• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’صدر‘‘آصف علی زرداری کے لندن سے جاری کردہ بیان سے شاید آپ احتساب کی حالیہ کہانی کا پس منظر دیکھنے، جاننے اور سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے۔
جناب زرداری کے نزدیک قومی، ملکی اور سیاسی منظر کی اصل تصویر کشی کچھ لوگوں کی ایک ہی وقت میں دو کشتیوں پر سوار میں مضمر ہے۔ جناب آصف علی زرداری نے کہا ’’نواز شریف 1990ء کی سیاست دہرا رہے ہیں۔ حکومت کے حالیہ اقدامات ان کے ان عزائم کا کھلا اظہار ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنے فطری حلیفوں، ’’طالبان اور دہشت گردوں‘‘ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر قاسم ضیاء پرہاتھ ڈالا گیا، لاہور سے سینیٹر سیف اللہ بنگش کے بیٹے کو اٹھایا گیا، اب کراچی میں چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ بعد ازاں فوراً ہی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سابق علیل وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے۔
یہ انتقامی عمل کا عکاس ہے تاثر ہے کہ براہ راست وزیراعظم نواز شریف کے احکامات کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ادھر افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار ہیں جبکہ نواز شریف حقیقی دشمنوں کو چیلنج کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
جناب زرداری نے ماضی کے اوراق پلٹے اور گویا ہوئے ’’یوں لگتا ہے نواز شریف نے گزرے وقت سے ہرگز کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بہرحال ہم ان میں سے نہیں جو جنرل (ر) پرویز مشرف سے معافی مانگ کر جدہ بھاگ گئے تھے۔ ہم نے 2013ء کے عام قومی انتخابات جمہوریت کی خاطر قبول کئے حالانکہ یہ ’’آر اوز‘‘ کے انتخابات تھے۔ ’’صدر‘‘ نے سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا اور سوال اٹھایا ’’آخر 14بے گناہ افراد، جن میں خواتین بھی شامل ہیں ان کے قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا؟‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’صوبہ پنجاب کے ایک وزیر رانا مشہود کی ویڈیو سامنے آئی جس میں مبینہ طور پر وہ میاں برادران کے لئے پیسے وصول کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اصغر خان کیس پر بھی کارروائی کی جائے۔ ذمہ دار کرداروں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا؟‘‘
پاکستان کے جمہوری سفر میں اس بگاڑ کی شکل کیوں پیدا ہو رہی ہے؟ کیا کوئی ذی شعور پاکستانی شہری احتساب کے عمل کا مخالف ہے؟ کیا کوئی عقل کا اندھا رزق حرام کا حامی ہے؟ فساد آئین و قانون کی مٹی پلید کرنے پیدا ہوا ہے؟ فساد اور بگاڑ آئین و قانون کی ترتیب کو طاقت کی ڈکشنری کے مطابق ترتیب اور تعبیر دینے پیدا ہوا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ جب یہ کہتے ہیں ’’یہ کوئی ریاست ہے، جنگل کا قانون، صوبائی معاملات میں مداخلت ایف آئی اے کا کام نہیں‘‘ اس کا مطلب ملکی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملکی ایجنسیوں یا فورسز نے کوئی ایسی کارروائی کی جس پر سندھی عوام کے ووٹوں سے منتخب صوبائی آئینی سربراہ کو شدید ترین بیانیہ ریکارڈ پر لانا پڑا۔ بہتر ہو گا پاکستان کو میڈیا کے سپرد کر دینے کی لذت سے باز رہا جائے، یہ ملک اپنے حالات کے اصل بھنور میں بے حد عالمی عدم اعتماد اور عالمی سازشوں کا قیدی بن چکا ہے،
متعدد اشارے۔ ہمارے غیر جانبدارانہ غور و فکر کا ناگزیر تقاضا کرتے ہیں۔ امریکہ نے ایک بار پھر آخر پاکستان سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کا اصرار کیوں شروع کر دیا ہے؟ حقانی نیٹ ورک کے سلسلے میں پاکستان کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجودامریکی قیادت نے ایک بار پھر، اس تناظر میں دہشت گردی کے خلاف فنڈز جاری کیوں نہیں کئے؟ کراچی آپریشن اور احتساب اگر آئین و قانون کے سب سے اونچے مینارے پر فائز رہ کر کیا جا رہا ہے تب وہ کون سا راز ہے جس نے آصف علی زرداری کے موجودہ انتہائی جارحانہ بیان کے جواب میں وزیراعظم کو خلاف مزاج اور خلاف ریکارڈ، نیم خاموشی اور وضاحت دینے کی راہیں اختیار کرنے سے آگے نہیں جانے دیا؟
برس ڈیڑھ برس پہلے کی بات ہے جناب سہیل وڑائچ نے کسی موضوع پر مکالمے کے دوران کہا ’’آپ کبھی اس پر لکھیں، آخر پیپلز پارٹی ہی کیوں مرتی ہے؟‘‘ 2015 میں مجھے ایک صاحب مطالعہ اور صائب الرائے دانشور کے خیالات نے یہ واقعہ یاد دلا دیا اس وقت میں نے بھی جناب وڑائچ صاحب کے اٹھائے گئے اس سوال کا جواب دیا تھا، 2015میں ایک دوسرے تناظر میں اس دانشور نے نہایت ناقابل فراموش جواب دیا ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’ان دنوں امریکہ آصف علی زرداری سے ناراض ہے پتہ نہیں کیوں؟ شاید ہدف زرداری نہیں، امریکہ کا لوڈس آپرینڈی یہ بھی تو ہے کہ اصل ہدف تک پہنچنے کے لئے کسی اور کو ہدف بنانا ہے ورنہ آصف زرداری نے امریکہ کا کیا بگاڑا ہے یا بگاڑ سکتے ہیں؟ امریکی ہدف یہ لگتا ہے کہ سندھی اور مہاجر دونوں کو ایک ہی نکتے پر متحد کر دیا جائے گا۔ یہ نکتہ کیا ہے؟ خود دیکھ لیجئے۔
پاکستانی سالمیت، پاکستانی جغرافیہ، پاکستانی قومیتیں پاکستانی ترقی اور پاکستانی بقاء قومی سیاست کے قومی جمہوری سفر سے جڑی ہوئی ہے۔ قومی سیاسی جمہوری سفر ہی پاکستان کی قومی بُنت کا محافظ ثابت ہوا ہے، ملک کا دو لخت ہونا اس سفر میں رکاوٹیں ڈالنے کا المناک نتیجہ تھا، اب بھی پریس ریلیزیں یا پنجاب میں بیٹھے لکھاریوں پر مبنی میڈیا ترجمانوں کے ذریعے پاکستان کے حقائق چھپائے جا رہے ہیں جس کے باعث اس جمہوری سفر کا تسلسل اور سلامتی حب الوطنی کا پہلا اور آخری سنگ چلا ہے، ویسے بھی یہ 1977ء نہیں، 2015ہے، وقت کے دھارے کا بہائو تصور سے بھی تیز ہے، آپ ایک تیر سے ایک ناجائز شکار بھی نہیں کر سکتے، دو تو ناممکن ہے ہی۔ بہتر ہو گا ہم منتخب جمہوریت کو پاکستان میں شفافیت اور سالمیت کا فرض ادا کرنے دیں‘‘ اور خود اس فرض کی ادائیگی میں آئین و قانون کے ترازو میں مستقلاً اپنی طاقت اور اپنا وزن ڈالتے رہیں!
تازہ ترین