افغانستان کے محاذ پر ،پاکستان کو جو موقع گزشتہ چند ماہ کے دوران ہاتھ آیا ، وہ ماضی کے چودہ سالوں میں کبھی ہاتھ نہیں آیا تھا۔ جورعایتیں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے دی تھیں ،حامد کرزئی صاحب سے ان کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کا دل پاکستان کے بارے میں صاف ہوگیا تھا بلکہ اشرف غنی صاحب یہ شعوری رائے رکھتے تھے کہ مسئلے کی چابی پاکستان کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کا اظہار انہوں نے صدر بننے کے بعد اپنی تقاریر میں بھی کیا تھا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے یہ حکمت عملی اپنالی کہ پاکستان کو جیسا ماحول چاہئے ہو، وہ اسے دے دیا جائے اور پھر نتائج بھی اسی سے مانگے جائیں ۔ اب کی بار معاملہ اس حوالے سے بھی مختلف تھا کہ حامد کرزئی کے دور کے برعکس ،پاکستان سے متعلق پالیسی کی تبدیلی افغان صدر کی ذات تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں دیگر افغان شخصیات اور ادارے بھی شامل رہے۔ یہ کریڈٹ سابق وزیرخارجہ حناربانی کھر اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام کو بالعموم اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر محمد صادق کو بالخصوص جاتا ہے کہ انہوںنے گزشتہ صدارتی انتخابات سے قبل شمالی افغانستان کی قیادت کو قریب کرلیا تھا اور پاکستان سے متعلق پالیسی کی تبدیلی میں عبداللہ عبداللہ ، رشید دوستم، استاد محقق ، صلا ح الدین ربانی اور استاد عطاء جیسے لوگ نہ صرف ڈاکٹر اشرف غنی کے ہمنوا تھے بلکہ وہ ان سے دو قدم آگے تھے ۔ یہ موقع اس حوالے سے بھی منفرد اور نادر تھا کہ پہلی بار امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے بھی پاکستان اور افغانستان کی اس قربت کو ہضم کرلیا تھا۔ گزشتہ چودہ سالوں میں پہلی مرتبہ ان قوتوں کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو یہ بلینک چیک دیا گیا تھا کہ وہ جس طرح چاہیں ، طالبان کے ساتھ مصالحت کا راستہ نکال لیں ۔ اسی طرح یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ افغانستان کی حکومت نے امریکہ کی اجازت اور پاکستان کی خواہش سے چین کو بھی اس عمل کا حصہ بنا لیا اور وہ معاون کا کردار بھی ادا کررہا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ ایک سال کے دوران جب سرکاری ترجمان اور اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کرنے والے تجزیہ کار افغانستان کے محاذ پر کامیابیوں کاجشن منا کر واہ واہ کررہے تھے تو ہم جیسے طالب علم افغان حکومت کی توقعات اور مطالبات پر دھیان دینے کی دہائی دے رہے تھے لیکن افسوس کہ وزیراعظم صاحب اور ان کی ٹیم نے یہ نادر موقع ضائع کردیا۔ وزیراعظم صاحب اور ان کے خوشامدگر وں کو خود بھی یہ صحیح اندازہ نہیں تھا کہ افغان طالبان کس حد تک پاکستان کے کنٹرول میں ہیں چنانچہ انہوںنے صلاحیت اور استعداد سے بڑھ کر افغان حکومت کو یہ تاثر دیا کہ ان کی حکومت طالبان کو ان کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرلے گی ۔ ڈاکٹر اشرف غنی ملک کے اندر ناقدین کو یہ بتاتے رہے کہ اپریل تک پاکستانی حکومت مطلوبہ نتائج سامنے لائے گی ۔ اپریل میں افغانستان کے اندر برف پگھل جاتی ہے اور طالبان ان حملوںکا آغاز کردیتے ہیں جن کی پورے سرما میں انہوں نے تیاری کی ہوتی ہے ۔ افغان حکومت توقع لگائے بیٹھی تھی کہ مفاہمت کی کوششوں کے نتیجے میں اب کی بار افغان طالبان کی کارروائیاں ماضی سے کم ہوں گی لیکن معاملہ الٹ نکلا۔ اس دفعہ طالبان نے افغان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پاکستانی میڈیا میں ان کو جگہ نہیں ملتی لیکن اپریل سے اب تک روزانہ اوسطا سو کارروائیاں ہوتی ہیں ۔ کابل میں بم دھماکے اور خودکش حملے روز کا معمول بن گئے اور طالبان نے پہلی بار شمالی افغانستان میں بھی کارروائیاں نہ صرف شروع کردیں بلکہ بدخشان ، کندوز اور سرائے پل جیسے صوبوں میں پورے پورے اضلاع پر قابض ہوگئے ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ نائب صدر رشید دوستم اور سیاسی شخصیت بن جانے والے استاد عطاء کو دوبارہ فوجی وردیاں پہن کر خود اپنے ملیشیا دوبارہ منظم کرنے پڑے تاکہ طالبان کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ اس دوران اشرف غنی پاکستان پر زور دیتے رہے کہ وہ افغان طالبان کو کارروائیوں سے روکے لیکن پاکستان یہ عذر پیش کرتا رہا کہ وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ۔ تین ماہ قبل اشرف غنی نے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل میں جلدی دکھائے اور افغانستان کے اندر طالبان کی کارروائیاں روکنے میں تعاون کرے ۔ ساتھ ہی انہوں نے عالمی ادارے سے وابستہ اپنے ایک پاکستانی دوست کے ذریعے پیغام دیا کہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہورہا ہے اور اگر پاکستان نے حسب منشا تعاون نہ کیا تو وہ ماضی کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھرپور سفارت کاری کے ذریعے یا تو افغان طالبان پر پاکستان کے اثر کے حوالے سے اشرف غنی کی غلط فہمی دور کردی جاتی یا پھر بھرپور ہوم ورک کے ساتھ طالبان سے مذاکرات کا اہتمام کرلیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ پھر جب ایک دن اشرف غنی نے دوبارہ سخت دھمکی دی تو وزیراعظم نے عجلت میں متعلقہ اداروں پر دبائو ڈالا کہ وہ جلد ازجلد جہاں سے بھی ہو طالبان کے نمائندوں کو ڈھونڈ نکالیں ۔ چنانچہ ان کے حکم پر ہنگامی بنیادوں پر مری مذاکرات کا اہتمام کیا گیا جو کہ سنگین غلطی تھی ۔ ان مذاکرات کے لئے مناسب ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا لیکن پاکستان کے ایک شہر میں ہنگامی بنیادوںپر افغان حکومت کے دبائو پر ہونے والے ان مذاکرات نے امریکہ اور افغان حکومت کی اس رائے یا الزام کو مزید تقویت دی کہ افغان طالبان نہ صرف پاکستان میں ہیں بلکہ پاکستان چاہے تو انہیں کسی بھی حل پر آمادہ بھی کرسکتا ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد امریکہ اور افغان حکومت کا یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ افغان طالبان کو کارروائیوں سے باز رکھا جائے اور دوسری طرف مذاکرات کے دوسرے سیشن ، اس میں ملامحمد عمر یا پھر ان کے قریبی ساتھیوں کی موجودگی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس دوران جبکہ دوسرے سیشن کا انعقاد ہونے کو تھا ، ملامحمد عمر کے انتقال کی خبر سامنے آگئی اور نہ صرف دوسرے مرحلے کا انعقاد کھٹائی میں پڑ گیا بلکہ افغان طالبان کی صفوں میں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے نئے امیر ملااختر منصور نے مذاکرات سے بھی (وقتی طور پر سہی ) انکار کردیا۔ دوسری طرف نئی قیادت نے اپنے آپ کو منوانے کے لئے افغانستان کے اندر کارروائیاں مزید تیز کردیں ۔ کاش افغان حکومت کچھ مزید صبر کرتی لیکن افسوس کہ اس نے ردعمل میں تیزی دکھادی اور فوراً انتہاتک بھی چلی گئی ۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پوری ٹیم کو پیچھے کھڑا کرکے جو پریس کانفرنس کی ، اس میں انہوں نے پاکستان پر بدعہدی اور بے وفائی کا الزام لگایا اور یہاں تک کہہ دیا کہ افغانستان کی یہ حالت بنیادی طور پر پاکستان کی وجہ سے ہے ۔ اگلے دن ان کے نائب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ان کی تقلید کی جبکہ رشید دوستم نے اپنے اوپر ہونے والے ناکام حملے کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف اور ہندوستان کے زیراثر لابی کو بھی موقع ہاتھ آگیا۔ اگلے دن سرکار کی سرپرستی میں علماء کا اجلاس بلایا گیا جس نے پاکستان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پورے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں ۔ گزشتہ چھ سالوں میں پہلی بار پاکستانی سفیر ، سفارت خانے میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ دوسری طرف ہندوستانی سفیر اسی طرح سینہ تان کر افغانستان کے مختلف شہروں کے دورے کرنے لگے ہیں جس طرح کسی زمانے میں وہاں پر پاکستان کے سفیر محمد صادق کیا کرتے تھے ۔ اس سے بھی خطرناک امر یہ ہے کہ افغان حکومت کی اس ناراضی میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی اس کے ہمنوا ہیں بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹراشرف غنی کو اس بغاوت کی ترغیب بھی امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک نے دی ہے ۔
اس کے شواہد یوں بھی ملتے ہیں کہ جب سے کابل سے پاکستان کے خلاف بیانات کا آغاز ہوا ہے ،تب سے امریکہ نے بھی ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ امریکی میڈیا میں حقانی نیٹ ورک کا غلغلہ پھر بلند ہوگیا ہے اور فارن افیئر زمیگزین نے تو اپنے تازہ شمارے میں اپنی حکومت کویہ تک مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے کسی خیر کی توقع نہ کرے ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ جس طرح پاکستان میں اس مثبت عمل کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور اس غنیمت جیسے موقع کے بھرپور استعمال کے لئے سنجیدگی نہیں دکھائی گئی ، اسی طرح اب ہونے والی خرابی کی شدت کو بھی پاکستان میں پوری طرح محسوس نہیں کیا جارہا ۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ افغانستان کی طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ۔ آج کا کالم میں نے پاکستان کی طرف سے ہونے والی غلطی یا غفلت کے لئے خاص کیا تھا۔ زندگی رہی تو اگلے کالم میں افغانستان کی طرف سے ہونے والی خامیوں اور زیادتیوں کا ذکر کروں گا۔