انیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں روشنی ہار گئی تھی۔ ظلمت شب کو فتح نصیب ہوئی تھی۔بین الاقوامی تاریکیوں نے مملکتِ خداداد کے سیاہ دھبوں سے مل کرایسی خوفناک سازش کی تھی جس کا تدارک روشنیوں کے رکھوالے نہیں کر سکے تھے ۔انہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں ۔جرات و شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کیں مگرسفاک نتائج سے اپنی دھرتی کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ درد کے موسموں میںبہادری کے ماتھوں پرسجے ہوئے نشان حیدرآج بھی عظیم قربانیوںکے تابناک گواہ ہیں ۔میجر شبیر شریف جیسے شہیدوں کو قوم کیسے بھلا سکتی ہے۔ راشد منہاس کا نام کون بھول سکتا ہے ۔میجر محمد اکرم کی شہادت آسمان کیچھاتی پر سورج کی سنہری کرنوں سے ہمیشہ کیلئے ثبت ہوچکی ہے۔ اکہتر کی جنگ میںمجموعی طور پر ہمیں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے زیادہ تر محاذوں پر شکست سے دوچار ہونا پڑاتھامگر ایک محاذ چھمب چوڑیاں کا ایسا تھا کہ جہاں پاکستان فتح مند رہا۔اس محاذ کی کمان جنرل محمد عمر کے پاس تھی ۔وہی جنرل محمد عمر جواسد عمر کے والد گرامی تھے۔
کوئی دو تین ماہ پہلے میںنے زبیر عمراور اسد عمر کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھاجس میں ان کے والد گرامی جنرل محمد عمرکاذکر بھی کیا تھاکہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں ان کا اسم ِ گرامی بھی شامل ہے۔ابھی دوچار دن پہلے ایک دوست نے اسی با ت کو ذراوضاحت سے اپنے مخصوص انداز میںتحریر کر دیاجس پر تحریک انصاف کے لوگ خاصے برہم ہیں ۔یقینا دوڑ جیتنے والے گھوڑے پر کوئی انگلی اٹھائے توتکلیف ہوتی ہے ۔اس تکلیف کی شدت کا احساس سونیا عرفان سے مل کر ہوا۔سونیا عرفان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی معتبر خاتون ہیں جن کا جنابِ عطاالحق قاسمی بھی احترام کرتے ہیں۔ گزشتہ روزمیری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ملتے ہی یہی قصہ چھیڑ دیا ۔ کہنے لگیں ’’تم کالم نگار بس سنی سنائی باتوں کو روایت ہو ۔بے شک حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں جنرل عمر کا ذکر ہے مگراُس رپورٹ میں وہ واحد ایسے جنرل ہیں جس پر کمیشن نے کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اکہتر جنگ کے وہ واحد ایسے جنرل تھے جو آج بھی ہمارے ہیروز میں شمار ہوتے ہیں۔ اکہتر کے وہی ایک ہیرو تھے۔ تم اسے بھی زیرو کرنے پر تلے ہو۔تم عجیب لوگ ہو۔پوری زندگی میں جس شخص کی پرویز مشرف سے صرف ایک ملاقات ہوئی اوروہ بھی کسی تقریب میں۔توتم لوگوں نے انہیں صدر پرویز مشرف کا مشیر قرار دے دیا ۔یہ بھی نہیں سوچا کہ پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ تقریباً اسی سال کے بوڑھے آدمی تھے ۔ کتنی بری بات ہے ۔تم لوگوں کی دشمنی بیٹوں سے ہے اور برا بھلا باپ کو کہتے ہو ‘‘
میں نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’محترمہ آپ کا غصہ بجا مگرہماری ان کے بیٹوں سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے۔ وہ کچھ ہمارا چرا کر تو نہیں لے گئے ۔ہم لکھنے والے لوگ دشمن دار لوگ نہیں ہوتے۔بس جس بات کو سچ سمجھتے ہیں وہی لکھتے ہیں ہم سادہ لوح لوگ ہیں ۔پتھروں اس امید پر نچوڑتے ہیں کہ ان سے ابھی آبِ زمزم بہہ نکلے گا۔پلیز ہمارے بارے میں ایسا مت سوچئے‘‘۔
سونیا صاحبہ کا لہجہ تھوڑا سا نرم ہوا اور کہنے لگیں ’’میرے کہنا کا مقصد یہ ہے کہ جو کالم نگار تحریک انصاف کے خلاف ہیں وہ اسد عمر کے خلاف لکھتے ہوئے ان کے والدجنرل عمر تک چلے جاتے ہیں اور جو کالم نگار نون لیگ کے خلاف ہیں وہ زبیر عمر کے خلاف لکھتے ہوئے جنرل محمد عمر کو نشانہ بنانے لگتے ہیں ‘‘ ۔ میں نے پھر بڑے تحمل سے کہا ’’آپ نے پھر غلط کہا ہے ۔نہ کوئی کالم نگار تحریک انصاف کے خلاف ہے اور نہ نون لیگ کے خلاف۔ہاں یہ ممکن ہے کہ کوئی لکھنے والا نون لیگ کی لیڈر شپ کو بہتر سمجھتاہو اورکوئی تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو۔مگروہ لکھتا وہی ہے جسے اپنے طور سچ سمجھتاہے ۔بس اتنی سی بات ہے کہ تصویر کا جو رخ اس کے سامنے ہوتا ہے وہ اسی کی عکاسی کرتاہے۔وہ جن ستاروں کو دیکھتا ہے انہی کا ذکر کرتا ہے چاہے وہ کسی کی مانگ میں ہوں یا آسمان پر ۔‘‘سونیا کہنے لگیں ۔’’ایسا ہی ہونا چاہئے مگر ایسا ہے نہیں۔آپ لوگوںکے تجزیے ، اخباروں کی پالیسی ، ذاتی پسند و ناپسند اور ذاتی مفادات سے بالاتر نہیں ہوتے۔‘‘
میں نے کہا’’ممکن ہے آپ کی بات کسی حد تک درست ہو مگر لفظ ’’مفادات ‘‘ پرمجھے سخت اعتراض ہے ۔اندازوں پر کسی کو مجرم نہیں قراردیا جاسکتا۔اکثر لوگوں نے اپنے اپنے واہموں کی عینک لگائی ہوتی ہے۔انہیں صرف وہی نظر آتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘۔ وہ ہنس کر کہنے لگیں ’’ چلو میں اِ س لفظ کو واپس لے لیتی ہوں ۔لیکن جب کوئی اُس اسد عمر کے بارے میں (جو پختون خوا میں بجلی کی پیداکرنے والے اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے سخت مخالف ہیں) یہ لکھے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو پرائیویٹائزیشن کی طرف دھکیل رہے ہیں توپھر آدمی سوچ سکتا ہے کہ سورج کو سیاہ گولا کہنے والے کے پس منظر میں ضرور کچھ موجود ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’سونیا صاحبہ ! اخباروں میں لکھنے والے جنات نہیں ہوتے کہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہوں اوروہی کچھ لکھیں جوانہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو جو اپنے کانوں سے سنا ہو ۔ ایسا ممکن نہیں ۔لکھنے والوں کے موکلات ہوتے ہیں جو انہیں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ممکن ہے کسی وقت کسی موکل کی غلطی سے کوئی غلط بات درج ہو جائے مگریہ معمول نہیں ۔یہ ایک اتفاق ہے جو کبھی ہوگیا۔پھر کالم نگار جو کچھ لکھتے ہیں نہ وہ کسی عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے نہ وہ کوئی الہامی تحریر ہوتی ہے ۔وہ ایک تجزیہ ہوتا ہے جس میں غلطی کالم نگار کے اپنے اعتبار کو کم کرتی ہے ۔بہر حال سچ یہی ہے کہ چاہے اسد عمر ہوں یا سلیم صافی ہم سب اپنی اپنی بساط کے مطابق تاریکیوں سے لڑ رہے ہیں ۔ایک روشن پاکستان کیلئے۔