• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ چند منٹ کی ویڈیو ہے جس نے پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ پہلے پہل ہم نے یہ ویڈیو انگلستان میں دیکھی تھی۔ بہت اچھی لگی تھی مگر پھر اسے بھول گئے تھے۔ واپس پاکستان آئے تو حیران ہوئے کہ یہ تو کسی وبا کی طرح دونوں ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں، خوش ہو رہے ہیں اور اسے اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو بھی بھیج رہے ہیں۔ ہمیں بھی اتنے دوستوں نے یہ ویڈیو بھیجی ہے کہ ان کے نام بھی یاد نہیں رہے۔ ویڈیو کا نام ہے ’’ایسی تیسی ڈیموکریسی‘‘۔ پہلی بار ہم نے یہ نام پڑھا تو جہاں حیرت ہوئی وہاں غصہ بھی آیا کہ یہ جمہوریت کو برا بھلا کیوں کہا جا رہا ہے۔ جمہوریت نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ یہ کہیں آمریت کے دلدادہ لوگوں کی شرارت تو نہیں ہے؟ کہیں یہ لوگ یہ تو نہیں چاہتے کہ جمہوریت کو بدنام کر کے آمریت کے لئے راستہ صاف کیا جائے؟ اس حیرت اور غصے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہ ویڈیو ہندوستان کے چند دوستوں نے مل کر بنائی ہے۔ ہمارے ہاں تو خیر، جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتی رہی ہے، اور بھاری بھرکم آمریتوں کے درمیان لاغر و ناتواں جمہوریت کے نام پر ماندگی کا جو وقفہ آتا رہا ہے اس بنا پر ہم جمہوریت کا مذاق اڑاتے برے نہیں لگتے۔ مگر ہندوستان میں تو اندرا گاندھی کی تھوڑی سی ایمرجنسی کے وقفے کے سوا کبھی جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچا۔ وہاں لولی لنگڑی جیسی بھی ہے جمہوریت ہی پروان چڑھتی رہی ہے۔ پھر وہاں جمہوریت کی ایسی تیسی کیوں کی جا رہی ہے؟ لیکن جب ویڈیو دیکھی اور اس کا گانا سنا تو ویڈیو بنانے والوں کو داد دینا پڑی کہ وہ تو سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ گانا کیا ہے۔ کھچڑی بالوں اور خشخشی داڑھی والے ایک صاحب گٹار بجا رہے ہیں اور گا رہے ہیں
مرے سامنے والی سرحد پر کہتے ہیں کہ دشمن رہتا ہے
پر غور سے دیکھا جب اس کو وہ اپنے جیسا دکھتا ہے
جی، یہ سرحد پار بیٹھا دشمن اپنے جیسا کیوں دکھائی دیتا ہے؟ ویڈیو میں اس کی مثالیں دے دی گئی ہیں۔ دونوں ملکوں کا موازنہ کیا گیا ہے اور دونوں کے درمیان موجود مماثلت بیان کی گئی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ادھر بھی ہے اور ادھر بھی۔ فرقوں اور ذات پات کا تفرقہ وہاں بھی ہے اور یہاں بھی۔ وہاں بھی جھوٹے سچے الزام لگا کر لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور یہاں بھی۔ نفرت کے بیج وہاں بھی بکھرے پڑے ہیں اور یہاں بھی۔ یہاں بھی مذہبی حوالوں سے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اور وہاں بھی۔ وہاں گئو ماتا کے تحفظ کے نام پر دوسرے فرقے کے گائوں کے گائوں نذر آتش کر دیئے جاتے ہیں تو یہاں بھی’ کسی ‘اور نام پر یہی کام کیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کا حال وہاں بھی برا ہے اور یہاں بھی۔ یہ گانا سن کر ہمیں ایک بار پھر ایرانی فلم The President یاد آگئی۔ اور یاد آئی اس فلم کے پروڈیوسر ڈائریکٹر اور کہانی نویس محسن مخمل باف کی یہ بات کہ جمہوریت عام انتخابات کا نام نہیں ہے۔ جمہوریت نام ہے ذہنیت کی تبدیلی کا، ذہن سازی کا ۔ جمہوریت نام ہے فراخ دلی اور کثیر المشربی کا۔ ہر مذہب، ہر مسلک اور ہر فرقے کی آزادی کے احترام کا۔ جمہوریت اکثریت کی آمریت کا نام نہیں ہے کہ آپ نے انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی، اس کے بعد آپ جو چاہے کرتے پھریں۔ ویڈیو بنانے والے اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد جمہوریت کی ایسی تیسی ہی کی جا رہی ہے۔ اب وہاں ہندو راج نافذ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ سے مسلمانوں کا حصہ ہی نکال دیا جائے۔ دہلی میں اورنگ زیب روڈ کا نام بدل دیا گیا ہے۔ چلئے، اسے ایک اور مسلمان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ لیکن شاہجہاں روڈ کا نام بھی بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہاں کسی ہندو سورما کا نام لگایا جائے گا حتیٰ کہ اورنگ آباد شہر کا نام بھی شیواجی کے کسی بیٹے کے نام پر رکھنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مانے لیتے ہیں اورنگ زیب کی حکم رانی اچھی نہیں تھی اور مغل سلطنت کا زوال وہیں سے شروع ہوا مگر وہ تاریخ کا حصہ تو ہے۔ اور یہ سب جمہوریت کے نام پر کیا جا رہا ہے،کیونکہ مودی جی عام انتخابات میں عوام کی اکثریت کے ووٹ لے کر حکومت میں آئے ہیں۔ اب یہ جمہوریت ہے یا اکثریت کی آمریت؟ ویڈیو بنانے والے یہ سوال کر رہے ہیں۔
اور یہ کام پاکستان میں تو بہت پہلے شروع ہو چکا ہے۔ ہم نے اپنی ہزاروں سال کی تاریخ کے ساتھ جو کیا ہے اس کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ تاریخ کے نام پرہم ایسی ایسی دور کی کوڑی لا رہے ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ہمارے بچوں کو مطالعہ پاکستان کے نام پر جو پڑھایا جا رہا ہے اس سے ان کے اندر رواداری اور روشن خیالی پیدا ہو نے کے بجائے تنگ نظری، کوتاہ فہمی اور دوسروں سے نفرت ہی پیدا ہو رہی ہے۔ پڑوسیوں سے نفرت تو جیسے ہماری گھٹی میں ڈال دی گئی ہے۔ چلئے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ہمارے مطلق العنان آمروں کا ہاتھ بھی ہے۔ مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری جمہوری حکومتوں نے کیا کیا؟ وہ بھی تو اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ وہ بھی تو محض اس لئے آتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی مدت پوری کی جائے۔ اور کسی ایسے کام پر ہاتھ نہ ڈالا جائے جس سے با اثر طبقہ ناراض ہو جائے۔ یہ با اثر طبقہ کون ہے؟ یہ آپ جانتے ہی ہیں۔ یہ جمہوری حکومت نہیں ہوتی چند عزیزوں، رشتے داروں اور دوستوں کی حکومت ہوتی ہے۔ اس لئے اگر ویڈیو میں اس جمہوریت کی ایسی تیسی کی گئی ہے تو شاید غلط نہیں کی گئی۔ اول تو امید ہے کہ آپ نے فیس بک پر یہ ویڈیو دیکھی ہوگی۔ اگر نہیں دیکھی تو ضرور دیکھئے۔ ہماری طرح آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے۔ اب جی تو چاہتا ہے کہ اس ویڈیو کا پورا گانا یہاں نقل کر دیا جائے مگر فساد خلق کا ایسا خوف ہے کہ ہم یہ جرأت کر ہی نہیں سکتے۔ اس میں کئی باتیں ایسی ہیں جو کچھ لوگ پسند نہیں کریں گے۔ اور ہمیں اپنی جان پیاری ہے۔ جی ہاں، ہمیں یہ خوف اس وقت ہے جب ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔ ہم جمہوریت کی ایسی تیسی تو نہیں کہیں گے مگر یہ ویڈیو بار بار ضرور دیکھیں گے۔
اب ویڈیو اور گانے کا ذکر آیا ہے تو ایک ایسے دوست کا شکریہ بھی ادا کر دیا جائے جو ہمیں روحانی غذا فراہم کرتے رہتے ہیں۔ یہ دوست ہیں ڈاکٹر کھٹو مل۔ ہمارے سندھ کے رہنے والے ہیں۔ نہایت ہی باذوق انسان ہیں۔ ان کے پاس اردو، پنجابی، سندھی اور سرائیکی کے کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گانوں کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ اس میں آپ نئے اور پرانے فلمی گانے بھی شامل کر لیجیے۔ یقیناً ایسے خزانے اور اصحاب کے پاس ہیں مگر وہ کسی اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے۔ ہمارے ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں خاصے فراخ دل ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کو ہر روز ہی نئے پرانے گانے بھیجتے رہے ہیں۔ ایسے ایسے گانے جن کے بارے میں ہم سوچتے ہی رہتے تھے کہ انہیں کس طرح حاصل کیا جائے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ڈاکٹر صاحب نے یو ٹیوب کی کمی پوری کر دی ہے۔ یہ انمول خزانہ یو ٹیوب پر موجود ہے۔ اور سب کے لئے ہے۔ مگر ہماری حکومت نے ہمیں اس سے محروم کردیا ہے۔ حکومت کو سمجھایا بھی جا رہا ہے کہ جس جرم میں یو ٹیوب پر پابندی لگائی گئی ہے وہ سب چیزیں دوسری ویب سائٹس پر بھی موجود ہیں۔ اور جو لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
ان کے عقائد اتنے کمزور نہیں ہیں کہ وہ ایسی چیزیں دیکھ کر گمراہ ہو جائیں۔ یہ تو دیکھنے والے پر ہے کہ وہ کیا دیکھتا ہے اور کیا نہیں دیکھتا بلکہ اگر غور کیا جائے تو آپ کسی کتاب، کسی فلم یا کسی سائٹ پر پابندی لگا کر لوگوں کا تجسس اور بڑھا دیتے ہیں۔ پہلے اگر وہ نہ بھی دیکھ رہے ہوں تو پابندی کے بعد کسی نہ کسی طرح اسے دیکھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ دیکھیں گے کہ آخر اس میں ایسی کیا بات ہے کہ اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔ وہی بچوں والی ضد، کہ جس کام سے بچے کو روکا جاتا ہے بچہ وہ ضرور کرتا ہے۔ مگر حکومت کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے۔
اب حکومت کے کارندے تو شاید نہ جانتے ہوں مگر بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ یار لوگوں نے یوٹیوب تک پہنچنے کے راستے بھی نکال لئے ہیں۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ اب کسی انا کے بغیر یوٹیوب کھول دے۔ ہم ایک ہندوستانی فلم ’’لائف ان میٹرو‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ فلم پاکستان میں ریلیز نہیں ہو گی۔ اس کا ایک گاناہم نے سنا ہے اور وہ ہمارے دماغ میں گونجتا رہتا ہے۔
تازہ ترین