اپنی زمین اور مٹی سے محبت صرف کاشتکار و کسان کو ہوتی ہے صنعتکار کو نہیں کیونکہ وہ جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے اسی پر محنت کرتا ہے اسی کو گل و گلزار بناتا ہے۔ زمین کا سینہ چیر کر اپنی خون پسینے کی کمائی سے ملک و قوم کے لئے قیمتی زرمبادلہ پیدا کرتا ہے اور وہ آخر میں مر کر اسی مٹی میں دفن ہوجاتا ہے۔ زمین نہ منتقل ہو سکتی ہے، نہ اسمگل ہوسکتی ہے اور نہ پاناما جاسکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں صنعتکار صرف پیسوں سے محبت کرتا ہے، اس کی محبت کارخانے کی پیداوار سے ہوتی ہے خصوصاً اس ملک سے جہاں ٹیکس سب سے کم ہو۔ وہ مزدوروں کا خون چوس کر اپنی صنعت کو وسعت دیتا ہے، محلات بناتا ہے اور اگر کسی قسم کی مشکل و دشواری محسوس کرتا ہے تو ملک سے ہی صنعت اٹھا کر لیجاتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان سے بیشتر صنعتکار جن میں حکمران اور ان کا خاندان بھی شامل ہیں ملکی صنعتیں اکھاڑ کر ملائشیا، سنگاپور، بنگلہ دیش، دبئی، سعودی عرب اور اسی طرح کے بیشتر ممالک میں منتقل کرکے نوٹ چھاپنے کی مشین لگادی ہے اور اس رقم سے اربوں کھربوں روپے کی جائیدادیں بلکہ محلات دبئی، لندن اور امریکہ میں بنائے ہیں۔ زراعت ملک کو معاشی خوشحالی زرمبادلہ کی صورت میں مہیا کرنے کے ساتھ عوام کو بھی پیٹ بھرنے کیلئے خوراک اور تن ڈھانپنے کے لئے لباس مہیا کرتاہے۔ زرعی ملک اپنے عوام کو تازہ ہوا اور صحت مندانہ ماحول مہیا کرتا ہے۔ آج دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی ایک گمبھیر مسئلہ بنا ہوا ہے جبکہ زرعی ممالک اس سے آزادہیں۔ لہلہاتے کھیت اور ہریالہ ماحول انسانوں کو ایک طرف صحتمند بناتا ہے تو دوسری طرف آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔ پاکستان کا 70 فیصد رقبہ زراعت پر مشتمل ہے اور بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ امریکہ، چین، کینیڈا اور بھارت جیسے بڑے ممالک کا زیادہ تر رقبہ زراعت پر مشتمل ہے جہاں نہ صرف اپنے ملک کے عوام کو بلکہ دنیا بھر کے ممالک کو گندم و دیگر غذائی اجناس مہیا کی جاتی ہے۔ ہالینڈ کی بیشتر معیشت زرعی اشیاء اور ڈیری آئٹم کی برآمدات پر مبنی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود وہ دنیا کے خوشحال ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ بھارت و امریکہ سمیت بیشتر ممالک اپنے کاشتکاروں کو سبسڈی دیتے ہیں۔ بھارت اپنے کاشتکاروں کو 92بلین ڈالر کی سبسڈی دے رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھارت خوراک میں خودکفیل ہے جبکہ ہم بھارت سمیت دیگر ممالک کے محتاج ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے پاکستانی پنجاب متحدہ ہندوستان کو گندم فراہم کرتا تھا اور آج ہم گندم میں ہی محتاج ہیں، ہماری کپاس کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ آج ہمیں کپاس بھی درآمد کرنی پڑجاتی ہے جو پوری قوم کے لئے باعث ندامت و شرمندگی ہے۔ اگر حکومت اس طرف توجہ دے کر کاشتکاروں کا خیال رکھے، انہیں سبسڈی دے تو ہم بھی خوراک و غذائی اجناس میں کسی دوسرے ملک کے محتاج نہیں رہ سکتے۔ دوسری طرف 70فیصد آبادی جو زرعی علاقوں میں رہتی ہے انہیں روزگار اور خوراک میسر آجائے گی جو ایک ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔ امریکہ جیسا صنعتی ملک جہاں کسی زمانے میں ہر طرح کی صنعتیں تھیں وہاں جب ماحولیات کامسئلہ پیدا ہوا، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر کی مقدار میں اضافہ ہونے لگا تو عوام و خواص میں اس حوالے سے شدید تشویش پائی جانے لگی جس کی وجہ سے امریکہ نے اپنے عوام کی تشویش دور کرنے کے لئے اپنی صنعتیں چین، کوریا، تائیوان اور اس طرح کے دیگر ایشیائی ممالک میں منتقل کردیں، حتیٰ کہ ان کی کپڑوں کی برانڈڈ کمپنیوں کی تمام صنعتیں منتقل ہوچکی ہیں، کپڑے ان ممالک میں بنتے ہیں اور ان پر اسٹیکر امریکی برانڈڈ کمپنیوں کے لگتے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ میں کاشتکاروں کو بے انتہا مراعات اور غذائی اجناس پر بے تحاشا سبسڈی دی جارہی ہے کیونکہ انہیں اپنے ملک کی ماحولیات بھی عزیز ہے اور زراعت کی اہمیت کا بھی احساس ہے اسی لئے جب امریکہ میں ضرورت سے زیادہ گندم پیدا ہوجاتی ہے تو اپنے عوام کی ضرورت پوری کرکے اور جن ملکوں کو سپلائی کرنی ضروری ہوتی ہے انہیں درآمد کی جاتی ہے پھر بھی اگر گندم بچ جائے تو وہ ذخیرہ (اسٹور) کرنے کے بجائے کسانوں سے گندم خرید کر اسے سمندر برد کر دیتے ہیں تاکہ کسانوں کو اس کی پیداوار کا صحیح معاوضہ مل سکے جبکہ ہمارے ملک میں موجودہ حکمرانوں کو اس کی بالکل پروا نہیں ہے، اس کا منہ بولتا ثبوت ان کسان دشمن پالیسیاں ہیں جو صنعتکاروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں کیونکہ بنیادی طور پر موجودہ حکمران صنعتکار ہیں اور موجودہ کسان دشمن بجٹ بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آج کل دنیا بھر میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی ہورہی ہے لیکن غذائی اجناس کی پیداواری قیمتیں بے انتہا بڑھی ہیں۔ غریب کسانوں کواس سے کوئی سروکار نہیں کہ دنیا کی معیشت کیا ہوتی ہے... اس میں اتار چڑھائو کیا ہوتا ہے، وہ تو بس یہ جانتے ہیں کہ وہ شدید سردیوں، تپتی دھوپ، آندھی طوفانوں اور قدرتی آفات میں دن رات محنت کرکے زمین کا سینہ چیر کر کھیتوں کھلیانوں میں ہریالی لائے، فصلیں اگائیں لیکن جب انہیں ان کی محنت کا پھل ملنے کا وقت آیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کی محنت بے سود ہے اس کا کوئی معاوضہ نہیں تو اس وقت ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ موجودہ حکمرانوں کو اس کی ذرہ برابر پروا ہے نہ احساس کیونکہ وہ صنعتکار ہیں ہر چیز کو تجارت کی نظر سے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نئی صنعتیں لگانی ہوں، میٹرو بس، اورنج ٹرین یا کمیشن کے عوض کوئی بھی منصوبہ ہو تو حکمران اس میں سب سے آگے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے پاناما میں سرِفہرست ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 15سال کے دوران پہلی مرتبہ زراعت کے شعبے میں فصل کی پیداوار میں بدترین ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ 30فیصد کمی جبکہ گندم کی پیداوار میں 20فیصد سے بھی زیادہ کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس سال گندم کی بڑی مقدار میں درآمد کرنی پڑے گی ۔ بیج ،کھاد، ٹریکٹر، پانی ،ٹیوب ویل اور اس کے لئے بجلی جیسی بنیادی ضروریات جب تک کسانوں کو رعایتی داموں پر نہیں دیں گے، ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اسی طرح دنیا سے غذائی اجناس درآمد کرتے رہیں گے۔ 1993سے 1996تک پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، جب ہمیں حکومت ملی اس وقت زرعی شعبہ خستہ حالی کا شکار تھا اور ایگری کلچر گروتھ صفر تھی، جب ہماری حکومت کو زبردستی ہٹایا گیا اس وقت ایگری کلچر گروتھ 11.7فیصد تھی۔ اس کی بڑی وجہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی زرعی شعبہ میں ذاتی دلچسپی تھی، انہوں نے زرعی شعبے کو خاصی مراعات دیں، جس سے کاشتکار، کسان اور مزدور خوش اور خوشحال تھے۔ انہوں نے ٹریکٹر پر ڈیوٹی ختم کردی تھی اور صرف ڈیڑھ لاکھ روپے میں سستے ٹریکٹرز دیئے ۔ جس سے زرعی شعبے میں انقلاب آگیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی اسکیمیں دوبارہ شروع کی جائیں تاکہ زرعی شعبہ خودکفیل ہوجائے اور کسان خوشحال زندگی بسر کرے۔
حکومت نے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے پچھلے 3سالوں میں 700ارب روپے کا قرضہ لیا ہے اور اب ان قرضوں کی قسطیں واپس کرنے کے لئے بھی قرضہ لیا جارہا ہے۔ حکومت نے اتنی بڑی تعداد میں قرضہ لیا لیکن اس سے کسانوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا جس سے ملک کی 70فیصد آبادی شدید متاثر ہوئی ہے اب ملک غذائی بحران کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں زرعی شعبے کو سہولتیں دی جاتی ہیں وہ ملک غذائی پیداوار میں خودکفیل ہو تا ہے اور کسی دوسرے ملک کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ آلودگی پر بھی قابو پا یا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے پر بڑی سنجیدگی سے کام کررہے ہیں۔ ہمیں بھی زرعی شعبے کی ترقی کے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کا استحصال کرنے والے صنعتکار اور صاحب اقتدار طبقہ کی طرف سے زراعت کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تاکہ اناج بھی درآمد کر سکیں۔ زراعت کو تباہ کرنے والے یہ سوچ لیں کہ فلور ملز، شوگر ملز سے لے کر ٹیکسٹائل انڈسٹری تک کا پہیہ زراعت سے چلتا ہے۔ 20کروڑ افراد کا اناج کسان پیدا کرتا ہے۔ پھل، سبزیاں، دودھ تک شہروں میں کسان لاتا ہے اب حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ ملک کو زراعت میں خودکفیل بنانا ہے یا صرف صنعتوں میں۔ میرا حکومت خاص طور پر وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو مشورہ ہے کہ ملکی زرعی اجناس کو دنیا بھر میں فروخت کے لئے فری مارکیٹ کی اجازت دی جائے تاکہ کسان آزادی کے ساتھ اپنا مال دنیا بھر میں بیچ سکے جس سے ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا اور کسان بھی خوشحال ہوگا۔
.