نون لیگ کے کچھ مخالفین بعض اوقات موجودہ حکومت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ جونہی اس کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوتی ہے اس کی گردن میں سریا آجاتا ہے یعنی یہ مغرور ہوجاتی ہے، کسی کی پروا نہیں کرتی اور بغیر مشاورت کے ایسے فیصلے شروع کر دیتی ہے جن میں باقی اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے اور کسی حد تک غلط۔جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے وزیراعظم نوازشر یف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار عاجزی اور انکساری سے کام لیتے ہیں اور شاید ہی کبھی ہو کہ ان کی گردن میں سریا آئے۔ ہاں البتہ جہاں اصولوں کی بات آتی ہے وہاں یہ مستقل مزاج ثابت ہوتے ہیں اور اپنے موقف پر ڈٹ جاتے ہیں جسے ہٹ دھرمی نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جب وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے باوجود اس کے کہ بہت خطرات تھے۔
نوازشریف کابینہ کے کچھ وزراء ایسے ہیں جن کی گردن میں سریا ضرور موجود ہے۔ ان میں اکثر وہ ہیں جو وزیراعظم کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اگر نوازشریف کسی ٹیم ممبر کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کی رائے کو وزن دیتے ہیں تو وہ تیس مار خان بن جاتا ہے جو کہ یقیناً ایک منفی رویہ ہے۔ صرف وزیر ہی نہیں ہیں جن کا ایسا انداز ہے کچھ بیوروکریٹس بھی اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے ذرا ان کے کام کی تعریف کیا کی کہ ان کی گردن میں سریا آگیا۔ ایسے تمام لوگ حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایسے افسران کی وفاداریاں ہمیشہ حکمرانوں چاہے وہ کوئی بھی ہوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ایسے وزراء اور بیورو کریٹس وہ لوگ ہیں جو صاحب کی نظر کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں یعنی وہ چاپلوس ہوتے ہیں اور صاحب کا موڈ دیکھ کر اپنی رائے دیتے ہیں۔ وزیراعظم کو ایسے چاپلوس گروپ سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم دانستہ طور پر ایسے وزراء اور افسران کے نام نہیں لے رہے تاہم اکثر باخبر لوگ اس قبیلے کو خوب جانتے ہیں اور ان کی حرکات سے بھی آگاہ ہیں۔ جس دن سے موجودہ حکومت معرض وجود میں آئی ہے نوازشریف نے ہمیشہ صلح و صفائی اور مفاہمت کی بات کی اور کشیدگی کو اپنے تئیں دور رکھنے کی کوشش کی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ ملک مزید لڑائی جھگڑے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ صرف پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنا ہی ایک ایسا ایکٹ تھا جس نے کسی حد تک ٹکرائو کی صورتحال پیدا کی مگر اس میں بھی قصور وزیراعظم کا نہیں تھا کیونکہ وہ تو عدلیہ کے فیصلے کے ہاتھوں مجبور تھے۔ عدالت نے وارننگ دی تھی کہ اگر حکومت مشرف کے خلاف سنگین غداری کا کیس دائر نہیں کرتی تو اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی مگر یہ رکاوٹ بھی ختم ہوچکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے۔ وفاقی حکومت بھی اس کیس کو زندہ کرنے اور پرزور پیروی کرنے کیلئے بالکل پرجوش نہیں ہے۔ یہ مقدمہ اپنی موت خود ہی مرچکا ہے۔ تاہم یہ کیس وزیراعظم نے گردن میں سریا کی وجہ سے نہیں بنایا تھا۔
موجودہ حکومت کے جس کسی بھی اہم ممبر کی گردن میں سریا تھا وہ پچھلے سال تو مکمل طور پر ٹوٹ گیا جب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور صدر پاکستان عوامی تحریک علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے لائو لشکر سمیت اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ تمام ایسے وزراء اور افسران جن کی گردن میں سریا تھا کو جان کے لالے پڑگئے اور ان کی گردن میں سریے کی بجائے موم آگئی۔ یہ حضرات اپنے پورے کیرئیر کے دوران کبھی اتنے زچ اور پریشان نہیں ہوئے تھے ان کی شکلیں قابل دید نہیں تھیں۔ کریڈٹ تو وزیراعظم کے غیر متزلزل ارادے اور تحمل مزاجی اور پارلیمانی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اس طاقتور حلقے کو جاتا ہے جنہوں نے بڑی یکسوئی اور ذہانت سے اس سازش کو ناکام بنایا۔ سیاسی جماعتیں بار بار کہتی رہیں کہ وہ حکومت کے نہیں بلکہ جمہوریت کے دفاع اوربچائو کیلئے میدان میں اترے ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ نوازشریف کے کچھ مخالفین یہ بار بار کہتے رہے کہ جونہی حکومت خطرے سے باہر آئے گی اس کی گردن میں سریا آجائے گا۔ وزیراعظم کی حد تک تو ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہ تو اس بحران کے خاتمے کے بعد بھی تمام سیاسی جماعتوں کو حتی المقدور ساتھ لے کر چل رہے ہیں چاہے وہ پاک چائنا معاشی راہداری ہو یا ضرب عضب ہو یا کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن۔ انہوں نے ہمیشہ اتفاق رائے کی سیاست کو فروغ دیا ہے جو کہ بہت ہی صحت مند اور حوصلہ افزاء تبدیلی اور رجحان ہے۔ یہاںہمیں قائد متحدہ قومی موومنٹ بھی یاد آرہے ہیں۔ گزشتہ 23 سالوں سے وطن سے دور رہنے پر مجبور ہیں مگر رویہ نہیں بدلا وہی دھمکیاں اورجارحانہ انداز۔ پالیسی یہ ہے کہ سب کو ڈرایا اور دھمکایا جائے مگر ایسا کچھ بار تو ہوسکتا ہے مگر ہر بار نہیں یہ انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ان کے حالیہ خطاب جو انہوں نے ڈلاس (امریکہ) میں اپنے کارکنوں کے ایک کنونشن سے کیا ،سےہوتا ہے۔ان کے بیان نے یقیناً ہر پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ان کا ایک اور بہت بڑا بلنڈر ہے جس کا خمیازہ نہ صرف انہیں بلکہ ایم کیو ایم کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ عام طور پر ان کی پارٹی کے اہم رہنمائوں نے ان کے امریکہ، نیٹو اور بھارت کو پاکستان میں فوجی مداخلت کی دعوت کا دفاع نہیں کیا مگر پھر بھی کچھ لیڈر ایسے ہیں جو کان کو بجائے سیدھا پکڑنے کے گھما پھرا کر پکڑ رہے ہیں یعنی ان کے بیان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ الطاف حسین کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستانی دفاعی اداروں پر اتنا دبائو ڈالا جائے اور بین الاقوامی طور پر انہیںاتنا بدنام کیا جائے کہ وہ کراچی میں آپریشن ختم کردیں تاکہ ان کے ساتھی وہی پرانی مجرمانہ حرکتیں جاری رکھیں مگر ایسا تو کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ تمام سیاسی اور فوجی قیادت کا مصمم ارادہ ہے کہ آپریشن نہ صرف ہر صورت جاری رہے گا بلکہ اس کو مزید تیزکیا جائے گا۔ اس کی تازہ مثال رینجرز کا ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو تازہ خط ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ متحدہ 187 ٹارگٹ کلرز کو فورس کے حوالے کرے جنہوں نے 90 کی دہائی میں ہونے والے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران کو بعد میں قتل کر دیا تھا۔
نہ ہی حکومت، نہ ہی ہمارے دفاعی اداروں نے کبھی اس بات سے انکار کیا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے انہیں اس کے بطور سیاسی جماعت کام کرنے پر بھی اعتراض نہیں ہے مگر ان کی کوشش ہے کہ الطاف حسین کو ان کے اشتعال انگیز بیانات اور کارروائیوں کی وجہ سے اور ایم کیو ایم میں فرق واضح کیا جائے یعنی ایم کیو ایم تو بطور سیاسی جماعت قبول ہے مگر اس کے وہ عناصر نہیں جو قتل و غارت میں ملوث ہیں۔ اگرچہ اس بار قائد متحدہ نے ساری حدیں پار کردی ہیں مگر انہوں نے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ پہلی بار نہیں کیا۔ وہ کئی بار غیر دانشمندانہ بیان دے چکے ہیں اور یا تو اسی دن ہی یا کچھ عرصہ بعد انہیں واپس لے لیتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے یہ واحد سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے یہ وتیرہ بنا رکھا ہے۔اس بار تو انہوں نے اپنا پچھلا ریکارڈ بھی بریک کردیا ہے۔ ویسے بھی انہیں پاکستان نہیں آنا مگر اب تو انہوں نے واپسی کا ہر دروازہ اور کھڑکی بند کردی ہے۔