• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدالت عظمیٰ نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور صوبائی اور علاقائی زبانوں کے فروغ کی خاطر چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے منگل 8ستمبر 2015ء کو ایک تاریخ ساز فیصلہ سنادیا۔ عدالت عظمی زندہ باد، فیصلے کے اہم نکات یہ ہیں:۔
(1)آئین کے آرٹیکل 251کے احکامات یعنی اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور صوبائی اور علاقائی زبانوں کے فروغ کو غیرضروری تاخیر کے بغیر فوراً نافذ کیا جائے۔ (2)حکومت کی جانب سے اس عدالت کے روبرو عہد کرتے ہوئے جولائی 2015ء جو اس حوالے سے عمل درآمد کی میعاد مقرر کی گئی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے۔ (3)قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہم ہم آہنگی پیدا کریں۔ (4)تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ (5)بغیر کسی غیرضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے اداروں میں اس آرٹیکل کا نفاذ یقینی بنائیں۔ (6)وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان کے بارے میں حکومتی اداروں کی بلند و بالا سفارشات پر عمل کیا جائے۔ (7)عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے عدالتی فیصلوں یا ایسے فیصلے جو آرٹیکل 189کے تحت ہوں ان کی وضاحت اور ان کا لازماً اردو میں ترجمہ کرالیا جائے (8)عدالتی مقدمات میں سرکار ی محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ عام شہری بھی اس قابل ہوسکیں کہ موثر طریقے سے اپنے حقوق نافذ کرواسکیں (9)اس فیصلے کے اجرا کے بعد اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہل کار آرٹیکل 251کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا اس کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔یہ فیصلہ اردو میں سنایا گیا، یوں عدالت عظمیٰ نے عدل و انصاف اور حق گوئی کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔یہ خاکسار اپنے ہم عمر کالم نگار محترم امر جلیل صاحب کا بڑا احترام کرتا ہے اور ان کے کالم بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہے وہ اردو سے بڑا لگائو رکھتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت وہ یکم ستمبر کا کالم ’’انگریزی سے جان چھڑائو۔ پاکستان بچائو‘‘ رقم کرگئے۔ اس وقت انگریزی کو پاکستان سے نکالنے کی کوئی تحریک نہیں۔ البتہ نفاذ اردو کی تحریک چلی اور عدالت عالیہ نے سترہ سال کے پچکے ہوئے غبارے میں ایسی ہوا بھری کہ سب دنگ رہ گئے۔ اب نفاذ اردو کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ آہستہ آہستہ عظیم عمارت وجود میں آجائے گی۔ موصوف کا یہ استدلال بھی درست نہیں کہ ’’انگریزی زبان بین الاقوامی زبان نہیں ہے۔ یہ شوشا سامراجیوں کا چھوڑا ہوا ہے۔ پاکستان سے باہر آپ کو انگریزی کا نام و نشان نظر نہیں آئے گا۔‘‘
انگریزی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا، آسڑیلیا، نیوزی لینڈ، ناک لینڈ، ویسٹ انڈیز، جمیکا، برطانیہ، مالٹا کے علاوہ دوسرے پچاس ملکوں کی سرکاری زبان ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش کی دوسری اور کاروباری زبان ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی مشترکہ زبان ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ علمی، سائنسی، تکنیکی اور ادبی کتابیں انگریزی میں شائع ہوتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ یونیورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔ جہاں تک بولی کا تعلق ہے تو دنیا میں چینی زبان کے بعد سب سے زیادہ انگریزی بولی جاتی ہے۔ اردو ایک مخلوط زبان ہے۔ اس نے بولی کی صورت میں سرمئی، تلنگی، کوکہنی، ملیالم، تامل کے اشتراک سے کیرالا اور کاررمنڈی کے علاقوں میں عربی اور فارسی کی سنگت سے جنم لیا۔ ابتدا میں اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ یہ اسی صورت میں بہمنی سلطنت میں پہنچی اور اس نےخدم رائو پدم رائو کی مثنوی اور محمود گاواں کے مدرسے کے لئے نصابی صورت اختیار کی جب دکن کی ریاستوں قطب شاہی، عادل شاہی اور دیگر ریاستوں میں پہنچی تو دکھنی یا دکنی کہلائی اور جب شمالی ہند کے علاقوں میں داخل ہوئی تو کھڑی بولی۔ ریختہ اردوئے معلیٰ اور آخر میں صرف اردو کہلائی۔ شمال میں جہاں فارسی رائج تھی اس نے یونانی، پرتگیزی، فرانسیسی، انگریزی، چینی اور جاپانی الفاظ پر قبضہ کیا۔جمیل الدین عالی نے راقم کی کتاب ’’اصطلاحات بینکاری‘‘ کے مقدمے میں بڑی مدلل بات کی ہے ’’دنیا کی کوئی بھی زبان کسی ایک فرد یا معاشرے کی طبع زاد نہیں، ہر زبان افراد کے باہمی ارتباط اور معاملات کی اظہار طلبی نے پیدا کی ہے اس نے طرح طرح کے سفر بھی کئے ہیں سفروں میں دوسرے ساتھی بھی لئے ہیں اور کبھی کبھی دانستہ یا نادانستہ آمیزے بھی پیدا کئے ہیں‘‘۔علما اور دانش ور اس بات پر متفق ہیں کہ ایک بدیسی لفظ کو جب اردو کا جامہ پہنادیا گیا تو وہ لفظ اردو کا ہوگیا پھر اس سے ہر قسم کا اردودانہ سلوک کیا جاسکتا ہے جیسے ڈاکٹر سے ڈاکرنی، ڈاکٹری علاج، ڈاکٹری نسخہ، ڈاکٹری دوا، ’’چائے‘‘ سے چائے دانی، چائے پوش، چائے کی پیالی، چائے پانی، چائے والا بلکہ ’’دودھ پتی‘‘ کی ایک نئی اصطلاح بھی بنالی۔
موصوف نے چند انگریزی الفاظ کی فہرست بھی دی ہے کہ ان کا متبادل تلاش کریں۔ٹکٹ، بس یا اس قسم کے الفاظ اردو میں تقریباً دو سو سال سے مستعمل ہیں اور ان سے ٹکٹ گھر، ٹکٹ منشی، بس کا اڈا، بس کی سواری، بس والا، ریلوے کو ریل کرکے ریل گاڑی، ریل کی پٹری، ریل کا ڈبہ بنالیا ان کو اگر نکال دیا جائے تو ہماری زبان، ہماری تحریریں، ہمارے اخبار، رسالے اور کتابیں سب مہمل ہوجائیں گے۔ انگریزی الفاظ ہماری تحریر میں کیسے رچ گئے ہیں اس کے عملی تجربے کے لئے میں نے یکم ستمبر کے جنگ سے تین کالم چنے اس میں حسب ذیل الفاظ کتنی مرتبہ استعمال ہوئے ہیں ان کی تعداد قوسین میں دی ہے:۔
آپریشن، (2) ایک سرخی بھی ہے، آپریشنل فورس، ایم پی ایز، (2) ایم این ایز (1) اسٹیبلشمنٹ آفیسر (4)الائونس، انفرا اسٹرکچر، ایٹم بم(2) ایجنٹ(2) ایمبولینس، بارڈر (5) بائونڈری لائن، پارٹی یا پارٹیاں (5) پرائمری(3) پرفارم، پریس کانفرنس، پری گروپ، پروفارماپریڈ،ڈپلومیسی، ڈیلنگ، رپورٹ/رپورٹیں (2) انجینئر(2) سرکس، پراکسی وار، سیکورٹی(2) سرویز، سول سروس، سوسائٹی، سول سوسائٹی، شیڈ، فارم، فارمولا، فیکٹریز، فائرنگ(6) کرپٹ(4) کرپٹ اکائونٹ، کرپشن(9) گراف، گورنس(4) کمرشل(3) میزائل(2)، میڈیا(2) نیوز کانفرنس، خود موصوف کے اپنے کالم میں بیشتر جگہ استعمال ہواہے جس پر آپ نے معذرت کی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے الفاظ تین تین مرتبہ سنیٹر،اور یونیورسٹیاں ایک ایک دفعہ استعمال ہوا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی تحریر انگریزی الفاظ استعمال کئے بغیر نہیں لکھی جاسکتی۔ جب اردو کا مکمل طور نفاذ ہوگا تو انگریزی الفاظ سے کافی چھٹکارا مل جائے گا۔ آکسفورڈ اردو انگریزی لغت میں سات سو اردو الفاظ پائے گئے ہیں۔ انگریزی کی تفصیلی لغت ویبسٹر ڈکشنری میں دس ہزار کے قریب غیر انگریزی الفاظ شامل ہیں۔ ان میں اردو، ہندی، سندھی، چینی، آسڑیلیا اور نیوزی لینڈ کے قدیمی باشندوں اور افریقی قبائل کی زبانوں کے چیدہ چیدہ الفاظ شامل ہیں۔ دیسی یا بدیسی الفاظ سے چڑنا نہیں چاہئے۔ اردو کے معقول الفاظ سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔
تازہ ترین