12اگست کے ”جنگ“ میں جناب خورشید ندیم کا کالم ”کیا تقسیم ہند کی بنیاد مذہبی ہے؟ “نظر سے گزرا ،موصوف نے اپنے کالم میں تقسیم ہند کی وجوہات میں موجود مختلف نظریات اور خیالات کا ذکر کیا ہے تاہم پورا کالم بھنور پڑھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ فاضل کالم نگار اپنے کالم کے ذریعے تقسیم ہند کے بارے میں کوئی وجہ یا نظر یہ درست ثابت کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ انکے پورے کالم اور بالخصوص آخری سطور سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جناب خورشید ندیم تقسیم ہند کی بنیاد مذہب ہونے سے اختلاف رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کسی مسئلہ کو اگر الجھانے کے بجائے سلجھانا درکار ہو تو بات کو واضح اور مدلل ہونا چاہئے اسلئے اگر بحث تاریخ اور تہذیب سے ہو رہی ہے تو وجوہات کا جائزہ اور حقائق کا تسلیم کیا جانا اس قدر صاف ہو کہ لکھنے والے کی نیت اور ارادوں کو بھی بآسانی معلوم کیا جا سکے تاہم اگر کوئی مسئلہ پیچیدہ اور بحث خاص نظریاتی بنیادوں پر کی جا رہی ہے تو اسکی وضاحت کو کسی نتیجے پر ختم ہونا چاہئے۔ سب کو ملا کر اور سب کی حوصلہ افزائی کر کے جو صورتحال سامنے آئے گی وہ کبھی بھی قوم کی رہنمائی میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ ایسی تحریریں ذہنی انتشار اور تاریخ سے مصدقہ واقعات کو مشکوک بناتی ہیں۔
14اگست 1947سے14اگست 2008آ چکا، 61ویں یوم آزادی دعاؤں اور حسرتوں کے ساتھ منانے کے بعد قوم محفوظ اور مضبوط پاکستان کیلئے ایک قدم آگے بڑھا چکی ہے۔ نیک تمنائیں اور نیک خواہشات ہر پاکستانی کی پاکستان کے بارے میں ہی ہیں۔ اللہ رب العزت پاکستان کو ترقی وخوشالی و استحکام عطا فرمائے، آمین۔ آدھی صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد تقسیم ہند کی بنیاد پر بحث کرنا کہ وہ مذہبی تھی یا نہیں کسی خاص امتحان ، مضمون یا طالب علم کیلئے تو ضروری ہو سکتی ہے لیکن برصغیر کے مسلمان عوام کے نزدیک اش وقت اس طرح کی بحث یکسر غیر ضروری ہے کیونکہ بلا ضرورت پاکستانی کے نظریاتی تشخص اور دو قومی نظریئے کی ٹھوس وجوہات کو شکو ک وشبہات کے حوالے کرنے کے مترادف ہے تاکہ وہ پاکستانی جو آج ہے اور کل آئے گا وہ اپنے وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کی وجوہات پر مختلف آراء کو اسی طرح سے اہمیت دیتا رہے کہ جس طرح سے تحریک پاکستان کے دوران پاکستان کے حامیوں نے پاکستانی مخالف طبقہ کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔
علامہ اقبال کا خواب ، قائد اعظم کی قیادت اور مفکرین تحریک پاکستان کی نظریاتی فکر تقسیم ہند کیلیے، ”دو قومی نظریئے “ کی جو دلیل سامنے لائے وہ اس قدر ٹھوس اور حقیقت پر مبنی ہے کہ بر صغیر کا وہ مسلمان جو زیادہ سوجھ بوجھ نہیں رکھتا تھا اسے بھی اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ بر صغیر کو ہندو اور مسلم یعنی اسلام اور غیر اسلام کی بنیاد پر تقسیم ہونا چاہئے، بلا شبہ ”دو قومی نظریہ “ یعنی مذہبی بنیادوں پر برصغیر کی تقسیم کی مخالفت کرنے والے ہندوستان کے اندر موجود مسلمان اسکالر اور جید علمائے کرام سمیت ایک بڑی تعداد تھی ۔ مگر یہ تعداد اپنے علم، مرتبہ اور مقام کے باوجود ”دو قومی نظریئے “ کے توڑ کیلئے کوئی ایسی دلیل یا دلائل لانے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ جس سے برصغیر کے مسلمان عوام متاثر ہوتے اور اتفاق کرتے یہاں تک کہ وہ مسلمان جنہیں یقین تھا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان میں نہیں بلکہ ہندوستان میں ہی رہ جائیں گے اور پھر ان کے ایک ہندو مملکت میں نہ ختم ہونے والا ظالمانہ اور متعصبانہ دور شروع ہو جائے گا مگر تب بھی سارے ہندوستان کے مسلمان اسی ایک نعرے سے وابستہ ہو گئے کہ ” بن کے رہے گا پاکستان“ ،پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ “ …تقسیم ہند کے مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے کیلئے کیا یہ ایک نعرہ ہی کافی نہیں کہ:
”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ “ مزید کہ کیا اس ایک نعرے کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا طاقتور نعرہ بھی ہو سکتا تھا کہ جس پر نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت متفق ہو جاتی بلکہ وہ تمام دلائل پر بھی بھاری ثابت ہوتا کہ جو بعض علمائے کرام اور کانگریس کے رہنما پاکستان اور دو قومی نظریئے کے خلاف بڑے زوروشور سے دے رہے تھے…؟ اور پھر کیا یہ ممکن تھا کہ اگر برصغیر کی تقسیم کیلئے ”لا الہ الا اللہ“ کی دلیل نہ ہوتی تو کسی اور دلیل کے ذریعے ہندو اور انگریز جسے شاطر دماغ اور بدنیتی پر مبنی اتحاد کو شکست دی جا سکتی تھی…؟
حقیقت یہ ہے کہ14اگست 1947کے وقت دو قومی نظریہ یا بالفاظ دیگر مذہب کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم جس قدر درست تھی، آج بھی اسی طرح سے درست ہے۔ تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے کے تحت جموں و کشمیر کا فیصلہ نہیں ہونے دیا گیا تو آج 61برس ہونے کو آئے مگر مقبوضہ وادی کے عوام نے بھارت کی بالا دستی یا ہندوستانی ایک قوم کے نظریئے کو 61دن کیلئے بھی تسلیم نہیں کیا، اور نہ ہی بھارت نے61برس میں61گھنٹوں کیلئے بھی مقبوضہ وادی میں اپنے ظلم اور بربریت میں کوئی وقفہ کیا… یہ ثبوت ہے کہ بھارت نے برصغیر کی ”مذہبی تقسیم“ کو نہ ماننے کی جو غلطی کر رکھی ہے، وہ ایک ناسور سے کینسر بنتی جا رہی ہے جو با لآخر بھارت ماتا کے وجود کو تباہ کر سکتی ہے۔ بھارت کو اپنی اس غلطی کا احساس اور ازالہ کرنا چاہئے نہ یہ پاکستان کے اندر بھی کوئی شخص ایسا ہو کہ جو ایسی غلطیوں کی حوصلہ افزائی کرے یا یہ کہ ”اکھنڈ بھارت“ کیلئے بڑے محتاط طریقے پر راہ ہموار کرنے کی کوشش کرے۔
جوگی سانپ دیکھ کر نہیں اسکی لکیر دیکھ کر پیچھا کرتے ہیں جبکہ ہم بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کے اندر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو مختلف حوالوں اور آزادی اظہار کے نام پر ہندوستان کی مذہبی تقسیم کو غلط اور پاکستان کے نظریاتی تعارف کو مسخ کرن کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جبکہ اب بھی قومی اسمبلی کے دروازے پر لکھے ہوئے کلمہ طیبہ کی تحریر پڑھتے وقت کچھ لوگوں کی زبان گنگ اور آنکھیں دکھنے لگتی ہیں ۔تاہم ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ مٹھی بھر لادین اور رتی بھر روشن خیال پاکستان کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں…؟ ہمارا تو اس بات پر یقین اور ایمان ہے کہ پاکستان کی مضبوط بنیاد اور شاندار مستقبل ”اسلام“ ہی سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی تجویز، بحث اور نظریہ بتایا جائے گا وہ غلط اور قابل مذمت ہو گا۔ شہادت سے ہجرت تک پاکستان کیلئے دی جانے والی بے شمار اور لازوال قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کا سہارا اور عالم اسلام کا مضبوط قلعہ ہے، اسکی دیواروں کے سائے اور جھنڈے تلے دنیا کے مسلمان اطمینان اور تقویت محسوس کرتے ہیں۔ پڑوس سے لیکر سات سمندر تک موجود سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کی راہ میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس پاکستان کو جو درحقیقت ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے ایک مکمل اسلامی ریاست بنانا، خوشحال کرنا، ترقی دینا، مضبوط اور محفوظ رکھنا ہم سب کا فرض ہے… اسلام زندہ باد، پاکستان پائندہ باد