اس امر سے ہم سب واقف ہیںکہ تیسری دنیا اور بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں سیاسی جماعت کی حکومت کو سیاسی مصلحتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔تقریباََ ستر سال کی تاریخ میں جب بھی سیاسی مصلحتوں اور ضرورتوں کو حکومتوں نے ترجیح دی تو اسکا نقصان اٹھانا پڑا۔یہ درست ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا کوئی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔اور ہر سیاسی جماعت کو اپنی حکومت کو پاپولر رکھنے اور اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اپنے ارکان اسمبلی اور سیاسی اکابرین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا ایک مجبوری بن جاتا ہے۔ارکان اسمبلی، سیاسی اکابرین دیگر سیاسی جماعتیں اسوقت طاقتور ہوتی ہیں جب ان سے اسمبلی میں ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہماری سیاسی تاریخ میں ارکان اسمبلی کے ووٹ اور وفاداری کو قائم رکھنے کیلئے پرمٹ،پلاٹ،ٹھیکے،نقد رقم، رشوت حاصل کرنے والے محکموں میں تعنیاتی ،نئی نوکریاں ،ٹرانسفر ،زمین کی الاٹ منٹ غرض وہ سب کچھ جو کرپشن ،اقرباپروری اور بے قاعدگی کے زمرے میں آتا ہے یہ سب کچھ دیا جاتا رہا ہے۔ہمارے ہاں انتخابی اخراجات کی ایک حد موجود ہے مگر کوئی بھی امیدوار اس کی پروا ہ نہیں کرتا ۔سیاست دان ذاتی جیب سے بہت کم خرچ کرنے کے عادی بن چکے ہیں ۔کروڑوں روپے کے انتخابی اخراجات اٹھانے والے ہر حلقہ میں موجود ہوتے ہیں اور اگر کسی حلقہ میں نہ ہوں تو ملک بھر میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ انتخابی اخراجات اٹھانے والے یہ رقوم کیوں خرچ کرتے ہیں اور ان کے پاس یہ وافر رقوم کہاں سی آتی ہیں ۔یہ بات تو ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ دولت کیسے اکٹھی کی جاتی ہے ۔کرپٹ عناصر با اثر سیاسی شخصیات پر خرچ کرتی ہیں اور پھر سیاسی قوت اقتدار اور اثر کی بنا پر مزید کرپشن کرنے کی راہیں کھل جاتی ہیں ۔اس کام میں سرکاری افسران بھی پوری طرح شریک ہوتے ہیں ۔ملک کے پہلے وزیراعظم سے لیکر آج تک اس کرپشن کو کوئی نہیں روک سکا ،ایمان داری،دیانت،ذمہ داری کا درس تو سبھی نے خوب سنایا ۔ مگر با اثر شخصیات مزید با اثر بنتی چلی جاتی ہیں ۔ایسی ایسی سیاسی شخصیات ایمان داری کا درس دیتی ہیں جو اندرون ملک اور بیرون ملک بھی اپنی کرپشن اور غیرملکی ذرائع سے حاصل کی جانے والی رقوم کی وجہ سے مشہور ہیں۔بعض تو دوسرے ملکوں سے جا کر زکوۃٰ بھی لینے سے گریز نہیں کرتے بظاہر یہ زکواۃٰ فلاح کے کاموں کیلئے لی جاتی ہے مگر استعمال کہاں ہوتی ہے کوئی بتا نے کو تیارنہیں ۔ بظاہر با اصول سیاستدان ایسی بے اصولی کا شکار ہو چکے ہیں کہ اب مزید انحطاط تو ممکن نہیں مگر تباہی ہونا ابھی باقی ہے۔
خان عبدالولی خان نے بھی 79کے انتخابات کے وقت نعرہ بلند کیا کہ انتخابات نہیں احتساب ہونا چاہیے۔ کون ہے جو اس ملک میں احتساب ہونے نہیں دیتا۔ یقینا وہ وسیع تر ذاتی مفاد کے جس کیلئے ملکی مفاد کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتاہے وزیراعظم نواز شریف پر سخت دبائو ہے کہ وہ ملک میں جاری احتسابی نظام کو معطل کر کے اس کو صرف تھانے دار،پٹواری اور سب انجینئر تک محدود کر دیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے بیانا ت اور مطالبات میں یکسانیت بھی ہے اور حصول رعایت کی استدعا بھی۔ یوسف رضا گیلانی تو ضمانت کرواچکے مگر بند کمرے کے مطالبات اور میڈیا کے سامنے ان کے بیانات میں بہت فرق ہے۔گذشتہ حکومت نے کیری لوگربل جس انداز سے تیار کروایا اور جسطرح اس کی ہمارے ملک میں پذیرائی کروانے کی کوشش کی گئی وہ ابھی تک عوام کے ذہنوں میں موجود ہے ۔ کیر ی لو گر بل کے تحت امریکہ رقوم کی ترسیل کیلئے من پسند افراد،اداروں ، شخصیات ، کو منتخب کرنے کی صلاحیت کا مالک ہے اور اگر تحریری طور پر نہ بھی ہو تو کون اس کو روک سکتا ہے۔ہم تو بھارت کو پاکستان میں مداخلت سے نہیں روک سکے امریکہ تو دور کی بات ،وزیراعظم نواز شریف کو زرداری کے بیان پر بہت دکھ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین نے ایسا بیان کیوں دیا۔ کراچی آپریشن کسی تنظیم نہیں صرف دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف ہے اسکو سیاسی رنگ نہ دیا جائے ۔جناب وزیراعظم سے زیادہ اس بات سے کون واقف ہے کہ پیپلز پارٹی اپنا قرض واپس لینا چاہتی ہے اور ایم کیو ایم سے تو وزیراعظم 1988کے بعد سے معاملات طے کرتے آئے ہیں ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات شدت کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ بیرونی اثر کچھ سیاسی شخصیات کو بچانے کیلئے آنا شروع ہو چکا ہے اور ابتک تو حکومتی اور ادارہ جاتی سطحوں پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ احتساب سب کا ہو گا۔اور دودھ کا دودھ۔ پانی کا پانی کر کے سیاسی میدان کو ایک بار پھر سجایا جائے گا اور وہ ہی میدان میں اترے گا جو دودھ کا نہایا ہو گا ۔
جناب وزیراعظم آپ کا ماضی عیاں ہے حق حکمرانی تو آپ ہی کے پاس ہے۔اس کو کوئی چیلنج بھی نہیں کر رہا۔ اگر بجلی کی کمی پورا ہو گئی تو اگلا انتخاب بھی مسلم لیگ ہے جیتے گی ۔مگر یہ تب ہو گا جب مسلم لیگ کے اندر مشاورت کا عمل بھی شفاف اور ریگولر ہو گا۔ اگر آپ کے ساتھی ناراض رہے تو داخلی انتشار آپ کو کسی بھی محاذ پر لڑنے کے قابل نہ چھوڑے گا ۔یہ بات بھی بہت واضح ہے کہ اگر آپ اب سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوئے تو ملک میں جاری تمام انتظامی اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔آصف زرداری نے جنرل کیانی کے ساتھ چھ سال تک معاملات طے کر لئے تھے اسی کے نتیجہ میں پر امن انتقال اقتدار ہوا۔ اور آپ وزیراعظم بن گئے۔ اگر امریکہ یا کوئی اور ہماری راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے تو پھر آپ کو اپنی صفوں کو درست رکھنا ہو گا یہ تاثر کہ اقتدار آپ کے پاس نہیں اس کو بھی ختم کرنا ہو گا کیونکہ ملک کسی ہیجانی کیفیت سے دو چار ہو گا عدم استحکام کا شکار ہو گا اور اگر مشاورت ایسے ہے جاری رہی اور بعض مخصوص بولی بولنے والوں کی زبان بندی کر دی جائے تو میدان سیاست میں کوئی دوسرا پڑائو نہیں ہو گا ۔ تاہم توجہ اس جانب بھی مرکوز کریںکہ ایک بار پھر میدان صحافت میں خون نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے عامل صحافی اگر محفوظ نہ رہ سکے تو افواہیں کسی کو بھی اپنی زد میں لے سکیں گی لہذا مشاورت اور درست اطلاعات دونوںوقت کی ضرورت ہیں اور اسی کے ذریعہ تشہیر بھی ممکن ہو گی۔ اور جناب وزیراعظم انصاف دینا ریاست کا کام ہے انسانوں کا نہیں اور ریاست نے یہ ذمہ داری آپ کے منصب کے سپرد کر رکھی ہے۔ریاست ہوگی تو اقتدار اور عوام دونوں ہوں گے۔