فکر انگیزی ، جدت طرازی اور ندرت فکر و نظر کسی بھی قوم کی حیات اجتماعی کے تسلسل اور ارتقاء کیلئے ناگزیر ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بھی ہیں اور فکری نشوونما اور تہذیبی بقاء کی لازمی شرط بھی اقبالؒ نے کہا تھا:
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
افکار کی تازگی اورجدت و ایجادکی کارفرمائی کیلئے ایک ایسا فکری اور علمی ماحول درکار ہوتا ہے جو نہ صرف افراد قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کرے بلکہ اپنی صلاحیتوں کے اظہار کیلئے مناسب مواقع بھی بہم پہنچائے۔
معاصر دنیا میںیہ فریضہ جامعات کے سپرد سمجھا جاتا ہے جہاں نہ صرف تحقیق و تجسس کی آبیاری اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ انہیں مطلوبہ سمت اور مناسب جہت سجھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ماضی میں پاکستانی جامعات اس وظیفہ کی انجام دہی میں عبرت ناک حد تک ناکام ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی جامعات دنیائے تحقیق میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر پائیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے پہلے ہماری جامعات میں ہونیوالی تحقیق تازہ کاری، جدت طرازی اور عالمی معیار تحقیق کے اعتبار سے ناگفتہ حد تک مایوس کن تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی جامعات میں ہونیوالی تحقیق کو عالمی معیارات کی روشنی میں جانچا اور پرکھا جانے لگا۔ تاہم گزشتہ دس سالوں کے دوران بوجوہ ایسی روایات نہیں پنپ سکیں جو قابل رشک یا قابل اطمینان ہوں۔
اس کا اندازہ HECکی طرف سے 2007ء سے2010ء تک جاری ہونیوالی ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے جو پاکستانی جامعات میں ہونیوالی تحقیق کے نتائج بیان کرتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2007ء میں پاکستان کی 97 جامعات میں سے تقریباً چالیس جامعات ایسی تھیں جن میں پورے سال کے دوران ایک بھی تحقیقی مقالہ شائع نہیں ہوا۔ تاہم 2008ء میں ایسی جامعات کی تعداد24رہ گئی۔ جنہوں نے سال بھر میں ایک تحقیقی مقالہ بھی شائع نہ کروایا۔
2009 ء میں یہ تعداد گھٹ کر بیس ہو گئی جبکہ 2010ء میں صرف تین جامعات ایسی تھیں جنہوں نے سال بھر میں کوئی تحقیقی مقالہ شائع نہ کروایا۔ تاہم 2010ء میں بھی چالیس جامعات ایسی تھیں جن کی طرف سے شائع ہونیوالے مقالات کی تعداد دس سے کم تھی اور آٹھ جامعات میں سال بھر میں صرف ایک مقالہ شائع کروایا گیا۔2010ء کے بعد مقالات کی اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ یہ اعداد و شمار اپنی جگہ خود بھی مایوس کن ہیں اور پاکستانی جامعات میں تحقیق کے اعتبار سے ایک انتہائی سست رفتار ترقی کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاہم اگر ان مقالہ جات کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حیران کن حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان مقالات کی غالب اکثریت پاکستانی معاشرے کے مسائل اور ضروریات سے مکمل بے اعتنائی اور لاتعلقی کی شہادت دیتی ہے اور ان مقالات کے لکھے جانے کی بنیادی وجہ ایچ۔ ای ۔سی کی عائد کردہ وہ شرائط ہیں جن کی تکمیل کیلئے یہ مقالات لکھے گئے۔
پاکستانی جامعات میں تحقیق کے فقدان کی اس نوحہ خوانی کا سبب ان عوامل کی نشاندہی کرنا ہے جو نہ صرف تحقیق کے فقدان کا باعث ہیں بلکہ جو تھوڑی بہت تحقیق ہو رہی ہے اس کی ہمارے معاشرے کے مسائل سے بے اعتنائی اور لاتعلقی کا سبب بھی ہے۔ میں یہاں دو بنیادی محرکات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے ہاں ہونیوالی تحقیق کو بھی پایہ اعتبار سے ساقط کرتے ہیں اور تحقیق میں جدت طرازی اور تازہ کاری کے فقدان کا بھی سبب ہیں۔ یہ دونوں اسباب ایک دوسرے سے ناگزیر طور پر جڑے ہوئے بھی ہیں اور باہم دگر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔
موجودہ صورت حال کا پہلا سبب جامعات میں تحقیق کے لئے سازگار ماحول کا فقدان ہے۔ تحقیقی ماحول بہت ساری شرائط کی تکمیل سے پیدا ہوتا ہے۔ سب سے پہلی شرط تو طلباء اور اساتذہ کا تحقیق کیلئے آمادہ ہونا ہے۔ ہماری جامعات میں ہونیوالی زیادہ تر تحقیق فی الاصل تحقیق برائے تحقیق کے زمرے میں آتی ہے ۔طلباء اپنی ڈگری کی شرائط کی تکمیل کیلئے اور اساتذہ اگلے درجے میں ترقی پانے کیلئے تحقیق کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ تازہ کاری اور جدت طرازی کی بجاے تن آسانی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جنہیں کم از کم کوشش ،کم از کم وقت اور کم از کم معیشت کے ذریعے نبھایا جا سکے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ چربہ تحقیق اور تحقیقی سرقہ کی صورت میں نکلتا ہے ۔ تحقیق کیلئے مناسب ماحول کی شرائط میں وسائل کی دستیابی بھی شامل ہے ۔ وسائل سے مراد تجربہ گاہیں، کتب خانے، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل لائبریریوں تک رسائی بھی شامل ہے۔ اگرچہ تحقیق کیلئے مختص کی جانے والی رقوم میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم ابھی تک ہمارے ہاں اس سلسلے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔تحقیق کے لئے درکار مناسب ماحول کی شرائط میں جامعات کا مجموعی ماحول تعلیمی پالیسی اور مقاصد تعلیم کا درست تعین بھی شامل ہے،۔ ہمارے طلباء جامعات میں ڈگری حاصل کرنے آتے ہیں اور اسی کو اپنا حتمی مطمع نظر بھی سمجھتے ہیں۔
جامعات میں ترجیحات کے درست تعین ،تدریسی اور انتظامی سطح پر مناسب فیصلوں کے ذریعے تحقیق کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا اہم ترین سبب معاشرے اور جامعات کے باہمی رابطے کا فقدان ہے۔ حیات اجتماعی کے بنیادی اور فیصلہ کن عوامل معاشی ،معاشرتی اور سیاسی ہیں۔ معاشی سطح پر دولت کی پیدائش ،تقسیم اور معاشی استواری وہ ناگزیر ضرورتیں ہیں جن کے بغیر معاشی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔ جامعات میں ہونیوالی تحقیق اور معاشرے میں دولت کی پیدائش اور تقسیم کے اسالیب میں ربط ناگزیر ہے۔ دنیا بھر کی جامعات اپنے معاشرے میں معاشی استواری کو برقرار رکھنے کیلئے راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ صنعت کار اور تاجر اپنی تجارت میں بہتری لانے کیلئے صنعتی پیداوار میں اضافے تنوع اورجدت پیداکرنے کیلئے جامعات میںہونے والی تحقیق کیساتھ رابطہ بھی رکھتے ہیں اور اس کیلئے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں۔پاکستانی جامعات کا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف جامعات میں ملک کی مجموعی ،معاشی سرگرمیوں اور صنعت و تجارت کے مسائل کو اپنا موضوع نہیں بنایا وہیں ہمارے صنعت کاروں، تاجروں اور کاروباری اداروں نے جامعات کیساتھ شراکت داری کے ذریعے جدید تحقیق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی چنانچہ جامعات میں ہونیوالی تحقیق ملکی معیشت سے تقریباً لاتعلق ہے۔ سماجی سطح پر بھی سماجی مسائل اور جامعات میں ہونیوالی تحقیق کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ سماجی ناہمواری ،تفریق اور نا انصافی ہماری جامعات کیلئے موضوع تحقیق نہیں بنی اور نہ سماج نے بالعموم جامعات سے اس ضمن میں کوئی رہنمائی حاصل کرنے کیلئے کاوش کی ہے۔ سیاسی سطح پر بھی جامعات میں ہونیوالی تحقیق ہمارے معاشرے کیلئے ایسا بیانیہ تشکیل دینے میں کلی طور پر ناکام ہے جو سیاسی وسماجی انصاف ، قانون کی حکمرانی اور جمہوری مزاج کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے کو درپیش شدت پسندی، لاقانونیت اور دہشت گردی ہماری جامعات کیلئے موضوع تحقیق نہیں بن سکیں اور ہماری جامعات غالب قومی بیانیہ تشکیل دینے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔
تدریسی تحقیق اور معاشرتی مسائل کے درمیان ربط کی عدم موجودگی نے جامعات میں ہونیوالی تحقیق کو بھی لایعنی بنا دیا ہے اور جدت طرازی اور تازہ کاری کو بھی غیر ضروری بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی منصوبہ بندی اور حکومتی اقدامات کے ذریعے معاشرے اور جامعات کے تعلق کو بحال کیا جائے اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی یہ شعور اجاگر کرنیکی کوشش کی جائے کہ وہ جامعات میں ہونیوالی تحقیق سے شراکت داری قائم کریں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے جامعاتی تحقیق کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرے۔ طلباء اور اساتذہ کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ تحقیق کیلئے ترجیحات کا ازسرنو تعین کریں اور تحقیقی موضوعات کے انتخاب کے وقت معاشرتی ،معاشی اور سیاسی مسائل کو پیش نظر رکھیں اور جامعات میں پیدا ہونیوالے علم کو معاشرے کے تشکیلی محرکات سے مضبوط بنیادوں پر جوڑنے کی کوشش کریں۔ ایک ہمہ گیر علمی، فکری اور تحقیقی سرگرمی ہمارے معاشرے کی بقاء ارتقاء اور استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا۔
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد