قومی اسمبلی کے حلقہ 122 کے متعلق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ تحریکِ انصاف کے لئے نفسیاتی ’’بوسٹ اپ‘‘ کا باعث بنا ہے جو ایک عرصے سے پے درپے صدمات سے دوچار تھی۔11مئی 2013ءکے ملک گیر انتخابات کے متعلق جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ جس میں چیف جسٹس جناب ناصرالملک کی زیرقیادت سہ رُکنی بنچ نے تحریکِ انصاف کے الزامات،تحفظات اور اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ان انتخابات کو کسی منظم دھاندلی سے پاک اور صاف شفاف ٹھہرایا اورانتخابی نتائج کو بحیثیت مجموعی عوامی مینڈیٹ کے مطابق قرار دیا تھا جس میں حیرت کی کوئی بات اس لئے نہیں تھی کہ سیٹھی صاحب کے 35پنکچرز سے لے کر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی مداخلت، اردوبازار سے اضافی بیلٹ پیپرز کی اِشاعت اور مسلم لیگ(ن) کی حمایت میں انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کی ’’جنگ/جیو‘‘ کی کاوش سمیت، بیشتر الزامات جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہی نہ کئے گئے حالانکہ کمیشن کے روبرو اپنے کیس کی وکالت کے لئے تحریکِ انصاف نے اپنی لیگل ٹیم کی قیادت کے لئے جناب حفیظ پیر زادہ جیسے ممتازاور مہنگے وکیل کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن اپنی پیشہ ورانہ ساکھ کے لئے حساس اور محتاط وکیل نے(جو بھٹو صاحب کا وزیرِ قانون بھی رہااور اس حیثیت میں اسے آئین 1973 ءکے مصنف ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے)صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ کمیشن کے روبرو کوئی ایسا دعویٰ ، کوئی ایسا الزام عائد نہیں کریں گے جس کا ثبوت موجود نہ ہو۔ وہ جو انگریزی کا محاورہ ہے، Misfortunes never come singly۔جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ کئی اور صدمات بھی تھے، جنہوں نے تحریکِ انصاف کا رُخ کر لیا تھا۔ یہ رپورٹ 30جولائی کو آئی، اس سے قبل 25اپریل کو کینٹ بورڈز کے انتخابات میں (جو جماعتی بنیادوں پر ہوئے) پنجاب بھر میں تحریک کو عبرتناک شکست کا سامنا تھا حالانکہ مئی 2013ءکے عام انتخابات میں کینٹ بورڈز کے علاقے اس کے مضبوط ترین گڑھ تصور کئے جاتے تھے۔ لاہور کے دو کینٹ بورڈز کی 20نشستوںمیں سے 15نشستیں مسلم لیگ(ن) نے جیت لی تھیں۔
خواجہ سعد رفیق کا حلقہ 125 انہی علاقوں پر مشتمل تھا اور مئی 2013 کے الیکشن میں خواجہ نے اپنے مدمقابل حامد خاں کو تقریباً39ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔ الیکشن کمیشن نے تکنیکی بنیادوں پر (جس میںدھاندلی یا الیکشن عملے کی بدنیتی اوربددیانتی کے حوالے سے ایک لفظ تک نہ تھا) گزشتہ انتخاب کو کالعدم قرار دے کر یہاں ازسرِ نو انتخاب کا حکم جاری کردیا۔ (حکمِ امتناعی کے ساتھ، اب یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے)۔ کینٹ بورڈز کے انتخابات نے اس حلقے کے11مئی کے انتخابی نتائج کی توثیق کر دی تھی۔راولپنڈی کینٹ بورڈ فرزندِ راولپنڈی اور کپتان کے (قومی اسمبلی کے) حلقوں میں آتا ہے۔ یہاں تحریکِ انصاف اور شیخ صاحب کے سبھی اُمیدوار ہار گئے اور جماعتِ اسلامی کی ایک نشست کے سوا، تمام نشستیں مسلم لیگ(ن) نے جیت لی تھیں۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ سمیت باقی جگہوں کے انتخابی نتائج بھی تحریکِ انصاف کے لئے صدمے کا باعث تھے۔
دھرنے کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں کوئی ایک انتخاب بھی تحریکِ انصاف کے لئے اچھی خبر نہیں لایا تھا۔ بلکہ اب مسلم لیگ(ن) کی جیت کا مارجن، 11مئی کے عام انتخابات کی نسبت کئی گنا تھا۔ تازہ ترین مثال حلقہ 19ہری پور، جہاں گزشتہ انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کے عمر ایوب تقریباً 600ووٹوں سے جیتے تھے، اور اب ضمنی انتخاب میں یہاں مسلم لیگی اُمیدوار کی جیت کا مارجن 47ہزار تھا۔(کپتان کے اپنے صوبے میں ہونے والے اس انتخاب کو اعظم سواتی بھی نہایت صاف شفاف اور آزادانہ و منصفانہ قرار دے رہے تھے)۔ ایک اور مثال ننکانہ صاحب کی ، جہاں 11مئی 2013ءکو مسلم لیگ کے رائے منصب کی سبقت پانچ ہزار کی تھی اور ضمنی انتخاب میں ان کی صاحبزادی شذرہ منصب نے ، گزشتہ انتخاب کے رنر اپ، بریگیڈیئر اعجاز کو 40ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ (حالانکہ 2013ءمیں بریگیڈیئر صاحب آزاد اُمیدوار تھے اور اب ضمنی انتخاب میں انہیں تحریکِ انصاف اور ’’شیخ الاسلام‘‘ کی عوامی تحریک کی بھرپور تائید و حمایت حاصل تھی)۔
ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں کے بعد، ایک تازہ صدمہ پی ٹی آئی کے لئے جسٹس وجیہہ الدین کی ’’مہم‘‘ تھی۔ وہ تحریک کے انٹرا پارٹی الیکشن کی تحقیقات کے لئے قائم کئے گئے کمیشن کے سربراہ تھے۔ کمیشن نے انٹراپارٹی الیکشن کو بدترین دھاندلیوں سے آلودہ قرار دیتے ہوئے جعلی ووٹرز لسٹوں اور ووٹوں کی خریدوفروخت کی ذمہ داری جناب جہانگیر ترین، علیم خاں، پرویز خٹک اور نادر لغاری پر عائد کی تھی۔ کمیشن کی رپورٹ میں ان کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کپتان کی طرف سے گریز پر، قاعدے قانون کی پابندی کے حوالے سے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے والا سابق جسٹس اب اپنے مطالبے پر ڈٹ گیا ہے۔ جناب وجیہہ الدین سپریم کورٹ کے ان 6 ججوں میں سے تھا ، جنہوں نے پرویز مشرف کے پہلے پی سی او (2000) کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کردیا تھا۔
سیاسی معاملات میں ریحام خاں کی زباں بندی بھی تحریکِ انصاف کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنی ۔ صدمات کی اس یلغار میں حلقہ 122کے متعلق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ، تحریک انصاف کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کا یہ حلقہ قد آور اُمیدواروں کے باعث خصوصی دلچسپی کا باعث تھا۔ اکتوبر 2002ءکے عام انتخابات میں بھی، جب ڈکٹیٹر مسلم لیگ(ن) کا نام و نشان مٹانے پر تلا ہوا تھا، ایازصادق نے اسی حلقے سے عمران خاںسے دوگنا ووٹ حاصل کئے تھے، ایازصادق (37531)عمران خاں(18638) تب ملک بھر میں تحریکِ انصاف صرف اپنے چیئرمین کی ایک سیٹ (آبائی حلقے میانوالی سے )نکال پائی تھی۔
2008 کے انتخابات کا تحریک نے بائیکاٹ کیا، مئی 2013 میں عمران خاں پھر لاہور کے اسی حلقے سے سردار ایاز صادق کے مقابل تھے جن کے ساتھ ان کی دوستی ایچی سن کالج کے دِنوں سے چلی آرہی تھی اور جو تحریکِ انصاف کے بانی ارکان میں بھی شمارہوتے تھے۔ اس بار مقابلہ قدرے سخت تھا،(ایازصادق کے 93389اور عمران کے 84517ووٹ)۔ اب فاضل ٹریبونل نے اس بنا پر گزشتہ الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے کہ 183500ووٹوں میں سے 93582 ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ ٹربیونل نے اِسے دھاندلی کا شاخسانہ قرار نہیں دیا، فیصلے کے مطابق تصدیق اس لئے نہ ہوسکی کہ انگوٹھے کے لئے استعمال ہونے والی سیاہی ناقص تھی اور انگوٹھوں کو لگے کافی دیر بھی ہوچکی تھی۔6862کاؤنٹر فائلوں پر درج شناختی کارڈ نمبروں کے ہندسوں کی تعداد نادرا کے معیار سے کم تھی۔ 23525 ووٹوں کی کاؤنٹر فائلوں پر متعلقہ پریذائیڈنگ افسر کے دستخط اور مہرموجود نہ تھی۔ 750ووٹ ایسے نکلے جن پر پریذائیڈنگ افسر کی مہر نہیں تھی۔
سوال یہ ہے کہ کاؤنٹر فائلوں پر شناختی کارڈوں کے نمبروں کی کمی بیشی ، یا ان پر پریزائیڈنگ کے دستخط اور مہر کی عدم موجودگی کے ذمہ دار ووٹر یا اِن کا پسندیدہ اُمیدوار کیسے ہوگیا؟ اور یہ بھی کہ غیر شناخت شدہ یا مہر اور دستخطوں کے بغیر کاؤنٹر فائلوں والے بیلٹ پیپر کیا سارے کے سارے ایازصادق کے تھے۔ ظاہر ہے، ان میں بڑی تعداد عمران خاں کے ووٹوں کی بھی ہوگی۔
ایک بات، جو اپنی سمجھ میں آج تک نہیں آسکی، اس بار ووٹرز لسٹیں باتصویر اور کمپیوٹرائزڈ تھیں۔ ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے پولنگ بوتھ میں داخل ہوا تو اُمیدوار وں کے پولنگ ایجنٹس نے اس کی شناخت کی، بیلٹ پیپر وصول کرنے سے قبل، اِسے پولنگ اسٹاف سے بھی اپنی شناخت کرانی پڑی۔ پھر اس نے پردے کے پیچھے جا کر بیلٹ پر مہر لگائی اور اِسے بیلٹ بکس میں ڈال دیا۔ صبح پولنگ شروع ہونے سے قبل بیلٹ بکس پولنگ ایجنٹس کو دکھا کر سیل کئے گئے تھے۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ان کی موجودگی میں انہیں کھولا گیا۔ (تمام پولنگ ایجنٹس کے پاس ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد موجود تھی)۔ اِن سب کے سامنے ایک ایک بیلٹ پیپر کی پوری طرح جانچ پرکھ کے ساتھ گنتی ہوئی۔ پھر ان سب نے نتیجے کے فارم پر دستخط کئے، جس کی ایک ایک کاپی لے کر اُنہوں نے اپنے اپنے اُمیدواروں کے ڈیروں کا رُخ کیا۔ یہی نتیجہ ، پولنگ اسٹیشنوں کے باہر بھی چسپاں کردیا گیا۔ ادھر ٹی وی چینلز بھی ’’بال ٹو بال‘‘ کمنٹری کر رہے تھے۔ پریذائیڈنگ افسروں نے یہی نتائج ، ریٹرننگ افسروں کو فراہم کردیئے اور تمام پولنگ اسٹیشنوں سے آمدہ نتائج کی بنیاد پر اس حلقے کے نتیجے کا اعلان کردیا گیا۔ اگر یہ نتیجہ ، پولنگ ایجنٹوں کے پاس موجود نتائج سے مختلف تھا، تو اسی وقت میڈیا کے ذریعے اس دھاندلی کو بے نقاب کیا جاسکتا تھا۔ اگر نتیجہ اس کے مطابق تھا جو پولنگ ایجنٹس اپنے اپنے بوتھوں سے لائے تھے تو پھر دھاندلی کہاں ہوئی؟ کاؤنٹر فائلوں پر دستخط یا مہر کا نہ ہونا، یاانگوٹھوں کے نشانا ت کے لئے ناقص سیاہی کا استعمال، ’’بے ضابطگی‘‘ ، ’’بے قاعدگی‘‘ یا الیکشن کمیشن اور پولنگ سٹاف کی نااہلی اور کوتاہی تو ہے، دھاندلی کیسے ہوگئی؟ اور اس کی سزا ، ووٹر اور اس کے اُمیدوار کو کیوں ملے؟