ایک دانشور کا کہنا ہے کہ جب معاشرہ بکھر جائے تو اسے یکجا کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہیں سے اس کا زوال شروع ہوتا ہے۔ ساری دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا کی قوموں کی بنیاد روایتی اور مشرقی معاشرہ پر رہی ہے۔ اس مشرقی معاشرہ میں ’’خاندانی روایات‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جس میں بزرگ کا مقام عظمت چھوٹوں سے پیار اور بلاتمیز شخصی احترام کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ امام مالکؒ ایک بڑے عالم ہی نہیں بلکہ ایک مسلک ان سے انتساب ہے۔ ان کے گھر ایک مزدور کام کر رہا تھا، جب کام ختم ہو گیا تو حضرت امامؒ نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ چار درہم اس کی مزدوری اور 2درہم انعام کے طور پر دے دو۔ جب صاحبزادے نے اسے امام کی جانب سے انعام دیا تو اس نے اصرار کے باوجود یہ پیسے لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مزدوری ہی میرا حق ہے اور چلا گیا۔ صاحبزادے نے واپس آ کر حضرت امامؒ سے کہا کہ اس نے انعام لینے سے انکار کر دیا ہے جناب امامؒ نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ ’’نہیں جائو اور اس کو انعام دے کر آئو‘‘ بیٹا اس کے پیچھے بازار میں گیا اور اس کو روک کر جب انعام دیا تو وہ رقم لے کر چلا گیا۔ امامؒ کے صاحبزادے حیران ہوئے کہ ابھی تو یہ اصرار کے باوجود انعام نہیں لے رہا تھا اور اب بازار میں فوراً پیسے لے لئے۔ واپس آ کر انہوں نے والد گرامی سے اس پر استفسار کیا تو جناب امام مالکؒ کا کہنا تھا کہ جب وہ گھر میں تھا تو میرے اثر میں تھا اور بازار پہنچا تو بازار کے اثر میں آ گیا۔ آج زمانہ ’’الیکٹرانک دور‘‘ میں داخل ہو گیا ہے۔ روایتی رکھ رکھائو ، بزرگوں کا احترام اور محبت معاشرہ میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ ’’خاندانی نظام‘‘ ختم ہو رہا ہے اور اب یہ ’’اگلے وقتوں کے لوگ‘‘ ایک ایک کر کے ہم سے بچھڑتے جا رہے ہیں اور نئی نسل اس روایتی تربیت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ جب کوئی سیاستدان اپنے کئے سے منحرف ہوتا تو نوابزادہ نصراللہ خان تڑپ جاتے اور فرماتے کہ ’’دیکھو جی، غضب خدا کا اب تو اپنے کئے کا پاس بھی نہیں۔ شرم و حیا اٹھ گئی ہے۔‘‘ نوابزادہ صاحب بھی ’’اگلے وقتوں کے لوگوں‘‘ میں تھے۔ روایتی ترکی ٹوپی، ہاتھ میں چھڑی، شیروانی اور شلوار ان کا لباس تھا اور مشرقی روایات کا سمبل ’’پاندان‘‘ حقہ ساتھ ہوتا۔ خالد محمد خان ٹکا اس قبیلہ کے روایتی شخص تھے۔ اگرچہ ساری عمر پولیس میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے لیکن خاندانی وجاہت، مشرقی روایات کو پوری طرح قائم دائم رکھا۔ ان کے قابل احترام والد گرامی محمد خان ٹکا راجپوت قبیلہ کے سردار تھے۔ بڑی ہی وجیہہ قدآور ایسی شخصیت تھے جو دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ۔ انگریزی میں اسے "Dynamic" شخصیت کہتے ہیں۔ خاندانی رکھ رکھائو اور سب ان کی عزت کرتے تھے۔ میرا ان سے دوہرا رشتہ تھا۔ ایک جناب ٹکا اور میرے والد گرامی سید امیر الدین قدوائی کے درمیان شفقت و محبت کی دوستی تھی دوسرے میرے مرشد اعلیٰ حضرت میاں علی محمد خان (بسی شریف) سے ان کی نسبت۔ لاہور میں رانا ظفر اللہ خان کی اقامت گاہ پر جب آتے تو محفل ہوتی جس میں اس وقت کے اعلیٰ افسر اے ٹی نقوی، جناب ظفر الحسن، رانا جہانداد خان بھی شریک ہوتے۔ رانا ظفر اللہ خاں بھی محبت کرنے والے لوگ تھے نوابزادہ نصر اللہ خاں کی پاکستان جمہوری پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ خالد ٹکا جب بزرگ ٹکا صاحب لاہور آتے تو وہ ان کے ہمراہ ہوتے۔ وہ میرے والد اور اپنے والد سے تعلق کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خاندانی روایات کو سج دھج کے ساتھ برقرار رکھا۔ ان میں ایک بڑی خوبی یہ تھی جو انہیں والد گرامی سے ورثہ میں ملی تھی کہ ضرورت مند کی اس طرح مدد کرتے کہ دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہو۔ ان میں آج کے کئی بڑے نام والے لوگ بھی شامل ہیں کہ کسی کے بارے میں علم ہوتا کہ مالی طور پر تنگی کا شکار ہے تو ایسے فوراً مدد کرتے کہ کسی کو علم ہی نہ ہوتا۔ ان کا حلقہ احباب بڑے وسیع تھا تاہم غریبوں سے بھی اسی طرح ملتے کہ ان کے قریبی دوست ہوں۔ رانا خاندان میں ان کا بڑا احترام تھا۔ بڑے دبنگ افسر تھے کسی غلط سفارش اور سیاسی دبائو کبھی قبول نہیں کیا۔ ایک بڑا حسن یہ تھا کہ تمام خاندان ایک فرد کی طرح متحدہ تھا تمام بھائیوں میں مثالی محبت و پیار تھا کہ آج کے دور میں، میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ ان کے چھوٹے بھائی اقبال محمد خان ٹکا وزیر، معاون خصوصی اور اسمبلیوں کے رکن رہے۔ سیاست میں صف اول میں شامل رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بی بی شہید کے بھی قریب رہے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کے تو دست راست تھے۔ اقبال ٹکا نے بھی خاندان اور مشرقی روایات کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی اعظم ٹکا اور ایک بھائی پولیس میں اعلیٰ افسر ہیں۔ خالد ٹکا نے اپنے پوتے اور اقبال ٹکا نے اپنے نواسے کا نام اپنے والد محترم کے نام پر محمد خان ٹکا رکھا ہے۔ خالد ٹکا آخری عمر میں علیل تھے اور عارف والا منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی موت سے جہاں ٹکا خاندان ایک شفیق بزرگ سے محروم ہو گیا وہیں میرا ایک محبت کرنے والا بھائی بچھڑ گیا کہ ایسے لوگ اب کہاں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور لوحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آخر میں وحشت کلکتوی کا ایک شعر!!
زندگی کی دوسری کروٹ تھی موت
زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی