• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کی، ممکنہ کرپٹ حکمرانوں کے خلاف جنگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس مقدس جنگ میں ان کے دائیں بائیں جانب کون لوگ ہیں خود دیکھ لیں۔
مکار بھارت کی کوئٹہ میں سرجیکل اسٹرائیک نے ساری رات نیند اچاٹ رکھی۔ دشمن سفاک، مکار، کمینہ، بزدل اور بے ہمت، تب ہی تو پارکوں، اسکولوں، ہسپتالوں، تربیتی مراکز، بازاروں، میدانوں میں بم پھاڑ رہا ہے۔ کوئٹہ میں سریاب پولیس ٹریننگ سینٹر کے ہاسٹل میں سوئے نہتے نوجوانوں پر بزدلانہ حملہ یہی کچھ نقش کر گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا بیان کہ ’’4دن پہلے ہمیں ایسی دہشت گردی کی اطلاع مل چکی تھی‘‘ تکلیف اور افسوس کہ تکنیکی طور پر صوبہ کے انتظامی اور سیکورٹی معاملات جن کے پاس ہیں وہ غور فرمائیں کہ اس اہم جگہ پر فول پروف بندوبست کیوں نہ ہو پایا؟ کوئٹہ جیسی حساس جگہ پر ایسی کمزوری اور لا پروائی کیوں؟ ذمہ دار کون؟ پچھلے 15سال سے پاکستان پر سلگتی آگ برسائی جا رہی ہے۔ مرحوم جنرل حمید گل کی تاریخی پیشین گوئیاں، انمٹ خیالات و کلمات ہی تو تھے۔ امریکہ میں سانحہ 11ستمبر2001 پر جو کچھ کہا حرف حرف سچ، ’’سانحہ نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ جبکہ پاکستان نشانہ ہے‘‘۔ وہ دن اور آج کا دن، امریکہ اور بھارت یکسوئی سے پاکستان میں کشت و خوں اور متشددانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ مقصد ایک کہ خطے میں مخصوص ایجنڈا نافذ ہو سکے۔ چین اور روس کی ممکنہ ابھرتی طاقتوں کو لگامیں ڈالنا مقصد تھا۔ افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات بمعہ فاٹا کو امریکی اثر و رسوخ اور تسلط کے نیچے ہونا تھا۔ بھارت کی صورت میں ایسا اتحادی ملا، جس کا دائمی مقصد پاکستان کو برباد کرنا ہے۔ ڈرون حملوں سے لے کر دونوں اطراف پاک سرحدوں کی خلاف ورزی، خود کش حملے، بم دھماکے، دہشت گردی، باہمی تفرقہ بازی و تصادم، سیاسی خلفشار اور انتشار غرضیکہ انارکی، افراتفری، نفسا نفسی کا بازار گرم رکھنے کی ہر کوشش روا رکھی گئی۔ خاطر خواہ کامیابی بھی رہی۔ مغربی سرحدوں کی صورت حال اور اندرون ملک دہشت گردی نے پاکستان کو مجبور کیا کہ امریکی جنگ کو اپنائے۔ پہلا نقصان، لائن آف کنٹرول (کشمیر) اور مشرقی سرحدوں سے پاک فوج کا بڑا حصہ قبائلی علاقہ جات، سوات، بلوچستان، کراچی اور افغان بارڈر منتقل کرنا پڑا۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ نے قبائلی اور شمالی علاقہ جات پر اثر ورسوخ بڑھایا، واحد مقصد چین کا محاصرہ اور باہر نکلنے کے راستے مسدود رکھنا تھا۔ اللہ کی اپنی اسکیم، ٹھیک 15سال بعد، آج چین موثر عالمی طاقت کے طور پر بذریعہ اقتصادی راہداری براستہ گوادر اور ایران پوری دنیا کے ساتھ منسلک ہونے کو ہے۔ دوسری طرف تحریک آزادی کشمیر نے بھارت کے چھکے چھڑوا رکھے ہیں۔ آفرین! پاک فوج پچھلے 15سال سے امریکہ، بھارت اور طفیلی ممالک وغیرہ جیسے کمینے دشمنوں سے چومکھی لڑنے میں مصروف ہے۔ دہشت گردی کے ناسور کو محدود سے محدود تر کر چکی ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ معمول رہا۔ البتہ 2013کے الیکشن بظاہر سیاسی چین اور آسودگی لائے، تمام فریقوں نے نتائج بھی قبول کیے۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلز پارٹی، KP میں تحریک انصاف اور اتحادی جبکہ بلوچستان میں تمام اداروں نے مل کر حکومت تشکیل دی۔ چند ماہ بعد وزیراعظم درجن بھر مصاحبین کے جلو میں اپوزیشن لیڈر عمران خان کے گھر بنی گالہ تشریف لے گئے۔ پرتپاک، شایان شان استقبال ہوا۔ کئی گھنٹے بے تکلف گپ شپ نے ماحول گرمائے رکھا۔ سب اچھا کی رپورٹ تھی۔ کیا افتاد آن پڑی کہ ٹھیک ایک ماہ بعد اپریل 2014میں، عمران خان نے الیکشن دھاندلی پر علم بغاوت بلند کر دیا۔ نوازشریف کا استعفیٰ لینے اسلام آباد پر چڑھ دوڑے۔ آج پھر ویسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اس وقت بھی بلندوبانگ دعوے ایسے ہی تھے ۔ دعویٰ کہ10لاکھ افراد نکلیں گے۔ دو لاکھ موٹر سائیکل سوار اپنے شناختی کارڈ جمع اور رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔ امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا یقین تھا۔ خام خیالی بھی ایسی کہ اسلام آباد پہنچیں گے تو نوازشریف استعفیٰ دے کر دم دبا کر بھاگ نکلیں گے۔ شیخ چلی کا اثر نمایاں، شیخیاں بکھیرتے، دوردور نکل گئے۔ اسلام آباد پہنچے تو گنتی کے چند ہزار پورے نہ ہو پائے۔ اعلان جاری رکھا کہ ’’اگر نواز شریف نے استعفیٰ نہ دیا تو وزیراعظم ہائوس گھس کر دستخط کروائیں گے‘‘۔ عوام الناس کو گیس، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، ٹیکس، ٹول پلازہ فیس سے انکار، ہنڈی کے استعمال کی تلقین، غرضیکہ ریاست کے خلاف بغاوت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نوازشریف کا استعفیٰ کیا ملتا، جوڈیشل کمیشن کے فیصلہ نے ندامت، ناکامی کے سوا کچھ بھی نہ دیا۔ اپنی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ البتہ ساری محنت مشقت کا ایک فائدہ ضرور ہوا اور شاید یہی مطمح نظر کہ چینی صدر کا 15 ستمبر کا ممکنہ دورہ پاکستان ملتوی کروانے میں کامیاب رہے۔ آج پھر خم ٹھونک کر طارق بن زیاد کی نقل کر رہے ہیں۔ کشتیاں جلانے کی تلقین فرما رہے ہیں۔ باسی کڑی سہی، ماننا ہو گا کہ ابال نیا ہے۔ پانامہ لیکس ہیجانی، ہذیانی کیفیت میں پھر سے دھکیل چکی ہیں۔ کرپٹ لوگوں کو انصاف کی الماریوں میں سجائے، اپنی تلاشی دیئے بغیر نوازشریف کی تلاشی پر اصرار، سعی لاحاصل ہی رہنی ہے۔
مضحکہ خیز اتنا ہی کہ ہر کرپٹ دوسرے کو کرپٹ کہہ رہا ہے۔ چنانچہ کرپٹ لوگوں کے سنگ کرپشن کے خلاف جنگ سنجیدگی سے نہیں لی جا سکتی۔ یہ یقیناً معاملہ کچھ اور ہے۔ پچھلی دفعہ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا۔ آج ملک میں انارکی، افراتفری، باہمی تصادم، خلفشار، انتشار بڑھا تو نہ صرف اقتصادی بحالی اور اس سے بڑھ کر پاک چین اقتصادی راہداری کی راہ میں روڑے، پتھروں کا پہاڑ بننا لازم ہے۔ شاید عمران خان یہ کام شعوری طور پر نہ کر رہے ہوں۔ ہمیشہ لکھا ہے کہ ایسے حربے اور طریقے جناب کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ 2 نومبر کا جھٹکا، جناب کی سیاست نہیں سہہ پائے گی۔ عمران خان قانون شکنی، مایوسی، نامرادی، ناکامی میں آخری بلکہ ہر حربہ آزمانے پر تل چکا ہے۔ سیاست، پارٹی دائو پر لگ چکی ہے۔ دبائو اور فرسٹریشن کی انتہا کہ بڑے سے بڑے جھوٹ، تہمت کا سہارا لینے میں کوئی عار نہیں۔ فرمودات سنیں ’’نوازشریف کے خلاف جب بھی کوئی ایکشن لیتے ہیں، بھارت لائن آف کنٹرول پر گڑبڑ شروع کر دیتا ہے۔ نوازشریف بھارتی اسرائیل فوج کے ساتھ مل کر پاک فوج کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں‘‘۔ کیا انداز بیان ہے۔ شاید سانحہ کوئٹہ کی ذمہ داری بھی نوازشریف پر ڈال دیں۔ کرپشن کے خلاف جنگ میں کون ان کے سنگ ہے۔ حد ہوگئی کہ آج پورا ملک سوگ اور تکلیف میں،لال حویلی سے آج صبح بھی جیو ٹی وی کے مارننگ شو میں بغیر ملال و رنج، 2نومبر کی افادیت بتا رہے تھے۔ یقیناً کوئٹہ کا سانحہ بھی عمران خان کے علم بغاوت میں حائل نہیں رہے گا۔ بعینہٖ جیسے بھارت کی لائن آف کنٹرول پر جاری جنگ 3ستمبر کے رائے ونڈ مارچ کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ دوسری طرف نوازشریف کابھی کچھ نہ بگاڑسکی۔
2 نومبر سے پہلے یا بعد نوازشریف کی موجودگی یا برخواستگی، عمران کی سیاست کا معذور ہونا، دیوار پر کندہ ہو چکا۔ عمران خان! وقت آپ کی طرف نہیں۔ ’’اللہ کی چالیں‘‘ بھی آپ ہی کو ڈھیر کر رہی ہیں۔ بے شک انارکی، افراتفری، باہمی تصادم، خلفشار، بغاوت کے لیے تن من دھن سب کچھ دائو پر لگا دو۔ امریکہ اور بھارت بھی پچھلے 15سالوں سے اسی محنت میں کوشاں ہیں۔ کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ پاکستان نے ساتویں آسمان کو چھونا ہی ہے، اِن شاء اللہ۔ اقتصادی حالت (اندھے، گونگے، بہروں کی بات کچھ اور) پچھلے سالوں سے قدرے بہتر ہی تو ہے۔ چین گوادر پر براجمان، پاکستان چین یکجان ہو چکے۔ پاکستان کے دشمنوں کی قسمت میں ناکامی ونامرادی (اِن شاء اللہ) لکھی جا چکی ہے۔





.
تازہ ترین