• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (NGO's-INGOs)کے بارے میں اس تاثر کے ساتھ کہ بین الاقوامی امداد حاصل کرنے کےلیے یہ تنظیمیں کوئی بھی قانونی اور اخلاقی حد پار کر سکتی ہیں۔دلائل اور توجہات کے ساتھ بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے اور مختلف حوالوں سے انسانی ترقی اور تحفظ کےلیے معاشرے میں ان کے منفی اور مثبت کردار پر طویل بحث و تمحیص کی جاتی رہی ہے۔لیکن مہذب اور ذی شعور طبقہ ان کی افادیت کو تسلیم کرنے کے باوجود انہیں قانونی دھارے میں لانے کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے۔اور حکومت نے مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموںکو قانون کے دھارے میں لانےکےلیے مربوط پالیسی کا اعلان کر کے اس کمی کو پورا کر دیا ہے۔جس کی عدم موجودگی میں بعض بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیںاپنی عالمی حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کےلیے خطرہ بننے کے علاوہ قانون کی حیثیت کو چیلنج کر رہی تھیں اور مربوط نظام کے تحت قانونی دھارے میں نہ ہونے کے سبب ایسے افعال میں ملوث تھیں جس سے پاکستان کے بنیادی نظریات کو نقصان پہنچ رہاتھا۔پاکستان کے تشخص کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب بعض این جی اوز کسی بیرونی طاقت کے حکم کی بجا آوری کےلیے انسانیت کے ایک ایسے قاتل کے پیچھے کھڑی ہو گئیںجو ایک کمسن کے بہیمانہ قتل میں ملوث تھااور جرم ثابت ہونے پر عدالت نے سزائے موت کا حکم دیا تھا۔شفقت حسین جس نے کراچی میں تاوان کےلیے ایک سات سالہ بچے کواغوا کیا اور راز افشا ہونے کے خوف سے اسے انتہائی بے دردی سے قتل کردیا۔این جی اوز نے یہ ثابت کر دیاکہ وہ غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کےلیے اس حد تک بھی گر سکتی ہیںکہ انہوں نے معصوم بچے کے قاتل کو بچانے کےلیےجعلی دستاویزات کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا کہ اس مجرم نے جب بچے کا قتل کیا تو اس وقت اس کی عمر 14برس تھی اس لیے اسے سزائے موت نہیں دی جاسکتی ۔ ان تنظیموں نے جھوٹے شواہد کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف عالمگیر مہم چلائی اورپاکستانیت کی جگ ہنسائی ہوئی۔وقت اور تحقیقات نے ثابت کیا کہ بعض بین الاقوامی تنظیمیںایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کر تی ہیں۔اور اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کےلیے یہ تنظیمیں کسی ضابطہ اخلاق کی پرواہ نہیں کرتیں۔ان حالات میں حکومت وقت کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھاکہ تمام بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو مربوط ضابطہ اخلاق کے تحت قانون کے دھارے میں لائے۔حکومت کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوااور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں پالیسی کے نفاذ کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف عالمی مہم دم توڑنے لگی۔اس پالیسی سے قبل INGOsمملکت کے کسی قانون کی پرواہ کیے بغیر جب چاہیں جہاں چاہیںکام شروع کر دیتی تھیں۔لیکن نئی پالیسی کے تحت ان کی رجسٹریشن کو ضروری قراردے دیا گیاہے۔اور انہیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک سے آنے والے سرمایہ اور اس کے استعمال کے بارے میں حکومت کو آگاہ کریں گی۔یہ تنظیمیں مملکت کی اجازت کے بغیر اپنے تنظیمی ڈھانچے کو پھیلانے کی مجاز نہیں ہوگی۔توقع تویہی ہے کہ مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں نئی پالیسی کے تحت پاکستان اور پاکستان کے قوانین کا احترام کریں گی اور اپنی حد میں رہ کر کام کریں گی۔
تازہ ترین