• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے محترم منصور آفاق کے مضمون ’’آدھا مجذوب‘‘ (5؍اگست) میں ایک مغالطے کی صحت۔ دہلی کی جامع مسجد کے صدر دروازے کی سیڑھیوں سے آگے دو پرانی قبریں ہیں۔ ایک کا سرخ رنگ ہے یہ سرمد شہید کی ہے اور دوسری ہرے رنگ کی سید ابوالقاسم سبزواری کی ہے، اس پر ان کے نا م کا کتبہ لگا ہوا ہے۔ کتبے کی عبارت یہ ہے۔ ’’سید ابوالقاسم سبزواری عرف ہرے بھرے صاحب از جہاں واصل ولی الاشُد،یک ہزار شعت و پنج ہجری شد(1065) اب یہاں ایک سنہری قبر بھی بن گئی ہے۔ یہ مولانا ابوالکلام آزاد کی ہے۔ کمال اور جمال کا یہاں کوئی ذکر نہیں، ملتان میں سید شمس سبزواری کا مزار ہے۔اس کے کتبے کے باوجود عوام اس کو شمس تبریزی کا مزار کہتے ہیں اور ان کی روایتیں ان سے منسوب کرتے ہیں۔ہائر ایجوکیشن کمیشن جو ملک میں اعلیٰ تعلیم کا ادارہ ہے وہ تعلیم کے فروغ اور2025ء کے وژن کی تکمیل میں ملک کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کا خواہش مند ہے۔
آئیے دیکھیں صورت حال کیا ہے۔ پاکستان کی تشکیل کے موقع پر پورے ملک کی آبادی 7؍کروڑ کے قریب تھی اور صرف دو یونیورسٹیاں تھیں۔ ایک لاہور میں پنجاب یونیورسٹی اور دوسری ڈھاکہ میں ڈھاکہ یونیورسٹی۔ 1951ء ملک میں خواندگی کااوسط 13فیصد تھا اور اس میں حافظ قرآن شامل تھے۔1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ اس وقت ملک کی تخمینی آبادی 19؍کروڑ ہے اور ملک میں 15؍وفاقی ،پنجاب کی صوبائی حکومت کی20، سندھ کی 14، خیبر پختون خوا کی 15، بلوچستان کی6، گلگت ایک، شمالی علاقے اور آزاد جموں و کشمیر میں 3یعنی کل 74یونیورسٹیاں علم و فضل کے دریا بہا رہی ہیں۔سندھ میں نوابشاہ، لاڑکانہ، جام شورو (2) خیرپور میں صوبائی یونیورسٹیاں ہیں، مگر سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں جس کی آبادی 15لاکھ کے قریب، وہاں کوئی صوبائی یونی ورسٹی نہیں۔ ملک میں نجی شعبے میں 60؍یونیورسٹیاں سرگرم عمل ہیں، اس گرما گرمی کے باوجود 1998ء کی مردم شماری میں ملک کا خواندگی کا اوسط 43.9فی صد، مردوں کا 54.8فی صد خواتین کا 32فیصد تھا، حال کے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ ملک میں آبادی کے اضافے اور ناخواندہ افراد کی کثرت کی وجہ سے خواندگی کا اوسط گھٹ رہا ہے۔ یہ کلیہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ سو فی صد تعلیم کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، اس لئے کمیشن نے اپنے اخراجات میں کمی کے باوجود ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کی تجویز پیش کی۔ کمیشن نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو اپنی تجویز بھیج کر رائے طلب کی ہے۔ آراء وصول ہونے کے بعد منصوبہ تیار کیا جائے گا۔ فی الحال تجویز یہ ہے کہ تمام سرکاری یونیورسٹیاں اپنے اردگرد کے اضلاع میں اپنے کیمپس کھولیں یا موجودہ کالجوں کو اَپ گریڈ کریں۔ تاہم یہ تجویز بڑی مہنگی ہے۔ ملک میں فاٹا کی ایجنسیوں کو چھوڑ کر ملک میں 105اضلاع ہیں۔ اینٹ یا گارے، سیمنٹ اور بلاکس سے تعمیر کردہ، شان دار سے شان دار عمارت کو یونیورسٹی نہیں کہا جا سکتا، یونیورسٹی کی شہرت، عظمت، شوکت، لیاقت کا انحصار اس کے لائق و فائق، عالم فاضل اساتذہ اس کی علمی تحقیق اور ہونہار طلبا پر ہوتا ہے، جامعۃ ازہر، کیمبرج، آکسفورڈ ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، پنجاب یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ (1945تک) وہاں کے اساتذہ اور ہونہار طلبا پر منحصر رہی ہے۔ اب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو پی ایچ ڈی ہونا چاہئے۔ ملک میں مختلف مضامین کے ڈاکٹر موجود نہیں۔ لیکن اس وقت ملک میں جو ڈاکٹر ہیں ان کی اکثریت اُردو کے موضوعات پر ڈاکٹری کی تعداد زیادہ، دوسرے بعض اضلاع میںتو یونیورسٹی کے لئے طلبا کی تعداد بھی حاصل نہیں ہو گی۔ پھر اس وقت یونیورسٹیوں سے جو طلبا، ایم اے، ایم ایس سی کر کے نکل رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے موضوع پر عبور نہیں۔ اب مجوزہ یونیورسٹیوں میں کیمیا، طبیعات، نباتات، حیوانیات، ریاضی ، شماریات، کمپیوٹر، جوہری توانائی جیسے مضامین پڑھائے جائیں گے۔ ان کے استاد کہاں سے لائیں گے؟ راقم خضدار، خیبر، مالاکنڈ جیسے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں یونیورسٹیاں بنانے کا قائل نہیں حالانکہ میں نے ایک سال امریکہ میں مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں گزارا، یہ لانسنگ کے دارالحکومت سے تقریباً5؍ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایسٹ لرننگ اس کی بدولت چھوٹا سا قصبہ بن گیا، یہاں ہر مضمون کے کلاس روم، طلبا اور طالبات کے میونسپل، اساتذہ کی رہائش کیلئے مکانات، مقرر مہمانوں کے لئے مہمان خانے، یونیورسٹی میں اپنا اسپتال، اپنے کیفےٹیریا، کلب، لائبریری، چھوٹا سا بازار،بینک، پولیس اور ریلوے اسٹیشن، قریبی ہوائی اڈہ سب کچھ موجود ہے۔ ملک کے پروفیسر توسیعی لیکچروں کے لئے خوشی سے آتے تھے۔ پروفیسروں اور لیکچراروں کو اپنی سطح کے افراد بھی چاہئیں تاکہ وہ ان کی صحبت میں فرصت کا وقت گزار سکیں۔
میرے خیال میں کمیشن کو دو باتوں پر توجہ دینی چاہئے اوّل معیار کی بلندی، اس وقت دنیا کی سو یونیورسٹیوں میں ہماری کوئی یونیورسٹی نہیں، لائق اساتذہ کا بھی کال ہے، بیرونی ڈگری یافتہ پاکستان آتے ہی نہیں، دوسرے انٹر اور گریجویٹ کی سطح کے امتحانوں پر نظر رکھنا چاہئے۔ کراچی انٹر بورڈ سائنس پری میڈیکل سال دوم کے نتائج پرسوں شائع ہوئے 855،20طلباء نے شرکت کی 423، 10کامیاب ہوئے نتیجہ49.9رہا۔ اب اتنے کثیر ہیومن ریسورسز، وقت اور مالی وسائل کی تضیع برداشت نہیں کر سکتے۔ اس پہلو پر غور ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی صاحب نے اپنے حالیہ کالم میں نئے ودہولڈنگ ٹیکس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حکومت کے لئے بھی خسارے کا سودا ہے اور ان لاکھوں کم مایہ افراد کو اپنی جمع کردہ پونجی سے، جس کے کچھ حصے پر انکم ٹیکس بھی ادا کیا جا چکا ہو، بطور جرمانہ یہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ ایک پنشن خوار عمر بھر پائی پائی جوڑ کر اپنا پراویڈنٹ وغیرہ ملا کر قومی بچت کی اسکیم میں جمع کرتا ہے۔ جب بچی کی شادی یا بیٹے کو تعلیم کے لئے باہر بھیجنے پر 5لاکھ روپے نکالتا ہے۔ تو اسے 6ہزار کی چپت پڑ جاتی ہے۔ اس کو اندھیر کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی فیسوں کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔
تازہ ترین