• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملت اسلامیہ پاکستان نے حسب روایت اس بار اپنا69 واں یوم آزادی پر جوش انداز میں منا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ملک اللہ کا انعام ہےتاہم اب وقت ہے کہ تجدید عہد کیا جائےکہ پاکستان کو مشکلات سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے اسے قیام پاکستان کے مقاصد کے مطابق اسلامی ریاست کی صورت دینی ہے۔ اگرچہ بدقسمتی سے ہمیں مستقل سانحات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان ہویاسانحہ ماڈل ٹائون اورڈسکہ میںپولیس گردی ہو یا سانحہ پشاور،دہشت گردی اور لاقانونیت کے واقعات کا ایسا سلسلہ ہے کہ رکنے کانام ہی نہیں لے رہا۔ قصور کاواقعہ بھی ایک بڑے سانحے کی صورت میں آجکل ہمارے سامنے موجودہے۔سانحہ قصور میں بچوں پرجنسی تشدد اور ان کی ویڈیوز بنانے کے المناک واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ایسالگتا ہے کہ ملک میں جنگل کاقانون رائج ہے۔کہیں بھی عوام کی عزت وآبرو محفوظ نہیں ہے۔پنجاب میں تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی شے سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ حکومت پنجاب کازیادہ تروقت میٹروبس اور پل بنانے پر صرف ہورہاہے۔اسے عوام کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں اور تحفظ فراہم کرنے کی کوئی فکرلاحق نہیں ہے۔ یہی صورتحال سندھ اور دیگرصوبوں میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔کرپشن،مہنگائی،لوڈشیڈنگ اور عدم تحفظ سے عوام کا حکومت پر اعتماد دن بدن اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ پلڈاٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کی حکومت دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر طور پر کام کررہی ہے اور اس کے اثرات عوام تک منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔سندھ میں تھر میں ہونے والی مسلسل ہلاکتوں اور کراچی میں قیامت خیز گرمی سے ہزاروں افراد کی اموات کے حوالے سے ناقص حکمت عملی ،حکومتی نااہلی اور بدانتظامی دیکھنے کو ملی۔اس وقت وفاق،پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں موجود ہیں۔سندھ میں پیپلزپارٹی اقتدار میں ہے۔2013ء کے الیکشن کے بعد 2سال گزرچکے ہیں مگر عوام کے دکھ درد دور نہیں ہوئے بلکہ ان کی مشکلات میں کئی گنامزید اضافہ ہوگیا ہے۔پنجاب حکومت تو ابھی تک سانحہ ماڈل ٹائون اور ڈسکہ کے پولیس گردی کے واقعات کی بدنامی کے داغ کونہیں دھوسکی تھی کہ اسے قصور کے انسانیت سوزاور روح فرسا واقعہ پرشدید عوامی رد عمل کاسامناکرنا پڑرہا ہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ قصور میں بچوں پر جنسی تشدد کے گھنائونے اور قبیح واقعات کیوں رونما ہوئے اور پولیس نے مظلوم افراد کی دادرسی کے بجائے درندہ صفت ملزموں کوکیوں تحفظ فراہم کیا؟بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات قصور میں گزشتہ کئی سالوں سے ہورہے تھے آخر پنجاب پولیس نے اس پرمجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیوں کیا؟ان سوالات کاجواب دیئے بغیر حقائق تک پہنچنامشکل ہوگا۔یہ خوش آئندامر ہے کہ حکومت پنجاب نے قصور واقعہ میںملوث اصل ذمہ داران کوکیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم بنادی ہے اور ایڈیشنل آئی جی،ڈی پی او اور دو ڈی ایس پی تبدیل کردیئے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی اس واقعے کافوری نوٹس لیا ہے۔ان کاکہنا تھاکہ سانحہ قصور کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔وزیراعلیٰ پنجاب کی سانحہ قصورکے متاثرہ خاندانوں کوانصاف کی یقین دہانی یقیناً اچھی بات ہے مگراب عوام کا حکمرانوں پر یقین باقی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کی قصور میں پریس کانفرنس کے بعد مظاہرین نے پولیس پر جوتے برساکر اپنے شدید ردعمل کامظاہرہ کیا۔حکومت پنجاب کو اس عوامی ردعمل سے سبق سیکھنا چاہئے۔انہیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگاکہ آخر کیوں مسلم لیگ (ن) پنجاب میں غیر مقبول ہوتی جارہی ہے؟
سانحہ قصور پراگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے بھی پنجاب حکومت پر سخت برہمی اور غصے کا اظہارکرتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے اور مجرمان کونشان عبرت بنانے کی ہدایات کی ہیں۔لیکن دیکھنا ہوگا کہ حکومت پنجاب ان ہدایات پرعملی اقدامات کرتی ہے یاپھر ماضی کی طرح اہم معاملات کوسردخانے کی نذر کردیاجائے گا؟ میڈیامیں آنے والی رپورٹ کے مطابق اب تک 274بچوں کیساتھ جنسی تشدداور400 ویڈیوز سامنے آچکی ہیں ۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سترہ سال سے کم عمر کے بچے درندہ صفت مجرموں کانشانہ بنتے رہے ہیں۔یہ اپنی نوعیت کاگھنائونااور قبیح جرم ہے۔اس المناک واقعہ میں ملوث افراد کیخلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں اگرسانحہ ماڈل ٹائون اور ڈسکہ کے واقعہ کی طرح حکومت پنجاب نے اس معاملے کوبھی سیاسی طور پرنمٹانے کی کوشش کی تو اسے کڑے عوامی احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قصورکاواقعہ انتہائی سنگین اور شرمناک ہے اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی ہوئی۔اس واقعہ کا افسوسناک اور دلخراش پہلویہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوزنے اسے غلط انداز میں بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔اقوام متحدہ نے بھی پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کانوٹس لے لیا ہے۔ یونیسف نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ قصور واقعہ میں ملوث افرادکو کیفرکردار تک پہنچایاجائے۔سوال یہ اٹھتاہے کہ اقوام متحدہ اور غیر ملکی این جی اوز پاکستان میں مختاراں مائی ،ملالہ یوسفزئی ،سانحہ قصوراوراقلیتوں کو پیش آنے والے اکادکا واقعات پر ہی کیوںحرکت میں آتی ہیں۔ انہیں برما، کشمیر، فلسطین،مصر،افغانستان اور عراق میں مسلمان بچوں، خواتین اور نوجوانوں پرظلم وتشدد کیوںدکھائی نہیں دیتا؟ اگر امریکہ، بھارت اور اسرائیل مسلمانوں کاقتل عام کرتے ہیں تو یواین اواور غیر ملکی این جی اوزکوسانپ سونگھ جاتا ہے۔ قصور کے واقعہ میں بھی جہاں حکومتی بدانتظامی اور نااہلی سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہاں سول سوسائٹی اور این جی اوزکے منفی رویئے کے باعث پاکستان کا امیج عالمی سطح پر متاثر ہو رہا ہے۔ تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہئے بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے۔قصور کاواقعہ سیاسی نہیں بلکہ ایک انسانی معاملہ ہے ۔اصلاح احوال کے لئے سول سوسائٹی کابھی فرض ہے کہ وہ ہرمعاملے کو محض منفی رخ سے ہی نہ دیکھے کیونکہ ہمیشہ مثبت اندازفکرسے معاشرتی مسائل کا حل نکالاجاتا ہے۔پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے بھی این جی اوز کی رجسٹریشن،فنڈنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگربیرونی فنڈنگ روک دی جائے تودہشت گرد اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق مرزا نے اس موقع پر عدالت عظمیٰ کو بتایاکہ اس وقت پنجاب میں 47ہزار 403این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جنہیں2014 اور2015میں غیر ملکی فنڈنگ کی مد میں12ارب 77کروڑ روپے موصول ہوئے ہیں اور کے پی کے میں 10ہزار این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جنہیں بیرونی ممالک سے فنڈنگ ملتی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ غیر ملکی این جی اوز کے دائرہ کار کیلئے جلد نئی پالیسی نافذ کردی جائے گی۔نئی پالیسی کے نفاذ سے این جی اوز کی موثر نگرانی بھی ہوسکے گی اور ان کے کام میں بھی بہتری آئے گی۔پنجاب اور خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں اس وقت18سو این جی اوز رجسٹرڈ اور 25سو کے قریب غیر رجسٹرڈ این جی اوز ہیں۔سندھ میں بھی6150رجسٹرڈ این جی اوز کام کررہی ہیں۔قصور کے واقعہ کابھی اگر جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سول سوسائٹی اور این جی اوز کو جو کردار اداکرناچاہئے وہ انہوں نے نہیں کیا۔حیرت یہ ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی ان این جی اوز کوقصور میں2009سے ہونے والے یہ واقعات کیوں نظر نہیں آئے؟حالانکہ اگر وہ پاکستانی معاشرے کے ساتھ مخلص ہیں اور عوامی فلاح وبہبود ہی ان کامطمع نظر ہے تو پھر ان کو چاہئے تھا کہ وہ حکومت کے نوٹس میں یہ واقعات بہت پہلے لے کر آتیں ۔پاکستان میں بڑی تعداد میں ان این جی اوز کی رجسٹریشن کیلئے سمری وزیراعظم کو ارسال کردی گئی ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی باقاعدہ منظوری کے بعد این جی اوزکی رجسٹریشن کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔اس وقت پاکستانی حساس اداروں نے60غیرملکی این جی اوز کی سرگرمیاں مشکوک قراردی ہیں۔ان این جی اوزمیں امریکی این جی او’’سیو دی چلڈرن‘‘بھی شامل ہے جوپاکستان میں گزشتہ 20سال سے کام کررہی ہے۔یہ غیر ملکی این جی او وہ ہے جس نے اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ تک رسائی حاصل کرنے اور اس مقصد کیلئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو استعمال کیاتھا۔اُس وقت سے اس غیر ملکی این جی او پر ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گہری نظر ہے۔اسی طرح حساس اداروں کی جانب سے مشکوک قراردی جانے والی این جی اوز میں امریکہ کی 19،برطانیہ کی14،جرمنی کی5،اسپین کی 3اور فرانس کی 2تنظیمیں شامل ہیں۔یہ این جی اوز خیبرپختونخوا کے حساس علاقوں میں کام کررہی تھیں۔ بہر کیف وقت کاتقاضا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی غیرملکی این جی اوزکی رجسٹریشن جلد ازجلد کی جائے اور ایسی این جی اوز جو سانحہ قصوراور اس نوعیت کے دیگر واقعات کوبڑھاچڑھا کرپیش کرکے پاکستان کیخلاف کام کررہی ہیں ان پر فی الفور پابندی لگائی جائے تاکہ ایک محفوظ ،خوشحال اورمستحکم پاکستان کی منزل کی جانب بڑھا جاسکے۔
تازہ ترین