• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ کے سامنے اٹھارویں اور اکیسویں ترامیم کے حوالے سے بنیادی سوال یہ نہیں تھا کہ کیا فوجی عدالتیں اچھی ہیں یا بری، بلکہ یہ کہ کیا عدالت کے پاس پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کی طرف سے آئین میں کی گئی تبدیلی پر حکم صادر کرنے کا اختیار موجود ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ کیا آرٹیکل 239، جیسا کہ اس کے سیکشن (5)’’آئین میں کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیاجاسکتا‘‘ اور سیکشن (6)’’ شک و شبہ کے خاتمے کے لئے اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ آئین کے کسی سیکشن میں تبدیلی کرنے کے لئے پارلیمنٹ لامحدود طاقت رکھتی ہے‘‘آئینی ترامیم پر عدالت کو نظر ِ ثانی کرنے کی کوئی گنجائش رہنے دیتا ہے؟
’’یہ بات آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے کہ اس اصول کا بنیادی ڈھانچہ از خود عدلیہ کی طاقت کو منتخب شدہ نمائندوںپر بالادستی حاصل کرنے سے روکتاہے۔ تصوراتی طور پر اس اصول کی اس کے علاوہ کوئی اور خوبی نہیں کہ جب بھی ضرورت پڑے ،جج حضرات اس کے ذریعے معاشی، سیاسی یا سماجی معروضات سے پہلو تہی کرجائیں۔ ‘‘بنیادی ڈھانچے پر یہ کھلے اورواضح الفاظ میں تبصرہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آئین جج حضرات سے اپنی طاقت محدود رکھنے اور اس کے ساتھ نباہ کرنے کا تقاضا کرتا ہے، تاہم بدقسمتی سے یہ آئینی تقاضا سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والی اکثریتی رائے کا حصہ نہیں تھا۔ یہ الفاظ جسٹس ثاقب نثار کے ہیں جنھوں نے جسٹس ناصر الملک، آصف کھوسہ اور اقبال حمید الرحمن کے ہمراہ تیرہ ججوں کی رائے سے اختلاف کیا کہ بنیادی اصولوں کی بنیاد پر آئینی ترامیم کو کالعدم قراردیا جاسکتا ہے۔ آئین ایسے بنیادی اصول رکھتا ہے ، گرچہ ان کا نہ تو آئین میں وضاحت سے ذکر موجود ہے اور نہ ہی اس فیصلے میں جج صاحبان نے اس پر روشنی ڈالی، جنہیں پارلیمنٹ متفقہ ووٹ کے ذریعے بھی نہیںتبدیل نہیں کرسکتی۔
اس طرح تیرہ ججوں نے فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرنے سے بعض صورت میں عاجز ہے لیکن چونکہ ان مقامات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے ، اس لئے یہ عدالت ہے جو فیصلہ کرے گی کہ وہ کون سامقام ہے جہاںپارلیمنٹ تبدیلی کرنے کی مجاز ہے اور کس جگہ وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ اس کا مطلب یہ کہ عدالت نے پارلیمنٹ کے آئین سازی کے اختیارکو محدود کردیا ہے کیونکہ اسے بنیاد بنا کر آئین میں ہونے والی ہر ترمیم کو چیلنج کردیا جائے گا اور پھر اس ترمیم کی قسمت کا فیصلہ اُن جج حضرات کے ہاتھ چلا جائے گا جو اُس وقت کی اعلیٰ عدالت میں فرائض سرانجام دے رہے ہوںگے۔
فوجی عدالتوںکی حمایت میں آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ تیرہ ججوں کی رائے کے مطابق سپریم کورٹ آئین میں ترمیم کی قانونی حیثیت تسلیم کرکے فوجی عدالت کو درست قرار دیتے ہوئے کہہ سکتی ہے کہ یہ عدالتیں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کے مترادف نہیں اور نہ ہی ان سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ چار میں سے تین ججوں کی رائے تھی کہ عدالت کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں کہ وہ آئینی ترامیم پر فیصلہ سنائے۔ مزید یہ کہ ان کے پاس فوجی عدالتوںکو معطل کرنے کی اتھارٹی نہیںہے ۔ اس طرح فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دینے کی مخالفت میں گیارہ ووٹ پڑے۔
تیرہ میں سے پانچ جج وہ تھے جنھوں نے بنیادی ڈھانچے کے اصول کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکیسویں ترمیم (جو فوجی عدالتوںکوتحفظ دیتی ہے) آئین کے بنیادی خدوخال کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اسے بناتے ہوئے پارلیمنٹ نے اپنی اتھارٹی سے تجاوز کیاتھا، چنانچہ اس کی توثیق نہیں کی جاسکتی۔ جسٹس کھوسہ نے آئین کی تشریح کرتے ہوئے ترامیم کی منظوری کی ٹائمنگ کو زیر ِ بحث لاتے ہوئے نتیجہ نکالا کہ فوجی عدالتوںکو اکیسویںترمیم کا تحفظ حاصل نہیں۔ اس طرح سترہ میں سے صرف چھ ووٹوں کی مخالفت کی وجہ سے فوجی عدالتوں کو اپنے قیام کا جواز مل گیا۔
جسٹس عظمت سعید نے فیصلے کی اجتماعیت کی حمایت میں لکھا جسے آٹھ ججوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ ان ججوں نے بنیادی ڈھانچے کے تصور کی حمایت کی جبکہ اٹھارویں اور اکیسویں ترامیم کو چیلنج کرنے سے گریز کیا ۔ یہ ججمنٹ نتیجہ نکالتی ہے کہ ایگزیکٹو اتھارٹی فوجی عدالتوں میں کیس بھجواسکتی ہے جبکہ فوجی عدالتوںکی کارروائی اور فیصلوںپر نظر ِ ثانی کی جاسکتی ہے اگر ان میں کوئی قانونی سقم دکھائی دے۔ چیف جسٹس ناصر الملک کے لکھے گئے فیصلے ، جس کی حمایت جسٹس اقبال حمیدالرحمن نے کی، نے بنیادی ڈھانچے کے اصول کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ فوجی عدالتوں کو بھجوائے گئے کیسز، فیصلے اور سنائی گئی سزا پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دس ججوں کی اکثریت نے بہت واضح الفاظ میں کہا کہ فوجی عدالتوںسے ملنے والی سزا ان تین میں سے کسی ایک بنیادپر چیلنج ہوسکتی ہے(تاہم یہ کوئی نیا قانون نہیں اور تاریخی طور پر ہماری عدالتیں فوجی عدالتوں کی کارروائی اور فیصلوں میں مداخلت کرنا پسند نہیں کرتیں)۔
یہ فیصلہ دونوں حوالوںسے قابل تنقیدہے۔ یہ غیر منتخب شدہ ججوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی مرضی، جس کی عکاسی منتخب شدہ نمائندے کرتے ہیں، کو ویٹو کردیں ۔ بنیادی قانون اُن میں اور ریاست کے درمیان فرق قائم کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے جج حضرات طاقت کے دھڑوں کی علیحدگی کے اصول کو نظر انداز کرتے دکھائی دیں گے ۔ نوسو صفحات پر مشتمل اس فیصلے نے بہت وضاحت سے مختلف آراء کا احاطہ کیا۔دیکھا جاسکتا ہے کہ عدالت اخلاقی اور قانونی جہتیں رکھنے والے متصادم تصورات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں تھی۔ اس کے پیش ِ نظر سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے۔ تاہم بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات کی اکثریت نے عوام کے بنیادی حقوق کو آئین کے اندر ثانوی حیثیت دینے کی کوشش کی۔
اگر اکیسویں ترمیم کو نظر انداز کرتے ہوئے اکثریتی رائے سے فیصلہ کیا جاتاتو بات مختلف ہوتی ۔ کہا جاسکتا تھا کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کوترجیح دیتے ہوئے قومی سیکورٹی پالیسی کو سامنے رکھا گیا ہے۔نیز یہ کہ عدالت قانون ساز ادارہ نہیں، یہ صرف آئین کی تشریح کرنے کی مجاز ہے۔ چنانچہ یہ پاکستان کے عوام اور تاریخ پر چھوڑ دیا جاتا کہ کیافوجی عدالتوں کا قیام درست تھا یا غلط۔ یہاںہمیں تاثرملا کہ عدالت نے اپنی اتھارٹی کو توسیع دینے کی کوشش کی اور ایسا کرتے ہوئے عوامی نمائندوں کے اختیار کو کم کردیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوامی سطح پر بیانیہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارا کریمنل جسٹس فعال نہیں ، اس لئے دہشت گردوں کو سزا دینے کے لئے فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے۔ عوام میں تاثر یہ ہے کہ معمول کے عدالتی نظام میں خطرناک دہشت گردوں کو سزا نہیں مل پاتی ۔ حکومت کو خوشی ہوگی کہ اس کی ترامیم اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ جج حضرات بھی خوش ہیں کہ اب ان کے پاس ویٹو پاور آگئی۔ اب چونکہ وردی والے عدالتی طاقت استعمال کریں گے، اس لئے ہم کچھ دیر تک اپنے جوڈیشل نظام کی ناکامی کی طرف نہیںدیکھیں گے۔
تازہ ترین