• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ فرید اور لاہور ... انداز بیاں … سردار احمد قادری

بہت سے لوگ خواجہ فرید کے نام سے واقف ہیں ان کی شاعری سے آشنا ہیں لیکن مقام و مرتبے سے آگاہ نہیں  ہیں، حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ کے شیخ طریقت ہیں، آپ کے بزرگوں نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے نام کی نسبت سے آپ کا نام غلام فرید رکھا، ڈیرہ غازی خان کے علاقے، کوٹ مٹھن سے آپ کا تعلق ہے، یہ وہ علاقہ ہے جس کے آگے پنجاب کی سرحد بلوچستان سے جا کر مل جاتی ہے، حضرت خواجہ غلام فرید نے عوام الناس تک اپنا پیغام محبت پہنچانے کیلئے وہی طریقہ اختیار کیا جو دوسرے بہت سے اولیائے امت نے اختیار کیا تھا، لوگ خوبصورت تقریروں اور نصیحت آمیز مواعظ حسنہ کو بھول جاتے ہیں لیکن انہیں شاعری یاد رہ جاتی ہے، اس کو یاد کرنا آسان ہوتا ہے اور یہ ایک سے دوسرے تک پہنچتے پہنچتے ایک آفاقی پیغام کا روپ دھار لیتی ہے، میرا ایک مرحوم دوست جس نے سکول کی شکل نہیں دیکھی تھی اور ان پڑھ تھا لیکن ذہین اتنا کہ اس کو علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ یاد تھا، اسی طرح آپ نے آزاد کشمیر کے سیدھے سادے تعلیم سے بظاہر نا آشنا لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ انہیں حضرت میاں محمد بخش کا عارفانہ کلام یاد ہوتا ہے اور وہ موقع محل کی مناسبت سے اس کا حوالہ دیتے رہتے ہیں، حضرت امیر خسرو سے لے کر پیر مہر علی شاہ تک اور بابا بلھے شاہ سے لے کر خواجہ غلام فرید تک آپ کو ایسے اولیاء اللہ نظر آتے ہیں جن کے کلام پیغام نے عوام و خواص تک پہنچ کر مقبولیت کا وہ مقام حاصل کرلیا کہ آج تک یہ ہزاروں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے اور سینوں میں محفوظ ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید سے مجھے ایک خاص قلبی انس اور محبت ہے۔ ایک تو ان کی لازوال شاعری جب بھی پڑھتا ہوں ایک نیا لطف اور قلبی سرور حاصل کرتا ہوں اگر آپ کو سرائیکی زبان سمجھ میں نہیں بھی آتی تو پھر بھی آپ شعروں کی مٹھاس کوضرور محسوس کریں گے۔
تتی تھی جوگن چورھار پھراں
ہندہ سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں
سنج برتے جنگل بازار پھراں
متاں یار مسلم کہیں سانگ سبب
سرائیکی زبان کا یہ عارفانہ کلام اردو شعروں کے اندر میں نے کچھ یوں ڈھالا ہے
میں جوگن بن میرے یار پھروں
ہند سندھ پنجاب اور ماڑ پھروں
دشت جنگل بازار پھروں
مجھے آئے نظر میرا یار کہیں
خواجہ غلام فرید نے مجاز کے رنگ میں حقیقت کے جذبات کی عکاسی کی ہے اس خوبصورت نعت کا یہ آخری حصہ ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے حضوت سرور کائنات ﷺ کی یاد محبت اور ہجر و فراق سوز و غم کی کیفیت میں ڈوب کر لکھا ہے۔
آ سونہڑاں ڈھولن یار سجن
آ سانول ہوت حجاز وطن
آ ڈیکھ فرید دا بیت حزن
ہم روز ازل دی تانگ طلب
ان اشعار کا ترجمہ کرنے کی حقیر سی کوشش کی ہے لیکن مجازی محبت کے کرداروں کے نام لکھنے سے قاصر ہوں۔ یہ ان کے اپنے کلام میں خود پڑھ لیں، شعری ترجمہ کچھ یوں ہے،
اے سونہڑے ڈھولن یار سجن
اے پیارے تیرا حجاز وطن
آ دیکھ فرید کا اجڑا گھر
ہے روز ازل سے تیری طلب
سرکار رسالت ﷺ کو مخاطب کرنے کا یہ والہانہ انداز خواجہ فرید پر بس ہے یہ انہی کا خاصہ ہے اور انہی کو جچتا ہے۔
خواجہ فرید سے میری محبت کی ایک وجہ میری جدامجد حضرت خواجہ حافظ شیخ محمد قادریؒ کا ان سے قلبی تعلق دونوں بزرگوں کے آپس کے باہمی محبت بھرے تعلقات ہیں، حضرت خواجہ غلام فرید سے حضرت حافظ فتح محمد قادری کی آخری ملاقات روہی چولستان میں ہوئی تھی۔ سرائیکی وسیب کا یہ ریگزار حضرت خواجہ غلام فرید کو بہت پسند تھا اور ان کی شاعری نے اس ’’روہی‘‘ کو محبت کے استعارے کے طور پر لازوال بنا دیا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید نے میرے جدامجد حضرت خواجہ حافظ فتح محمد قادری سے فرمایا ’’حضرت حافظ صاحب شاید آخری دفعہ مل رہے ہیں اور درمیان میں یہ اونی دھسہ بھی حائل ہے، اسے ہٹائیے اور سینے سے سینہ لگائیے‘‘ صحرا میں راتیں بڑی ٹھنڈی ہوتی ہیں یہ ملاقات شام کو ہو رہی تھی اور سردیوں کے موسم میں دونوں نے گرم دھسے اوڑھے ہوئے تھے۔ دونوں بزرگوں نے دھسے ہٹائے اور پھر گلے ملے۔ دونوں بزرگ ہم عصر ہونے کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان کے علاوہ فارسی اور اردو میں شاعری کے ذریعے اپنا پیغام عوام و خواص تک پہنچا گئے جو آج تک محفوظ ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا، میرے بچپن میں قبلہ والدہ صاحبہ خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مجھے کوٹ مٹھن لے کر گئی تھیں وہاں گزارے ہوئے دن مجھے کچھ کچھ یاد ہیں پھر جوانی کے دور میں قبلہ والدہ صاحبہ نے حضرت خواجہ کے عرس مبارک کے دنوں میں وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی میں انہیں ساتھ لے کر گیا، دربار کے سجادہ نشین حضرت خواجہ احمد علی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حجرہ خاص کے قریب ایک کمرے میں مجھے ٹھہرایا ہروقت خبر گیری کرتے رہے ان کی کرم نوازی ہمیشہ یاد رہے گی، انگلستان آکر بھی ایک دفعہ حضرت خواجہ غلام فرید کے مزار پر حاضری دی، خواجہ احمد علی ابھی زندہ تھے ان کی محبت سے میرا ماتھا چومنا میرے لئے ایک خوشگوار یاد ہے۔لاہور کے قیام کے دوران معلوم ہوا کہ خواجہ فرید اکیڈمی حضرت خواجہ کی یاد میں پروگرام منعقد کراتی رہتی ہے، ایک بیورو کریٹ، دانشور جمیل گشکوری خواجہ فرید کی شاعری اور پیغام کے حوالے سے یہ محفلیں سجاتے تھے، عام طور پر یہ پروگرام لاہور کے کسی بڑے ہوٹل میں ہوتے تھے میں ان تقریبات میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا، کبھی خواجہ فرید کے پیغام پر دانشور اظہار خیال کرتے کبھی پٹھانے خان آ جاتے تو وہ خواجہ فرید کا آفاقی کلام ’’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘‘ گا کر ایک کیفیت پیدا کرتے۔۔۔ یہیں ہر شہر کے دیگر دانشوروں اور علم دوست لوگوں سے ملاقات ہو جاتی، ایس ایم ظفر سے ان محفلوں کے ذریعے سے ہی تعارف ہوا، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خواجہ غلام فرید پنجابی زبان کے شاعر ہیں، وہ شدید غلط فہمی، مغٓالطے کا شکار ہیں، سرائیکی ایک علیحدہ اور بہت قدیم زبان ہے، جس کی اپنی تاریخ ہے اس کے مخصوص الفاظ ہیں لہجہ ہے اس کی ادائیگی کا ایک اپنا جداگانہ انداز ہے، آپ سرائیکی سمجھ تو سکتے ہیں لیکن سرائیکی بولنے کے لئے ایک عرصہ تک سرائیکی خطہ میں رہنا یا سرائیکی لوگوں سے میل ملاپ بے حد ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کے زبان کی بنیاد پر دوسری زبانوں سے نفرت کی جائے یا انہیں حقیر سمجھا جائے سب مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے اور سب زبانیں بھی خالق کائنات نے انسان کودیعت کی ہیں۔ زبان کوئی بھی بولیں یہ محبت کی بولی ہونی چاہئے یہ ملاپ کی بولی ہونے چاہئے لیکن ’’ماں بولی‘‘ ہر کسی کو اچھی لگتی ہے کیونکہ اسے ماں نے بولا ہوتا ہے اور اس زبان میں لوری دی ہوتی ہے سرائیکی میری ’’ماں بولی‘‘ ہے۔


.
تازہ ترین