مضامین میں سے لئے ہیں۔ مجھ میں کیا ہمت کہ اتنی ضخیم کتاب پہ مختصر تبصرہ کر سکوں البتہ یہ پھر کہوں گی کہ شعری تنقید پہ مبسوط کتاب یہی ہے۔ توقع ہے کہ اس کتاب کو سنجیدگی سے پڑھنے والے خوش ہوں گے کہ شعراء نے خود نئی تنقید لکھنی شروع کر دی ہے۔
تازہ ترین