• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئین جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے کسی بھی شخص کے لئے بادی النظر میں فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت ایک مشکل امر ہے ۔خواہ حالات معمول سے ہٹے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں لیکن اس سے بھی متنازع والجھا ہوا معاملہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کی اتھارٹی کن حدود تک محدود ہے جس طرح وہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کوئی ترمیم نہیں لاسکتی اسی طرح کیا وہ آئین کے بنیادی اسٹرکچرمیں بھی کسی نوع کا ردوبدل لانے کی صلاحیت نہیں رکھتی جیسے کہ ہماری عدلیہ کے کچھ فاضل ججز اوروکلاء حضرات فرمارہے ہیں یہاں تک کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ اگرچہ عوام کے نمائندوں کا فورم ہے لیکن پارلیمنٹ مقدم نہیں ہے آئین مقدم ہے پارلیمنٹ کا اپنا وجود آئین کا مرہون منت ہے۔ ہماری نظر میں یہ طرزفکر جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے خلاف ہے۔ ایسی سوچ آئین کے نام پر جبر کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔عصر حاضر کی تمام باشعور اقوام اس حقیقت پر سر تسلیم خم کر چکی ہیں کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ،منتخب پارلیمنٹ کیا ہے ؟عوامی امنگوں کا ترجمان و نمائندہ ادارہ۔ بلا شبہ کسی بھی ملک کا آئین اس ملک کے ہر قانون پر حاوی وبالادست ہوتا ہے کوئی بھی قانون خواہ وہ کیسا ہی مقدس کیوں نہ ہو آئین کے برعکس قبول نہیں کیا جاسکتا لیکن اس آئین سے اوپراگر کوئی چیز ہے تو وہ عوامی امنگوں کا ترجمان منتخب ادارہ پارلیمنٹ ہے جو آئین کی ماں ہے۔ مت بھولئے کہ آئین پارلیمنٹ کا خالق نہیں بلکہ اس کی تخلیق ہے ۔جب آئین نہیں تھا تب پارلیمنٹ تھی جو اسے معرض وجودمیں لانے کا باعث بنی۔آئین تو ڈکٹیٹر بھی بناتے رہے ہیں لیکن ان کی حیثیت نہ تھی آئین کی جو بھی اہمیت ہے وہ تبھی مسلمہ ہو سکتی ہے جب پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اسے شرفِ وجود یا قبولیت بخشتی ہے کیا اس کے بعد وہ اپنی ہی تخلیق کی یرغمالی بن جاتی ہے؟ کہ اس میں بدلے ہوئے حالات کی مطابقت میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے؟ ہر گز نہیں ،نسل انسانی کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی امنگوں کے مطابق اپنے اصول وضوابط طے کرے۔ اگر کوئی قدامت پسندانہ اپروچ اس کے آڑے آتی ہے تو وہ بڑھتے ہوئے انسانی شعور کو زنجیریں پہنانے یا قید کرنے کے مترادف ہے۔اگر پارلیمنٹ کسی بھی مملکت میں بسنے والے انسانوں کی تمنائوں کا ترجمان ادارہ ہے تو بلاشبہ یہ اسکا حق نہیں ہے کہ وہ اجتماعی انسانی حقوق و مفادات کے بر عکس قانون سازی کرے لیکن انسانی حقوق و مفادات کی پاسداری میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے کوئی بھی غیر منتخب ادارہ پارلیمنٹ کے اس وسیع تر حق پر قدغن لگانے کا حق نہیں رکھتا۔
بلاشبہ آج وطن عزیزمیں بہتری کے کچھ آثارنمودار ہوئے ہیں اگرچہ پارلیمنٹ کو آج بھی دیدہ ونادیدہ قوتوں کے جبر اور دبائو کا سامنا ہے ۔لیکن بہرحال اس کی ستائش ہونی چاہیے کہ ’’عزیزہم وطنو‘‘کہہ کہ مخاطب ہونے والوں نے شاید ماضی سے کچھ نہ کچھ سیکھا تو ہے، ہمارے ہاں اس حوالے سے ایک ادارے کی جس طرح مدح سرائی کی جارہی ہے کیا ہی بہترہو دوسرے ادارے کے حق میں بھی کچھ کلمات خیر کی ادائیگی کی جائے ہماری مرادوطن عزیز کی سپریم جوڈیشری ہےبالخصوص سپریم عدلیہ کے حالیہ دوفیصلے اتنے اہم ہیں کہ تماش بینوں کی امیدیں خاک میں مل گئی ہیں امید کی جاسکتی ہے کہ وطن عزیز شاید آنے والے ماہ وسال میں اپنا کھویا ہوا قومی وقاردوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس نازک مرحلے پر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو بر قراررکھنے کا جو فیصلہ دیا ہے وہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا اہم یہ امر ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی عظمت کے سامنے سرنگوں کرتے ہیں یہ کہ ہم منتخب پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو ختم نہیں کر سکتے پارلیمنٹ کے اختیارات کی کوئی حد نہیں اس طرح کی گئی ترامیم کو کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا آرٹیکل 239 کے تحت پارلیمان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ آپ آئین کو تبدیل کر سکتے ہیں پارلیمان نے اپنے عوام کے دیے گئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں تبدیلی کی ہے اگر عوام کی منتخب پارلیمنٹ آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی تو کیا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو یہ اختیار ہے۔ہمارے جو قانون دان حضرات اس حوالے سے اعتراضات اٹھا رہے ہیں انہیں نہ صرف دہشت گردی کے حوالے سے ملک کی غیر معمولی صورتحال کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ امر بھی سامنے رہنا چاہیے کہ فوجی عدالتوں کا جو بھی فیصلہ آئے گا سپریم کورٹ اس پر حاوی ہو گی ایسے تمامتر ملزمان کو ملٹری کورٹس کے خلاف اعلیٰ جوڈیشری سے ریلیف لینے کا حق حاصل ہو گا لہٰذا یہ محض پروپیگنڈہ ہے کہ کوئی متوازی عدالتی نظام قائم کیا گیا ہے۔
تازہ ترین