• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں کینیڈا کے حالیہ انتخابات کو ایک مبصر کی حیثیت سے دیکھ رہا تھا۔ چند دن پہلے میں نے کینیڈا میں الیکشن کروانے والے ادارے کے لوگوں کو اور لبرل پارٹی آف کینیڈا کو بیک وقت ایک ہی طرح کی برقی ڈاک ارسال کی۔ جس میں لکھا کہ میری خواہش ہے کہ کینیڈا میں ہونے والے انتخابی عمل کو ایک مبصر کی حیثیت سے دیکھوں۔ میری رہنمائی کی جائے۔ میری برقی ڈاک کا لبرل پارٹی آف کینیڈا کی طرف سے دوسرے دن ہی جواب آ گیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے لئے کسی اجازت نامے کی ضرورت تو نہیں ہے مگر آسانی اور رہنمائی کے لئے لبرل پارٹی کے مقامی دفتر کو ہدایت کی گئی کہ وہ میری اس سلسلے میں مدد کریں۔ دوسری برقی ڈاک کا جواب بھی کافی حوصلہ افزا تھا۔ ایک تو وہ لوگ میری دلچسپی سے خوش تھے ان کے خیال میں مجھے رسمی اجازت نامے کی ضرورت نہیں، صرف مقامی حکام کو اپنی شناخت اور اس برقی ڈاک کا حوالہ دینا ضروری ہو گا۔ کینیڈا میں انتخابات کئی مرحلوں میں ہوتے ہیں۔ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے جاتے ہیں، قبل از وقت ووٹنگ کا انتظام ہوتا ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے لئے مددگار عملے کی بھرتی کا اشتہار بھی نظر سے گزرا۔ پھر رضاکار بھی انتخابی عمل میں مددگار نظر آئے۔ یہ الیکشن بہت ہی خاموش، پرامن تھا۔ ہماری طرح کا شور شرابا، ہلا گلا شاید ان لوگوں کو پسند نہیں۔ پارٹی کے افراد انفرادی حیثیت میں ہینڈ بل بانٹتے ضرور نظر آئے۔ پولنگ کا وقت صبح 9بجے سے رات 9بجے تک کا تھا۔ پیر کا ورکنگ ڈے تھا اور سب لوگ اپنے اپنے کاموں کے ساتھ ساتھ اس انتخابی عمل اور کارروائی سے بھی گزر رہے تھے۔ مقامی ٹی وی چینل معمول کے پروگرام دکھا رہے تھے جس سے مجھے کافی مایوسی ہوئی۔ ہماری طرح کی خصوصی نشریات کا تصور نہ تھا۔ میڈیا نے مناسب حد رکھ کر انتخابی عمل کی نگرانی ضرور کی۔ امیدوار عام لوگوں کے درمیان اپنی حیثیت میں ملتے ملاتے نظر آئے۔ اس دفعہ ان انتخابات میں 6جماعتوں نے حصہ لیا۔ ان کی ترتیب بیلٹ پیپر پر کچھ اس طرح تھی (1)لبرل پارٹی، (2)مارکسٹ لیننسٹ پارٹی (3) گرین پارٹی (4) نیو ڈیمو کریٹک پارٹی (5) کنزر ویٹو پارٹی (حکمران جماعت) (6) ایمل الائنس۔ اس دفعہ سب سے زیادہ ووٹ لبرل پارٹی کو ملے جو رائے عامہ کے سروے کے برخلاف تھے۔ دوسرے نمبر پر حکمران جماعت کنزر ویٹو پارٹی تھی جس کے وزیر اعظم نے شکست کے فوراً بعد پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ تیسرے نمبر پر نیو ڈیمو کریٹک پارٹی تھی جو سیاسی طور پر سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ دیگر تین جماعتوں کے ووٹ قابل ذکر بھی نہیں۔ جیتنے والی لبرل پارٹی کے سربراہ 43سال کے جسٹن ٹروڈو ہیں وہ دوسرے رہنما ہیں جو اس عمر میں وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو کے والد دو دفعہ کینیڈا کے وزیر اعظم رہے۔ پہلے وہ 1968ءسے 1979ءتک وزیر اعظم رہے۔ جسٹن ٹروڈو ان کے وزیر اعظم کے زمانے میں 1971میں پیدا ہوئے آپ بنیادی طور پر استاد تھے مگر بعد میں دوسرے شعبوں کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ان کے والد دوسری دفعہ 1980ءسے 1984ءتک وزیر اعظم رہے۔ جب جسٹن ٹروڈو 28سال کے تھے تو 2000ء میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جسٹن ٹروڈو اپنے والد اور ان کی پارٹی سے کافی متاثر تھے پھر 2008میں پہلی دفعہ ایم پی بنے اور 2015میں اپنی ذہانت اور لوگوں کی محبت کی وجہ سے کینیڈا کے وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ ان کی جیت میں تارکین وطن کا بہت ہاتھ ہے۔ تارکین وطن کا کینیڈا کی ترقی اور تہذیبی ورثے میں بہت کردار ہے۔ اس بات کا اظہار لبرل پارٹی کے رہنما اکثر کرتے رہے ہیں۔ حکمران جماعت قدامت پسند نظریات کی وجہ سے عوام کی نظروں میں اپنی حیثیت کھو چکی ہے۔ سابق وزیر اعظم ہاپر کا تارکین وطن کے بارے میں عمومی رویہ قابل تعریف نہیں ہے۔ ان کی وجہ سے تارکین وطن اپنے مستقبل کے بارےمیں خاصی تشویش میں مبتلا تھے۔ اب کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں نئی حکومت کا پالیسی بیان آنے کے بعد ہی کوئی بات کی جا سکتی ہے۔ اس دفعہ کے انتخابات میں مسلمان ووٹر حکمران جماعت کے بیانوں کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔ قدامت پسند جماعت کے لوگ تارکین وطن شہریوں کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت دے رہے تھے جس نے کھیل اور انتخاب کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔ اس میں ایک اور اہم وجہ امریکہ سے تجارتی معاملات بھی ہیں۔ سابق وزیر اعظم ہاپر کا موقف کافی کمزور تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ میں انتخاب والے دن کافی جگہ گیا، کسی کسی جگہ لائنیں ضرور نظر آئیں مگر ماحول بہت ہی پرامن تھا۔ انتخابات کی نگرانی والا عملہ بہت چوکس نظر آیا۔ ایک جگہ میں نے پوچھا کہ اگر ووٹ کا اندراج نہ ہو تو ووٹ ڈالا جا سکتا ہے تو جواب بہت دلچسپ تھا۔ ووٹ کا اندراج ووٹر کی ذمہ داری ہے یا پارٹی کی۔ ہم لوگوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ مناسب شناخت کے بعد اپنے حلقے میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا یہ قانون ہے۔ جواب میں محترمہ ہلکی سی مسکرائی اور بولی نہیں یہ ایک اصول ہے۔ ہمارے ہاں قانون تو بہت ہیں مگر اصول کوئی نہیں۔
رات 9بجے پولنگ بند ہوئی اور گنتی شروع ہوئی اور تقریباً رات ایک بجے کے قریب غیر سرکاری طور پر فیصلہ آچکا تھا کہ کونسی پارٹی جیت چکی ہے۔ میں نے دوست سے کہا کہ پارٹی کے دفتر چلتے ہیں۔ اس نے کہا اب جشن کل پارٹی کے آفس میں ہی ہو گا۔ اگلی صبح دوسری اہم خبر حکمران جماعت کے وزیر اعظم کا شکست کو قبول کرنے کااعلان تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ انتخابی عمل ہمارے ہاں اتنا مشکوک کیوں ہو جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیم کا فقدان اور برداشت کی کمی نظر آتی ہے۔ کینیڈا میں انتخابات جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہیں جبکہ ہمارے ہاں انتخابات جمہوریت کا انتقام ہوتے ہیں۔ کوئی بھی شخص ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے اشرافیہ اور نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کو برباد کر دیا ہے۔ اب تیسری دنیا کی جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک استاد نے پوچھا دنیا میں سب سے زیادہ جمہوری ملک کونسا ہے۔ جماعت میں دس طالب علم تھے، 7طالب علموں کا جواب تھا چین، دو طالب علم کہہ رہے تھے برطانیہ ایک طالب علم کا کہنا تھا امریکہ۔ استاد نے کہا جمہوریت کے اصول کے مطابق دنیا میں سب سے بڑا جمہوری ملک اب چین ہے۔ سو ہمارے ملکوں کی جمہوریت کچھ اسی طرح کی ہے۔ کینیڈا میں بھی اشرافیہ اور نوکر شاہی کا کردار بہت اہم ہے مگر عوام کے بنیادی حقوق پر ان کو زیادہ اختیار نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو افسر شاہی دستیاب ہی نہیں ہوتی جبکہ یہاں ایسا موقع نہیں ہوتا کہ عوام کو افسر شاہی سے ملنے کا یا مذاکرات کا کوئی سوچے۔ عام آدمی کو تمام سہولتیں ایک حق کی طرح دستیاب ہوتی ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ کینیڈا میں کرپشن نہیں ہے مگر کم ہے۔ دوسرے جرائم ضرور ہیں پھر ہماری طرح کی کرپشن کا تصور بہت ہی کم ہے۔ پھر کرپشن اور جرائم کے سلسلے میں قوانین بہت واضح اور عدالت کا فرمان سرکار کے لئے لازم سمجھا جاتا ہے۔ لوگ پولیس کا احترام کرتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ ان کی حفاظت کرتی ہے اور پولیس بھی اپنی حدود کا خیال رکھتی ہے۔ مجھے انتخابات کے دوران پولیس کا کردار بہت کم نظر آیا۔
اگلے روز مجھے کچھ پاکستانی تارکین وطن سے ملنے کا موقع ملا ۔ وہ لوگ کافی خوش تھے مگر بات کینیڈا کی بجائے پاکستان کی کر رہے تھے۔ وہ بھی پاکستان کے سیاسی نظام سے تنگ نظر آئے اور سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ کرپشن نظر آتی ہے مگر سرکار اور ادارے جمہوریت کو بچانے کے لئے کرپشن کو برداشت کر رہے ہیں۔ آخر وہ وقت بھی آ سکتا ہے کہ کرپشن جمہوریت کو ختم ہی کر دے۔ اس وقت اس کا خطرہ سب سے زیادہ نظر آ رہا ہے۔ ہمارے حکمراں ترقی کے خواب دکھانے میں مشغول ہیں اور ان کی ناک کے نیچے بدانتظامی اور کرپشن کا نظام فروغ پا رہا ہے۔ میرے پاس ان لوگوں کے سوال کا کوئی بھی جواب نہیں تھا۔ میں ان سے کینیڈا کے نظام کی باتیں کرنا چاہتا تھا مگر ان سب کے دل تو پاکستان میں اٹکے ہوئے تھے۔ وہ اس ملک میں خوشحال ضرور تھے مگر سب کو فکر پیچھے کی تھی اور کوئی بھی آگے آنے کو تیار نہیں۔ ؎
کبھی قیام کبھی ہجرتوں کی باتیں ہیں
دیار غیر میں یہ بے گھروں کی باتیں ہیں
تازہ ترین