• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلی بارگین، تفصیلات پیش کرنیکی عدالتی ہدایت کے بعد نیب میں کھلبلی

کراچی (اسد ابن حسن) سپریم کورٹ کی گزشتہ دس برس میں پلی بار گین کی تفصیلات عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کے بعد نیب میں کھلبلی مچ گئی۔ نیب اگرچہ دس برس کا ریکارڈ پیش کرے گا مگر 2006ء سے پہلے جو پلی بار گین بڑے بڑے مگرمچھوں کے ساتھ ہوئی اس میں صرف 4 یا 5 کیسز میں کرپشن کی رقم کئی ارب روپے تھی جبکہ ان کیسز میں صرف چند کروڑ روپے جمع کروائے گئے اور باقی رقم وصول نہ ہوسکی۔ ’’جنگ‘‘ کو ملنے والی دستاویزات میں ہوشربا اور مضحکہ خیز حقائق سامنے آئے ہیں جس کے مطابق دس برس میں اربوں روپے کی کرپشن میں کروڑوں روپے وصول ہوئے اس عرصے میں نیب نے 1063 ریفرنس میں پلی بار گین کی۔ اس عرصے میں ہوشربا کرپشن اور بدعنوانیاں اور ادائیگیاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس عرصے میں درجنوں ایسے ریفرنس بھی دائر کیے گئے جس میں رقم صرف تین سے چار ہزار روپے تھی۔ بہت سے ریفرنس میں مجرم کا نام تو ہے مگر وہ کالم خالی رکھے گئے ہیں جس میں الزام، اصل کرپشن کی رقم کا تخمینہ اور کتنی کرپشن کی رقم ثابت ہوئی شامل ہیں۔ ایک ایسے ہی ریفرنس میں 75 لاکھ کی ادائیگی کی گئی اور اس سے بخوبی اندازہ لگایا گیا کہ کرپشن کی اصل رقم بہت زیادہ تھی۔ فہرست کے مطابق سب سے زیادہ کرپشن کی رقم رؤف انٹرنیشنل ایڈوائزری سروسز کے ہارون احمد کے کھاتے میں رہی جو 2 ارب 55 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی اور اس میں ادائیگی ساڑھے 20 کروڑ وصول ہوئی۔ فہرست کے مطابق 2006ء سے 2015ء میں ریفرنس کس شہر میں بنایا گیا وہ تحریر ہے۔ ان کی تعداد 587 جبکہ 476 پلی بار گین یکم جولائی 2015ء سے 30؍ جون 2016ء میں ہوئیں مگر اس فہرست میں شہروں کا کالم ہے اور نہ ہی کرپشن کی مجموعی رقم کا کالم۔ دستاویزات کے مطابق 587 پلی بار گین کی فہرست جس میں شہروں کا کالم موجود ہے اس میں لاہور سرفہرست ہے جس کی تعداد 183، راولپنڈی 115، پشاور 103، کراچی 88۔ کے پی کے 62، کوئٹہ 32 اور بلوچستان 3 شامل ہیں۔ دستاویزات میں موجود کرپشن کی رقم اور ادائیگیاں اور ان کی چیدہ چیدہ تفصیلات کچھ یوں ہے، 2007ء میں عمران حنیف کے خلاف ریفرنس کی تیاری، الزام عوام کے ساتھ فراڈ، رقم 15 ہزار 640 روپے، 2006ء میں کراچی میں واقع صدر کوآپریٹو مارکیٹ میں دکانوں کی غیرقانونی تعمیر اور الاٹمنٹ پر 19 ریفرنس، کرپشن کی رقم کروڑوں میں پلی بار گین لاکھوں میں، ایک سرکاری بینک کے سابق منیجر اور دیگر کے خلاف 11 ریفرنس بنائے گئے جس میں ایک ریفرنس کرپشن کی رقم ڈھائی ہزار، دوسرے میں سات ہزار، 16 ہزار، 9 ہزار، 38 ہزار، 6 ہزار، 14 ہزار، 46 ہزار، 26 ہزار اور سب سے زیادہ رقم 6 لاکھ تھی۔ خیبرپختونخوا میں بجلی چوری کے 34 ریفرنس بنائے گئے جس میں بدعنوانی کی رقم ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ روپے تھی۔ دستاویزات میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2008ء میں لاہور میں ایک میگا کرپشن کیس پر ریفرنس بنایا گیا۔ یہ ریفرنس رؤف انٹرنیشنل ایڈوائزری سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک ہارون احمد پر بنایا گیا اس کیس میں کرپشن کی رقم کا حجم 2 ارب 55 کروڑ 70 لاکھ۔ مجرم اور نیب نے باہمی طور پر 87 کروڑ 84 لاکھ روپے ادا کرنے کی منظوری دی۔ مجرم نے 20 کروڑ 54 لاکھ 99 ہزار 856 روپے جمع کرائے جبکہ 67 کروڑ 29 لاکھ 144 روپے اب بھی واجب الادا ہیں۔ 2008ء میں ہی لاہور کے نیب نے تصور حسین گیلانی (ڈبل شاہ) اور دیگر کے خلاف 11 کروڑ سے زائد کے تین ریفرنس جبکہ فراڈ کی رقم اس سے کہیں زیادہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ ایک ریفرنس میں مبینہ طور پر کرپشن کی رقم کا خانہ خالی رکھا گیا ہے۔ 2008ء میں ہی آٹھ ریفرنس بنائے گئے جن میں کرپشن کی رقم 54 ہزار، 48 ہزار، 41 ہزار، 41 ہزار، 70 ہزار، 72 ہزار، 46 ہزار اور 11 ہزار 500 روپے تھی۔ اسی برس راولپنڈی میں سروسز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے محمد یونس کے خلاف ریفرنس میں کرپشن کی رقم 8 کروڑ17 لاکھ 57 ہزار 570 روپے، تحقیقات میں یہ رقم ثابت ہوگئی مگر نیب اور مجرم کی باہمی رضامندی سے صرف ایک لاکھ 92 ہزار 65 روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے۔ 2009ء میں لاہور میں ڈبل شاہ پر 7 مزید ریفرنس بنائے گئے جس میں مجموعی رقم تقریباً 8 ارب روپے سے زائد تھی، دو چھوٹے ریفرنس کی رقم کلی طور پر جمع کرائی گئی جبکہ ایک ریفرنس ایک ارب 28 کروڑ 60 لاکھ کا تھا جس میں 31 کروڑ 44 لاکھ 89 ہزار 721روپے جمع کرائے گئے جبکہ 97 کروڑ 15 لاکھ 10ہزار 721 روپے واجب الادا ہیں۔ دوسرے ریفرنس میں رقم ایک ارب 93 کروڑ 27 لاکھ 34 ہزار روپے۔ جمع کرائی گئی رقم 12 کروڑ 67 لاکھ 6 ہزار 102روپے، واجب الادا رقم ایک ارب 80 کروڑ 60لاکھ 27ہزار 898روپے۔ تیسرے ریفرنس میں 23کروڑ 54لاکھ 75ہزار 100 روپے ادائیگی 9 لاکھ روپے۔ واجب الادا رقم 23 کروڑ 45 لاکھ 75 ہزار 100روپے اور چوتھے ریفرنس میں رقم 5 ارب 43کروڑ 88لاکھ 7 ہزار 900روپے۔ ادائیگی 26 کروڑ 69 لاکھ 3 ہزار 747 روپے جبکہ واجب الادا رقم 5 ارب 17 کروڑ 19 لاکھ 4 ہزار 153 روپے۔ 2010ء میں پشاور میں 12سرکاری کنٹریکٹرز پر 35 ہزار اور 75 ہزار روپے تک کے ریفرنس بنائے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ رقم 28 لاکھ روپے تھی جبکہ ان 12 ریفرنس میں کرپشن کی مجموعی رقم 5.298 ملین روپے تھی، کوئٹہ میں پوسٹ آفس کے ملازم پر 12 ہزار روپے کا ریفرنس بنایا گیا۔ پشاور میں ایک سابق سینیٹر کے خلاف کرپشن سے 31 کروڑ 67ہزار روپے بنانے کا الزام تھا مگر تحقیقات کے بعد یہ رقم 2 کروڑ 14 لاکھ 45 ہزار رہ گئی اور یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرادی گئی۔ 2011ء راولپنڈی میں ایک پراپرٹی ڈیلر پر 2 ارب 65 کروڑ روپے کی کرپشن پر تحقیقات شروع کیں اور تحقیقات میں مذکورہ رقم ثابت بھی ہوگئی مگر پھر مجرم اور نیب حکام کی باہمی رضامندی سے 50لاکھ روپے جمع کرانے کا معاملہ طے پایا مگر مجرم نے 19 لاکھ 55 ہزار روپے جمع کرائے جبکہ 30لاکھ 45ہزار روپے اب بھی واجب الادا ہیں۔ 2012ء میں راولپنڈی میں بینکرز سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ کے ایجنٹ کے خلاف 2ارب 65 کروڑ روپے کرپشن کے الزام کے تحت ریفرنس کی تیاری شروع ہوئی، تحقیقات میں یہ رقم ثابت ہوگئی مگر باہمی رضامندی سے ایک لاکھ 72ہزار روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے۔ 2013ء میں کراچی میں 5اعلیٰ سرکاری افسران کے خلاف 6ریفرنس بنائے گئے۔ کرپشن کی رقم اور تحقیقات میں ثابت ہونے والی رقوم کے خانے خالی چھوڑ دیئے گئے اور جمع کرائی گئی رقم 8 لاکھ سے 67 لاکھ روپے تھی۔ پلی بار گین کی یکم جولائی 2015ء سے 30؍ جون 2016ء کی دستاویزات میں کرپشن کی رقم اور ثابت شدہ رقم کے کالم رکھے ہی نہیں گئے ہیں، صرف الزام، باہمی رضامندی سے رقم جمع کرانے، جمع شدہ رقم اور واجب الادا رقم کے کالم موجود ہیں۔ اس فہرست میں پہلا کیس محمد صدیق کے نام پر ہے، الزام عوام سے فراڈ، باہمی رضامندی رقم 77 لاکھ 68ہزار 451روپے، جمع کرائی ہوئی رقم 26لاکھ 41ہزار 273روپے، واجب الادا رقم 51لاکھ 27ہزار 178روپے۔ پرائیویٹ آدمی کے خلاف عوام سے فراڈ۔ رقم 75لاکھ جمع کرائے 50 لاکھ 31زار 700، واجب الادا 24 لاکھ 78 ہزار 300 روپے۔ ایک ریفرنس میں رقم 34 کروڑ 53 لاکھ 88 ہزار جمع کرائی ہوئی رقم 10 کروڑ 74 لاکھ 32 ہزار۔ واجب الادا 22 کروڑ 79 لاکھ 56 ہزار۔ ایک خاتون اور اس کے ساتھی پر 9 کروڑ 80 لاکھ کی کرپشن کا الزام۔ باہمی رضامندی سے رقم 2 کروڑ 45 لاکھ 64 ہزار 307 روپے۔ جمع شدہ رقم صفر، واجب الادا پوری۔ مذکورہ یکم جولائی 2015ء سے 30؍ جون 2016ء کے عرصے میں پلی بار گین کے 476 کیس ہوئے جس میں واجب الادا رقم کے خانے میں 234 مختلف رقوم کا اندراج موجود ہے۔
تازہ ترین