• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ بابا کوٹ۔ حقائق اور پروپیگنڈہ میں فرق کیا جانا چاہئے!,,,,ملک الطاف حسین

گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے مقام ”بابا کوٹ“ کے قریب جنگل میں پانچ خواتین کو زندہ دفن کر دینے کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی رہیں سینیٹ میں گرما گرم بحث ہوئی تحقیقاتی کمیٹی بھی مقرر ہوئی ”جنگ“ کے اندر رؤف کلاسرہ ، اشتیاق بیگ، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، آغا مسعود حسین، محمد سلیم قریشی اور کشور ناہید جیسے سینئر کالم نگاروں کے کالم بھی پڑھنے کو ملے ۔ علاوہ ازیں این جی اوز کی بعض خواتین رہنماؤں کے بیانات اور مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔ سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں مذکورہ واقعے کی مذمت میں قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔
جہاں تک زندہ خواتین کو دفن کرنے کی خبر تھی وہ یقیناً قابل مذمت اور افسوسناک ہے اس کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے کوئی بھی قانون اور روایت اس طرح کے ظلم کی اجازت نہیں دیتے۔ تاہم اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ ”سانحہ بابا کوٹ“ پر حقائق بیان کرنے اورحقیقی صدمے کا اظہار کرنے کے بجائے مغربی دباؤ کیلئے جواز اور پاکستان میں موجود سیکولر اور روشن خیال لابی کو ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کہ جس سے وہ غیرت مند بلوچوں کو بدنام، مسلمانوں کو شرمندہ اور اسلامی معاشرے کو ایک ناکام معاشرہ قرار دینے کے لئے اپنے مذموم مقاصد پورے کر سکیں۔
مذکورہ تمام کالم نگاروں نے اپنے کالموں میں دورجاہلیت میں زندہ دفن کی جانے والی لڑکیوں کے حوالے دیئے اور پھر رحمت العالمین کے فرمودات بتائے مگر یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ لڑکیاں اس لئے زندہ دفن کی جا رہی تھیں کہ انہیں لڑکی کی اولاد پسند نہیں تھی وہ لڑکی کی پیدائش کو اپنی عزت اورغیرت کے خلاف سمجھ رہے تھے جسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف سختی سے منع فرمایا بلکہ بیٹے کو نعمت اور بیٹی کو رحمت قراردیا عورت کے مرتبہ اور مقام کو بلند فرمایا اوراس کی عزت کے تحفظ اوردیکھ بھال کو مرد کی ذمے داری میں دیا جبکہ یہاں صورت حال یہ نہیں کہ بلوچ معاشرے میں بیٹی کیلئے کوئی محبت نہیں، عورت کا کوئی احترام نہیں اس لئے انہیں قتل کردیا جاتاہے بلکہ رسم و رواج یہ ہے کہ اگر کوئی عورت بے حیائی کے کسی گناہ کی مرتکب ہو گی تو اسے سزا دی جائیگی تاہم اس واضح فرق کے باوجود بلوچوں کی موجودہ روایت اور دور جاہلیت کی رسم کو ایک ساتھ ملا دینا کہاں کا انصاف اورنیک نیتی ہے؟
آٹھواں سوال یہ ہے کہ معزز کالم نگاروں اور میڈیا کے دیگر تبصرہ نگاروں نے سانحہ ”باباکوٹ“ کا سبب بننے والی ”وجہ“ کے اخلاقی پہلوؤں اور اسلامی احکامات کے حوالے سے کوئی جائزہ پیش کیوں نہیں کیا؟ ہماری مشرقی روایات، اخلاقی اقدادر اور شرعی تقاضے عورت کی آزادی اور خود مختاری کو کہاں تک جائز سمجھتے اور اجازت دیتے ہیں۔ فحاشی اور بے حیائی کے کاموں کیلئے سنت پاک میں جو ممانعت ہے اس کی تفصیلات کیوں نہیں بتائی جاتیں۔حقیقت یہ ہے کہ ”سانحہ بابا کوٹ“ کا سبب لڑکیوں کا گھر سے بھاگ جانا بنا وہ ممکن ہے کہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہوں مگر جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ کوئی بھی عزت دار خاندان اس طرح سے اپنی بیٹیوں کو شادی کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ پہلے غیر مردوں کے ساتھ رابطے کریں اور بعد میں ہوٹلوں یا عدالتوں میں پہنچ کر نکاح پڑھوا لیں۔ روشن خیال اور مغرب کے گماشتے اس اہم ”وجہ“ کو اہمیت نہیں دے رہے کہ جو ہردور میں اور ہر علاقے میں عزت دار خاندانوں کی روایت رہی ہے ان کے نزدیک لڑکی کا بالغ ہو جانا اسے اختیاردیتا ہے کہ وہ اپنی شادی اور دوستی کے فیصلوں میں آزاد اور خود مختار ہے پریمی جوڑوں کو سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے اورویزے دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان اورماں باپ کی عزت کوبرباد کر کے باہر کے کسی ملک میں جا کر اپنی محبت کی نئی دنیا بسا لیں عورت کو حد سے زیادہ ماڈرنزم تک سفر کرانے اور اس کے سر پر سے دوپٹہ اتار کر کمر میں باندھ دینے والا یہ طبقہ اس وقت بہت خوش ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت اپنے گھر کی چوکھٹ پر اپنے باپ کی پگڑی کو پاؤں تلے مسلتے ہوئے عاشق کا ہاتھ تھامے گلیوں اوربازاروں کی طرف نکل کھڑی ہوتی ہے۔
مغرب زدہ یہ طبقہ عورت کو عزت سے زیادہ ہوس کی نظر سے دیکھتا ہے وہ ہر اس روایت اور قانون پر تنقید کر رہا ہے کہ جو عورت کواس مقام پر دیکھنا اور رکھنا چاہتا ہے کہ جہاں سے وہ ماں، بیٹی، بہن ،بیوی اوربہو کے علاوہ کسی دوسرے نام سے نہ پکاری جائے۔ عورت محترم ہے کیوں یہ ماں ہے، عورت عزت کے لائق ہے کیونکہ عزت اس سے منسوب ہے، عورت خود ایک حجاب ہے جسے پے پردہ نہیں کیا جا سکتا، عورت شرم و حیا کا پیکر ہے جسے بے شرم نہیں بنایا جا سکتا، عورت کمزور ہے اسے بے سہارا نہیں چھوڑا جا سکتا، عورت پھول ہے جس کی حفاظت لازمی ہے، لہٰذا عورت کے احترام اور اس کی عزت و عصمت کی حفاظت کیلئے اگر کوئی قانون یا روایت موجود ہے تو اس پر اعتراض کرنے والوں کو اس سے بہتر اور متبادل ایسا کوئی قانون یا روایت بتانی چاہیئے کہ جس کے ذریعے عورت اوراس سے وابستہ خاندان کی عزت اور غیرت کی حفاظت کی جا سکے۔
اسی طرح سے ”کاروکاری“ کی جو رسم یا روایت ہے اورجسے اب غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے یہ قانون بھی جذبات، احساسات اور عزت کی حفاظت کے معیار پر پورا نہیں اترتا بلکہ یہ ایک ایسا ”کالا قانون“ ہے کہ جو عزت داروں کی عزت کے دامن کو دھبے لگانے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، ناجائز جنسی تعلقات پر قتل ہونے والوں کو تو مظلوم اور قاتل کومجرم قرار دیا گیا ہے مگر جس کی عزت یا غیرت کوقتل کیا گیا ہے اس کا ازالہ یا داد رسی کیسے ہو، بیگم غیر مردوں کے ساتھ دوستیاں رکھے اور پھر بھی گھر کی بہو اور رانی کہلائے کیا ایسا ہونا ممکن اور مناسب ہوگا؟ ہاں جو لوگ روشن خیال ہیں اور جن کی نجی زندگی بھی فلمی دنیا کے کسی سیٹ کی طرح ہے ایسے لوگ فحاشی اور بے حیائی کو پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کا اسلامی معاشرہ ہر گز اجازت نہیں دیتا، شرم و حیا عورت کا حسن اور زیور ہے جبکہ پردہ اس کی حفاظت ہے انسانی معاشرے میں عزت و احترام کا آغاز عورت ہی کے احترام سے شروع ہوتا ہے جہاں عورت کو نوچا اور کھلونا بنایا جائے وہ معاشرہ انسانوں کا نہیں بھیڑیوں کا ہوتا ہے اور جہاں عورت خود بے پردہ ہو کر ناچتی پھرے عشق ومحبت کی نت نئی کہانیوں کوجنم دے تو ایسا معاشرہ بھارت اور برطانیہ کا تو ہو سکتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نہیں۔
ہم کسی قبائلی روایت کے غلط یا صحیح ہونے کی بات نہیں کرتے ہم تو صرف اورصرف حقائق اور انصاف کو تسلیم کرنے کی بات کریں گے۔ انسانی فطرت اور مسلم معاشرے میں جس چیز کی اجازت نہیں، دنیا کا کوئی بھی قانون خواہ وہ کالا ہو یا نیلا، اسکو جائز ثابت نہیں کر سکتا ویسے بھی یہ ضروری نہیں کہ جوچیز قانوناً جرم ہو وہ اخلاقی طور پر بھی جرم ہو۔ مغرب کے بعض ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے تو کیا اس قانون کے بعد ہم جنس پرستی کوجائز تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ بہر حال یہ بات بھی درست ہے کہ ”کاروکاری“ کے بہت سے واقعات غلط اور ناجائز بھی ہو رہے ہیں لہٰذا ہمارا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی کے قوانین اور بالخصوص قبائلی روایات کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ کہیں پرکسی مرد یا عورت کے ساتھ کوئی زیادتی اور ناانصافی نہ ہو لیکن اگر کہیں پر کوئی واقعہ کسی بدنیتی اور دشمنی کی وجہ سے ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیئے کہ اس روایت ہی کے خلاف جھنڈے اٹھا لئے جائیں کہ جس کو غلط استعمال کیا گیا ہے۔ ہم یہاں صرف ایک مثال دینا چاہیں گے کہ آج ہمارا عدالتی نظام مکمل طور پر ناکام اورپولیس نظام بدنام ہو چکا ہے پولیس بے گناہ لوگ گرفتار کر رہی ہے اور عدالتیں انہیں پھانسی پر لٹکا رہی ہیں مگر اس کے باوجود ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ عدالتوں اور پولیس کے نظام کو ختم کر دیا جائے بلکہ سب ہی ان کی اصلاح کی بات کرتے ہیں اور یہ درست بات ہے۔ اسی طرح سے قبائلی روایتوں کو برا بھلا کہنے یا ان کے خلاف قانون سازی کرنے کے بجائے ان میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے قبائلی سرداروں اور عمائدین کو ”جرگوں“ سے نہ روکا جائے بلکہ انہیں خدا کے خوف اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کا پابند بنایا جائے۔ علاوہ ازیں کسی ایک یا خاص واقعے کو بنیاد بنا کر احتجاج کرنے کے بجائے تمام خواتین کی عزت و آبرو اور جان کی حفاظت کیلئے ”اسلامی شریعت“ کے نفاذ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے انسانیت کی ترجمانی کرتے وقت حقیقت اور شرافت کے دامن کو نہ چھوڑا جائے غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہا جائے۔
تازہ ترین