کل جنگ ستمبر1965کی گولڈن جوبلی منائی جائے گی۔ ہم اس جنگ کے عظیم ہیرو عزیزبھٹی کی زندگی کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہیں۔
11ستمبر:صوبیدار غلام محمد سے باتیں کررہے تھے کہ کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل ابراہیم قریشی کا پیغام آیا کہ ایک ضروری کانفرنس کیلئے فورا ً فیلڈ ہیڈ کوارٹر پہنچ جائیں ۔ نائب صوبیدارشیر دل کو بلا کر کہا ۔ صاحب ! اب آپ کو میرے بعد سارا کام خود ہی کرنا ہو گا۔ میرے واپس آنے تک دشمن پر کڑی نظر رکھیں اور ضرورت کے مطابق فائر کرواتے رہیں ۔ میں ذرا فیلڈ ہیڈ کوارٹر جا رہا ہوں۔
میجر عزیز بھٹی مجوزہ کانفرنس سے جلد فارغ ہو نے کے بعد بعجلت تمام واپس جانے کیلئے بے قرار تھے مگر انہیں معلوم ہوا کہ انہیں کسی اہم کانفرنس کیلئے نہیں بلایا گیا۔ بلکہ ان کے کمانڈنگ آفیسر انہیں آرام پہنچانا چاہتے ہیں۔ کرنل قریشی نے صاف الفاظ میں کہہ دیا‘‘بھٹی صاحب ! میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ آپ نے اس محاذ پر ایک تاریخی جنگ لڑی ہے ۔ آپ کے پاس جوانوں کی انتہائی کم نفری کا مجھے شدید احساس رہا آپ کے کارنامے حیرت انگیز ہیں۔ آپ نے لاہور کو دشمن کے ناپاک قدموں سے بچا لیا ہے ۔ آپ نے مسلسل چھ یوم سے مطلق آرام نہیں کیا۔ اس لئے آج بہانے سے بلایا ہے۔ میں آپ کی جگہ دوسرا افسر بھیج رہا ہوں۔ آپ آرام کرلیں ۔ آپ کو پچھلے مورچوں پر بھیج دیتے ہیں۔ میجر بھٹی نے کہا ـ"سر جس احساس اور جذبے کے تحت مجھے آپ نے واپس بلایا ہے ۔ اس کےلئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن آپ یقین مانیں میرے لئے آرام و راحت محاذ پر ہے ۔ مجھے اگر محاذ سے واپس بلا لیا جائے تو میرے لئے یہ ایک روحانی عذاب ہو گا۔ مجھے فخر ہے کہ میرے جوانوں نے اپنی قوت ایمانی اور عزم سے دشمن کی کئی گنا زیادہ فوج اور بے پناہ اسلحے کے باوجود اس کی یلغار کو روک دیا ہے ۔ اور ہر مقابلے میں اسے شکست دی ہے ۔ مگر مجھے یہ احساس ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی زیادہ فوج نہیں کہ ہم ہر محاذ پر تازہ دم فوج بھیج کر سب مجاہدین کو آرام دلاسکیں ۔ درین حالات میرے لئے یہ امر ناقابل تصور ہے کہ میں اپنے جوانوں کو محاذ پر چھوڑ کر یہاں آرام کرنے بیٹھ جائوں ! میں پچھلے مورچوں پر نہیں جائوں گا بلکہ وطن پاک کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا پسند کروں گا۔
کرنل قریشی ، میجر بھٹی کے دلائل ان کے جوش جہاد اور ملک و ملت کیلئے جذبہ ایثار سے بے حد متاثر ہوئے۔البتہ انہوں نے میجر عزیز بھٹی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ چند گھنٹے تو آرام کرلیں۔ لیکن میجر بھٹی وہاں ایک گھنٹے سے زیادہ نہ رکے ۔
کرنل قریشی اور دوسرے دوستوں سے رخصت ہو کر میجر بھٹی واپس محاذ پر پہنچ گئے ۔ جاتے ہی نائب صوبیدار شیر دل سے کہا۔ صاحب ! اب آپ آرام کریں اور میں دشمن کی خبر لیتا ہوں۔ دشمن کی پوزیشن کا جائزہ لے کر اس پر فائر کا حکم دیا۔ آدھی رات کو پٹری پر سے گزر رہے تھے کہ ایمبولینس کی آواز آئی۔ گاڑی کے قریب گئے اور ڈرائیور سے پوچھا "انور کیا بات ہے ۔گاڑی کیوں اسٹارٹ کر رکھی ہے ؟ انور نے کہا "صاحب ! گاڑی کا سیلف خراب ہے ۔ جلد اسٹارٹ نہیں ہوتی اگر کوئی ایمر جنسی ہوگئی تو پھر بہت زیادہ مشکل کا سامنا ہو گا اور اسکو دھکیلنا پڑے گا۔ کہنے لگے ! اگر کوئی ایمر جنسی ہو گئی تو اسے دھکیلنے والے بہت ہوں گے ۔ اللہ کا آسرا چاہئے اسے بند کردیں اور اطمینان رکھیں۔ "انور نے گاڑی بند کردی ۔ پھر اس نے پوچھا "صاحب !اجازت دیں تو میں صبح اسے ورکشاپ لے جائوں اور اس کو ٹھیک کرا لائوں ؟ کہنے لگے ’’ہاں ضرور لے جائیں ۔ البتہ صبح دس بجے تک انتظار کرلیں ۔ مبادا کوئی ایمرجنسی ہو جائے‘‘۔ انور سوچتا رہا کہ یہ دس بجے انتظار کی کیا تُک ہے۔ ایمرجنسی تو کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ بہر حال وہ خاموش رہا۔
12ستمبر:پٹری پرچڑھ کر چکر لگایا سحر قریب تھی دشمن نفری اور سامان حرب کی کثرت کے باوجود رات بھر فوجی اہمیت کی کوئی کارروائی نہ کرسکا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو میجر بھٹی کی کمان میں نہر کے اس کنارے ہمارے جوانوں کی چوکسی اور ہوشیاری تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ گزشتہ چھ دن کے مقابلوں میں اس محاذ پر انہوں نے دشمن کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا تھا کہ اب وہ نفسیاتی طور پر مرعوب ہو کر ذہنی شکست قبول کرچکا تھااور اسے پیش قدمی کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ انہیں پٹری پر پھرتے ہوئے، برکی سے شمال کھجور ایریا میں ایک پلاٹون کی نفری نہر کی جانب آتی ہوئی دکھائی دی۔ وائرلیس سے میسج پاس کیا۔‘‘برکی ڈراپ ون ہنڈرڈ ون رائونڈ فائر "(برکی سے ایک سو نیچے ایک رائونڈ فائر کریں)۔ اس کی زد میں آنے والے کچھ مرگئےاور کچھ بھاگے۔ ہائی اسکول کی طرف بھاگنے والوں پر گولے پھنکوائے۔ حوالدار نذیر سے کہا:"اب برباد ہوگئے ہیں‘‘۔ حوالدار اللہ دتہ (مارٹر او پی) کو بلایا، اسے کہا کہ وہ بھی جائزہ لے۔ اس نے جائزہ لے کر کہا کہ دشمن کی کوئی نقل و حرکت نظر نہیں آتی۔
سپیدہ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ میجر عزیز بھٹی پٹری سے نیچے اُترآئے۔ امان خان سیاہی سے پانی لے کر وضو کیا اور فجر کی نماز ادا کی۔ امان خان چائے تیار کرنے لگا، گرم پانی لے کر شیو بنائی۔ تو امان خان نے کہا :صاحب! میں پانی لادیتا ہوں۔ آپ غسل کرلیں۔ کہنے لگے، نہر سے پانی لانا خطرناک ہے۔ امان خان سر! میں ابھی بستی سے پانی لے آتا ہوں۔ میجر بھٹی کہنے لگے، رہنے دیں اور اسی پانی سے ذرا سر دُھلا دیں۔ چنانچہ گرم پانی سے سر منہ دھویا۔ کئی دن بعد بالوں میں کنگھی کی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری صبح تھی۔ وہ غیرشعوری طور پر کسی طویل سفر کی تیاری کررہے تھے۔
میجر بھٹی کی زندگی کا آخری سورج طلوع ہوچکا تھا۔ کمپنی ہیڈ کوارٹر کے پاس حوالدار نذیر کی پلاٹون کی بائیں جانب سے نہر کی پٹری کے اُوپر آئے اور دوربین کے ساتھ مشاہدہ کرنے لگے۔ حوالدار میجر فیض علی پٹری کے نیچے تھا۔ دشمن کی طرف سے فائر آرہا تھا۔ فیض علی نے میجر بھٹی سے کہا۔ سر فائر آرہا ہے۔ نیچے آجائیں!
میجر عزیز نے جواب دیا نیچے سے مشاہدہ نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ یہاں خطرہ ہے لیکن میں مجبور ہوں اس لئے کہ یہاں اس سے زیادہ اونچی جگہ نہیں ہے۔ پٹری پر کھڑے کھڑے چائے پی اور چائے کی پیالی رکھ کر اچانک غلام محمد کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہنے لگے:یار! آپ کو پامسٹری میں بڑی دسترس ہے ذرا میرا ہاتھ تو دیکھیں! آیا میری قسمت میں شہادت بھی ہے یا نہیں ؟
صوبیدار غلام محمد نے دونوں ہاتھوں کا بغور مشاہدہ کیا اور کہا۔ جناب! آپ کی قسمت میں شہاد ت تو ہے۔ مگر وقت کے بارے میں کوئی صحیح اندازہ نہیں لگاسکتا کہ شہادت عمر کے کس حصے میں نصیب ہوگی! میجر بھٹی نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ۔ اور کہا صوبیدار صاحب ! آپ صحیح اندازہ نہیں لگاسکتے مگر مجھے یوں لگتا ہے۔ جیسے میری شہادت دور نہیں !
اتنے میں برکی سے نہر کی طرف بڑھتے ہوئے چند ٹینک نظر آئے۔ ان کے پیچھے پیدل فوج بھی تھی ۔ میجر بھٹی نے ڈگری دے کرفائر کرایا ۔گولہ نشانے پر نہ پڑا۔ دوبارہ میسج پاس کیا ۔ اس مرتبہ گولے صحیح نشانے پر پڑے۔ بڑے خوش ہوئے ۔ دشمن کے ٹینک تباہ ہوئے ۔ توپ خانے کا انچارج کیپٹن انور فائر کروا رہا تھا۔ خوش ہوکر کہا : "ویلڈن انور "! یہ الفاظ ان کی زبان پر ہی تھے کہ سامنے سے ایک گولہ آیا جو ان کے قریب شیشم کے درخت کو قلم کرتا ہوا اینٹوں کے ڈھیر پر گرا جو مورچوں سے نکال کر وہاں اکٹھی کی ہوئی تھیں۔ میجر بھٹی اس جگہ سے بمشکل چندفٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ پٹری پر گردو غبار اُٹھا ۔ ساتھیوں نے سمجھا کہ میجر صاحب زخمی ہوگئے ہیں وہ بھاگ کر آگے بڑھے مگر میجر بھٹی کو خراش تک نہیں آئی ۔ ساتھیوں سے کہا آپ فوراً واپس اپنی پوزیشن لےلیں۔ یہ گولہ میرے لئے نہیں تھا۔ ابھی وہ گولہ بھارت کے کارخانے میں تیار نہیں ہوا۔
صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے ۔ تقدیر میجر بھٹی کے ان الفاظ پر مسکرا رہی تھی۔ وہ دور بین لے کر دشمن کا مشاہدہ کرنے ہی والے تھے کہ اسی لمحہ ٹھوس فولاد کا ایک گولہ ان کے سینے کو چیرتا ہوا دائیں پھیپھڑے سے پار ہوچکا تھا ۔ وہ منہ کے بل زمین پرگرے ۔حوالدار میجر فیض علی اور سپاہی امان خاں دوڑ کر ان کے پاس پہنچے تو فرض شناسی اور شجاعت کا پیکر ، قربانی و ایثار کا مجسمہ اور عسکری تاریخ کا عظیم ہیرو اپنے فرض سے سبکدوش ہو رہا تھا۔
(کالم نگار "عزیز بھٹی شہید " بایو گرافی کے مصنف ہیں۔ جسے پاکستان رائٹرز گلڈ کی طرف سے جنگ ستمبر ادبی انعام سے نوازا گیا )