کسی بھی فر دکا نام لیا جائے اور آپ کے ذہن میں جو پہلا لفظ آئے وہی اس فرد کا اصل تعارف اور اس کی شخصیت کا اصل خاکہ ہوتا ہے۔جنرل حمید گل کا نام آتے ہی ۔اسلام۔پاکستان۔نظریہ پاکستان ۔امت مسلمہ۔اتحاد امت۔عروج امت۔نشاۃ ثانیہ۔جذبہ جہاد۔شوق شہادت اور جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا جیسے عنوانات اور اصلاحات آتی ہیںاور یہی ان کی پہچان ہے وہ اسلام و پاکستان کی علامت اور اتحاد امت کے نقیب تھے اورعلامہ اقبال ؒکی طرح وہ بھی عروج امت کا خواب دیکھتے تھے یعنی
آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب
جنرل صاحب سے تعلق اور عقیدت مندی نصف صدی کی نہ سہی چوتھائی صدی کی بات ضرور ہے۔کتنی ہی کانفرنسوں میں وہ مہمان تھے اور بحیثیت کارکن جماعت اسلامی ہم میزبان وہ مقرر تھے ۔اور ہم سامع وہ تجزیہ کار تھے اور ہم خوشہ چین کتنے ہی اسٹیج تھے،جس پر ہم ساتھی مقرر تھے۔کتنی ہی کانفرنسوں میں وہ ایک نقطہ نظر اور دوسرے نقطہ نظر کے حامی تھے۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس دلائل بھی موجود ہوتے تھے اورزورخطابت بھی۔وہ اختلاف بھی کرتے تھے تو استدلال کی بنیاد پر اور سلیقے قرینے سے گزشتہ ایک عرصے سے وہ موجودہ پارلیمانی جمہوریت سے مایوس ہو چکے تھے اور اس کا وہ اپنی تقاریر میں اظہار بھی کرتے تھے۔اسلامی جمعیت طلبہ سرگودھا کے زیر اہتمام استحکام پاکستان کا نفرنس تھی ان کے جانشین اوران کے ہونہار فرزند عبداللہ گل نے مجھ سے پہلے خطاب کیا،اور جنرل صاحب کی فلاسفی کو بیا ن کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے بھی کہا کہ انتخابی سیاست سے باہر آجائے اور جمہوریت سے کوئی توقع اور امید نہ رکھے،یہ دراصل جنرل صاحب کا پیغام تھا اور وہ اکثرہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے تھے جنرل صاحب سے پہلے میر ی باری آئی۔تو میں نے کہا کہ جنرل صاحب آپ کا بہت احترام،لیکن جاگیرداروں،سرمایہ داروں،وڈیروں ،قبضہ گروپوں،ٹارگٹ کلرز کے مقابلے میں اگر مڈل کلاس سے تعلق اسلام و پاکستان سے محبت اور جرات و ہمت سے بات اور امانت۔دیانت سے مثالی سیاست کرنیوالے جماعت اسلامی کے کچھ افراد کامیاب ہو جاتے ہیںاور آئین پاکستان کو اسلامی بنانے۔غیر اسلامی اقدامات کا راستہ روکنے اور کرپشن کے خلاف عوام کو متحد و متحرک کرنے کے لیے اپنا مثالی کردار ادا کرتے ہیںاور کشمیر سمیت امت مسلمہ کے ہر مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھاتے ہیں۔تو آپ ان کو بھی پارلیمنٹ سے باہر رہنے کا مشورہ دیتے ہیں،اسی طرح جیسی تیسی بھی ہے یہ جمہوریت اگر ختم ہوگئی توپھر آمریت ہی آئے گی۔جنرل صاحب نے میرے بعد خطاب کیا اور یہ ان کی عظمت ہے کہ انہوں نے میری تنقید کا خیر مقدم کیا ہے اور پھر اپنے روایتی جوش و خروش سے انہوں نے انتخابات کے مقابلے میں عوامی اجتماعات اور عوام کے اٹھ کھڑنے ہونے کوامید کی کرن قرار دیا۔جنرل صاحب وسیع المطالعہ تھے،انہوں نے قرآن پاک۔ احادیث مبارکہ سیر ت النبیﷺ اور اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ ،عالمی سیاست اور تہذیب و معاشرت کے موضوعات پر بے شمارکتابوں کا مطالعہ کر رکھا تھا،وہ عالمی جرائد کے ساتھ ساتھ مقامی اخبارات میں چھپنے والے کالموں کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے ۔روزانہ دس اخبارات پڑھتے اور پھر کالم نگاروں کو فون اور میسج کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات بھی پہنچاتے۔جماعت اسلامی کے ساتھ انہیں قلبی لگائو تھا۔سید مودودیؒ کی تحریروں کے وہ خوشہ چین اور مداح تھے،قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کے ساتھ ان کی خصوصی دوستی اور عقیدت مندانہ تعلقات تھے۔سیدمنور حسن صاحب ،محترم سراج الحق صاحب اور لیاقت بلوچ صاحب کے ساتھ بھی ان کے ہمیشہ خصوصی و قلبی تعلقات رہے تھے،نسل نو کے نمائندے کے طور پراسلامی جمعیت طلبہ سے بہترین امیدیں رکھتے تھے۔اور امت کے مسائل اور اتحاد امت کے سلسلے میں وہ جماعت اسلامی کے کردار کے ہمیشہ معترف رہے۔جنرل صاحب کو اتحاد امت سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ کرتے ہوئے ہمارے عزیز اور ان کے فرزندارجمند عبداللہ گل بتا رہے تھے کہ ایک رات عشا کی نماز کے بعد میں نے جنرل صاحب سے کوئی بات کرنی تھی لیکن ان کی نماز ختم ہونے کو ہی نہیں آرہی تھی ۔کافی انتظار کیا جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان سے پوچھانماز عشاء کی زیادہ سے زیادہ رکعتیں سترہ ہیں۔آپ تو یوں لگتا ہے جیسے قضائے عمری ادا کرر ہے تھے تو انہوں نے بتایا کہ میں اتحادامت۔اور پاکستان کی سلامتی کے لیے خصوصی نوافل پڑھ رہا تھا اور ایسا میں گزشتہ چالیس سالوں سے کر ر ہا ہوں۔جنرل صاحب کو اپنے بیوی بچوں سے خصوصی پیارتھا ۔عبداللہ گل ہی بتا رہے تھے جنرل صاحب کو ہماری امی یعنی اپنی بیوی سے اس قدر محبت تھی کہ اسے الفاظ کے پیکر میں ڈھالنا مشکل ہے۔جنرل صاحب کی اہلیہ گزشتہ 22سالوں سے کینسر کی مریضہ ہیں اور ان پر کینسر کا تیسرا حملہ ہے۔ان کے 20کے قریب آپریشن ہو چکے ہیں۔وہ عظیم خاتون بھی باہمت اور صابرہ ہیں۔اور جنرل صاحب نے بیماری کی حالت میں اپنی اہلیہ کی مثالی خدمت و نگہبانی کی ہے۔عبداللہ گل بتا رہے تھے بیماری کی وجہ سے اگر امی کھانا نہیں کھاتی تھیں تو جنرل صاحب بھی کھانا نہیں کھاتے تھے۔اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے وہ رات کم ہی گھر سے باہر گزارتے۔میں نے اپنی بیٹی فضا کی شادی کا دعو ت نامہ بھیجا تو جنرل صاحب کا فون آگیا،کہنے لگے اگر دن کی تقریب ہوتی تو میں ضرور آتا لیکن اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے میں اسلام آباد سے باہر رات کی تقریبات میں شرکت سے معذرت کر تا ہوں۔جنرل حمید گل کی اصل خوبی ان کی اسلام اور پاکستان سے سچی محبت اور غیر متزلزل کمٹمنٹ تھی۔وہ تاریخ کی کتابوں سے نکل آئے تھے اور تاریخ کی کتابوں میں ہی واپس چلے گئے۔بسااوقات وہ مجھے نسیم حجازی کے ناولوں کا کوئی کردار محسوس ہوتے تھے۔بستی بستی پکارتا۔خواب غفلت سے بیدار کرتا۔مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتا۔دشمن کو للکارتا اور نعرہ تکبیر بلند کرتا ۔بدر بن مغیرہ جیسا۔
رکے تو چاند چلے ہوائوں جیسا تھا
وہ دشمن دھوپ میں دیکھوں تو چھائوں جیساتھا