• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرنگ کراس (فیصل چوک) لاہور، پنجاب اسمبلی کے سامنے سینکڑوں کسانوں نے کئی روز تک دھرنا دیئے رکھا۔ جماعت اسلامی کے لیڈروں اور پاکستان عوامی تحریک نے دھرنے کے شرکاء کو حمایت کا یقین دلایا، ان کی حوصلہ افزائی کی، ان کا ساتھ دیا۔ بالآخر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب سے ملاقات ہوئی، وزیر اعلیٰ نے انہیں ’’کسان دوست‘‘ہونے کا یقین دلایا، انہوں نے ملاقاتی وفد سے کہا ’’وہ کسی کو ان کا استحصال نہیں کرنے دیں گے، کاشتکاروں کے جائز مسائل حل کئے جائیں گے، آپ سے مل کر وفاقی حکومت سے متعلقہ امور بھی طے ہوں گے، پنجاب حکومت 2014ء میں پہلے ہی زرعی ٹیوب ویلوں پر 8ارب روپے کی سبسڈی دے چکی ہے، چھوٹے کاشتکاروں میں چند برسوں کے دوران میں 30ہزار ٹریکٹر تقسیم کئے گئے جس پر فی ٹریکٹر دو لاکھ روپے سبسڈی دی گئی، اب بھی پنجاب حکومت ساڑھے 12ایکڑ کے چھوٹے کاشتکار کو کھاد پر سبسڈی دے گی۔ چاول اور کپاس کی متوقع فصلوں میں کسان کا نقصان نہیں ہونے دیں گے، اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے اشتراک سے لائحہ عمل کا فیصلہ ہو گا۔‘‘
کسانوں نے وزیر اعلیٰ کی یقین دہانیوں یا متذکرہ مہربانی پالیسیوں کی منظر کشی کے بعد دھرنا ختم کر دیا، دونوں صورتیں نہ بھی ہوتیں تب بھی احتجاجی مزید قیام کی پوزیشن میں نہیں تھے، حکومت کے پاس بیسیوں دیکھے اور ان دیکھے حربے ہوتے ہیں، انہیں استعمال میں نہ بھی لایا جائے پھر بھی کسی محنت کش طبقے کے حالات زندگی اسے اپنی دو چار دیہاڑیوں سے زیادہ چیخ و پکار کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اسے اپنی دال روٹی کے معمول پر جانا پڑتا ہے، ضروریات اور عزت دونوں بری طرح جکڑے ہوتی ہیں۔
پاکستان کے جاگیردار، صنعتکار اور ریاستی اداروں کی مثلث کے قیدی ’’کسان‘‘ اور ’’کاشتکاروں‘‘ کے مصائب اور مشکلات کی نوعیت بے پناہ اذیت ناک حد تک جا پہنچی ہے، یہ اس گہری کھائی کے ہشت پہلو احوال کا موقع محل نہیں، بات مال روڈ تک محدود رکھتے ہیں جس کی بنیادی تفصیلات سے آپ کو کسانوں اور کاشتکاروں کے موجود آتش زدہ شب و روز کا قریب قریب مکمل ادراک ہو سکتا ہے، دماغ کے سفر اور عقل کی موجودگی، یہ دو شرطیں البتہ ناگزیر ہیں! تو مال روڈ پر آئے ان لوگوں کا یہ احتجاج طویل عرصے سے، مختلف شکلوں میں جاری تھا۔ ملکی معیشت میں شاید سب سے موثر اور نتیجہ خیز ریڑھ کی ہڈی کے یہ کردار صاحب نظر حضرات کے نزدیک حقیقی انصاف اور ہمدردی کے مستحق ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنا دکھ صاف لفظوں میں بیان کرتے ہیں، اس میں دوغلا پن اور چتر چالاکی کے عناصر موجود نہیں ہوتے، یعنی زرعی فصلوں کی پیداوار پر اٹھنے والے اخراجات اور لاگت اس رقم سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے جو حکومت کی مقرر کردہ قیمت خرید یا درمیانی منڈی کے آڑھتیوں سے انہیں وصول ہوتی یا وصول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مصیبت اس صورت میں چار گنا بڑھ جاتی ہے جب لاگت اور قیمت فروخت میں یہ فرق دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہو، ان کیلئے زمین کا سینہ چیر کر اپنی روزی برقرار رکھنا ناممکن بنایا جا رہا ہے، کہا جا سکتا ہے، سنایا جا چکا ہے۔ جب تک آلوئوں، کپاس اور چاولوں جیسی فصلوں کے لئے سبسڈی کی رقوم میں موثر اضافہ نہیں کیا جاتا، جب تک ان اجناس کی قیمت فروخت زمینی حقائق کے مطابق مقرر نہیں کی جاتی اس وقت تک ان کے سانس اکھڑتے اکھڑے بالآخر بند ہو سکتے ہیں! پاکستان کی دھرتی تلے بہت سے حساس انقلاب پرورش پا رہے ہیں، ان کی تندی اور تلخی کا اندازہ آپ پر کپکپی طاری کر دیتا ہے، ایسے واقعات جن کے ہاتھوں اس دھرتی کی تہہ میں آگ کے طوفان پل رہے ہیں ہزاروں ہیں۔ اصولی اسباب کی رو سے اس ملک کے جاگیرداروں، ریاستی اداروں ، سرمایہ داروں، تاجروں اور عوام کے مابین ہر نوعیت کا فرق آپے سے باہر ہو چکا ہے، بسا اوقات ایسا وقوعہ بھی سامنے آتا ہے جس کے سبب اس ممکنہ انقلاب کی رفتار کو ضربیں لگ جاتی ہیں۔
فروری 2015ہی کی بات ہے، قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ایک اجلاس کی روداد معاصر نامہ نگار کی زبانی سامنے آئی جس کے مطابق ’’او جی ڈی سی ایل میں 500سے زائد گاڑیاں اعلیٰ افسروں کو اونے پونے داموں میں فروخت کر دی گئیں‘‘ ۔ملک اور عوام کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں اس وقوعہ کو آپ ایک ’’مزاحیہ ایکٹ‘‘ کہہ سکتے ہیں، جس ملک میں گزشتہ 18برسوں سے مردم شماری نہ ہو سکی ہو وہاں زوال کی پیداوار اور تباہی کی آمد میں رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں، اس رمز و کنایئے کو سمجھنے کے لئے ایک بار پھر یہی کہنا پڑے گا ’’بشرطیکہ دماغ کے سفر اور عقل کی موجودگی‘‘ سے بندہ محروم نہ ہو۔ ظلم و استحصال اور لوٹ مار کا یہ نظام معمول کے جمہوری تسلسل سے ختم ہونا تو درکنار کم ہوتا بھی نظر نہیں آتا، اب تو گزشتہ قریب قریب تین دہائیوں سے ایک جانب دولت کے اندھے کنوئوں کی تعداد شمار قطار میں نہیں آ رہی، دوسری جانب ہر شعبے کا عام پاکستانی فی الواقعی اپنے رشتہ حیات کا روز مرہ برقرار رکھنےمیں جاں بلب ہو چکا ہے، بلاشبہ اسحاق ڈار صاحب کی محنت اور نقطہ نظر کے مطابق ملک کی معیشت زقندیں بھر رہی ہے، ایسا ہی ہو گا مگر زمینی حقیقتوں کے مطابق زندگی کی ہر بنیادی ضرورت، زندگی کا ہر راستہ، بوری بھرے کیش کے مطالبے سے اَٹ چکا ہے! یہ دھرتی اپنا یہ تمام انسان کش ملبہ بار پھینکنے کو بے تاب ہے، کس کی ضرب عزم سے پہلی کھدائی کا آغاز ہوتا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کسانوں اور کاشتکاروں سے جو کہا وہ سوفیصد برحق ہے، انہوں نے مال روڈ پر ان سینکڑوں مصیبت زدوں کے ساتھ دھیما لہجہ اپنایا، حوصلہ افزا وعدے کئے، انتظامیہ کی لاٹھی کو حرکت دینے سے گریز کیا، یہ سب ان حکمرانوں کے لئے آخری راستہ ہے، بہتر ہے وہ اسے زیادہ سے زیادہ بار آور بنائیں، انقلابات کی تاریخ میں مزدور سے بھی زیادہ کہیں زیادہ کسان، کا ردعمل ہے جس کے اظہار کی تاریخ بڑی ہی خون آلود ہے۔ غالباً یہی وہ حساس وجدانی کیفیات ہیں جس پر خود جناب شہباز شریف کے یہ الفاظ، پاکستان کی تہہ میں پوشیدہ ان انقلابی لہروں کا بیانیہ بن کر ریکارڈ پر آ چکے ہیں ’’پاکستان میں عوام کے حقوق نہ ملے تو یہاں خونی انقلاب آئے گا‘‘ کم از کم شہباز شریف کی حد تک، کسانوں اور کاشتکاروں کے یہ موت آساں راستے حیات آور بننے کی امید کی جا سکتی ہے!
تازہ ترین