• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور حکومتی ڈھنڈورچی مصر ہیں کہ ملکی معیشت خوشحالی کا موڑ مڑ چکی جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں بلکہ بد سے بدتر ۔ میں اس سلسلہ میں اعداد و شمار پیش کرتے کرتے خود بیزار ہوگیا ہوں لیکن یہ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے بور نہیں ہوتے تو انہیں جان لینا چاہئے کہ گوئبلز گینگ کے سارے گپی، جھوٹے، چرب زبان اکھٹے ہو کر بھی کسی بھوکے کو اس پر قائل نہیں کرسکتے کہ اس کا خالی پیٹ بھرا ہوا ہے لیکن جھوٹ  اگرDNAمیں شامل ہو تو ظاہر ہے اس کا کوئی علاج نہیں۔اس سے بڑا ثبوت کیا کہ خود آئی ایم ایف کے سربراہ نے کہا کہ’’کرپشن کے باعث سرمایہ کار پاکستان نہیں آتے اور ہر سال20لاکھ بے روزگاروں کا اضافہ ہورہا ہے اور قرضوں پر سود ترقیاتی پروگرام سے بھی زیادہ ہے‘‘۔زہریلا ترین سچ یہ کہ پاکستان کی معیشت کوئی چاہے بھی تو بہتر ہوہی نہیں سکتی کیونکہ جس برتن کا پیندا ہی نہ ہو اسے سمندر بھی نہیں بھرسکتے اور پاکستان کے اقتصادی برتن میں تو چھیدوں کے سوا ہے ہی کچھ نہیں ۔ اوپر سے لے کر نیچے تک سب کچھ چھیدوں چھید ہوچکا۔ کیا ہم پاکستانی نہیں جانتے کہ ہمارا کوئی شعبہ اس مہلک ترین مرض سے محفوظ نہیں۔ ایسے حالات  میں تو کوئی جینئس اور جینوئن ترین ماہر اقتصادیات بازی نہیں پلٹ سکتا، سمدھی سرکار المعروف اسحق ڈار کس شمار قطار میں۔ابھی ایک روز پہلے میں ٹی وی پرسن رہا تھا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ سندھ میں کروڑوں روپے کھائے گئے۔ میں بہت خوش ہوا کہ مدتوں بعد کروڑوں کی حرام خوری سنی ورنہ اب تو ہر کیس ہی اربوں روپے کا ہوتا ہے،ا گر ہم پاناما کو اک علامت کے طور پر استعمال کریں تو میں کچھ یوں عرض کروں گا کہ پانامائوں کی سرپرستی میں پاکستانی معیشت میں مثبت تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ میرے ذہین قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ میں عرصہ دراز سے نیب کے پلی بارگین کلچر کا ذکر کتنی نفرت اور کراہت سے کررہا ہوں۔ اب تو سپریم کورٹ سے بھی یہ صدا سنائی دے رہی ہے کہ’’نیب بازار میں کھڑا آوازیں دے رہا ہے کہ کرپشن کرلو، رضارانہ واپسی کرالو۔ نیب وہ کررہا ہے جس کی عدالت بھی مجاز نہیں یعنی کافی پیو، سارا معاملہ سیٹ کرلو اور نوکری پر واپس جائو۔ پلی بارگین کا قانون بنانے والوں کو شرم نہیں آئی‘‘۔قارئین!مندرجہ بالا چند جملے وہ کوزے ہیں جن میں دریا نہیں، سمندر بند ہیں۔ یہ جملے نہیں دراصل پاکستان کی اقتصادی اور اخلاقی تباہی و بربادی کی المناک داستان کا خلاصہ ہے۔ اللہ کا شکر سپریم کورٹ نے نیب کو اس قسم کے عجیب و غریب اختیارات سے روک دیا ہے۔ اب عدالت اسے آئین کی کسوٹی پر پرکھے گی تو نتیجہ بھی دیکھ لیں۔ میں نے متعدد بار لکھا کہ نیب کا یہ رویہ، طریقہ کرپشن کو پروموٹ اور پروٹیکٹ کرنے کے مترادف ہے اور اس طرح یہ ادارہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی کرپشن کے لئے اکسارہا ہے۔مختصراً یہ کہ جب تک کرپشن کلچر کا خاتمہ نہیں ہوتا، جب تک کرپشن ’’وے آف لائف‘‘ کے طور پر معاشرہ میں موجود ہے، پوری دنیا کے خزانے بھی پاکستانی معیشت میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکتی۔ میں نے یہ بات ہمیشہ بہت سوچ سمجھ اور ناپ تول کر لکھی اور بولی ہے کہ .....ایک سو ایک سی پیک بنالو، پاکستان کے ہر شہر سے تیل نکل آئے تب بھی نہ معیشت تبدیل ہوگی نہ پاکستانیوں کے حالات میں کوئی بہتری آئے گی، کیونکہ کرپشن کا عفریت سب کچھ نگلتا جائے گا کیونکہ اس عفریت کا کمال یہ ہے کہ جیسے جیسے اس کا پیٹ بھرتا جاتا ہے، ویسے ویسے ہی اس کی بھوک میں شدت بڑھتی جاتی ہے۔ نتیجہ میں پانامے پھیلتے جاتے ہیں اور عوام کو پیٹ سکڑتے جاتے ہیں، خط غربت پرہجوم بڑھتا جاتا ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹر ، بستر، دوائیں کم ہوتی جاتی ہیں، سکولوں میں اڑتی خاک آندھیوں میں تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن پہلی مبارک یہ کہ عوام سے لے کر عدلیہ تک کرپشن پر فوکس انتہائوں کو چھوتا دکھائی دیتا ہے۔اچھی خبروں کو ترسے ہوئے عوام کے لئے دوسری مبارکباد یہ کہ عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کو فون کیا اور عوامی تحریک عمرانی لاک اپ اور دھرنے میں شرکت پر آمادہ ہوگئی۔ اس سلسلہ میں شیخ رشید نے تاریخی کردار ادا کیا جس پر وہ بھرپور ستائش کے مستحق ہیں اور ڈاکٹر قادری کا تو باقاعدہ شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ آپ نے عوام کو بہتری اور بھلائی اور اپنی انا پر ترجیح دی۔ عمران نے بھی ڈاکٹر صاحب سے معذرت کرکے عالیٰ ظرفی اور گریس کا ثبوت دیا۔میری دعا ہے کہ عفرتیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابل عوام، عمران اور علامہ صاحب کا یہ اتحاد کامیاب و کامران ہو تا کہ واقعی ا ک نیا پاکستان نئے عزم کے ساتھ نئے سرے سے نئی منزلوں اور بلندیوں کی طرف گامزن ہوسکے ورنہ ہمارے بار بار آزمائے ہوئے حکمران تو ہمارے راستے بھی چاٹ گئے، سفر بھی لوٹ لے گئے اور منزلیں بھی کھاگئے۔ 





.
تازہ ترین