• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیوں کا کوئی قصور نہیں,,,,نقش خیال…عرفان صدیقی

بار بار دہرائے جا چکے دلائل کو بار بار دہرائے چلے جانا مشق لا حاصل ہی رہتی ہے۔ کسی نئی سوچ کا شگوفہ پھوٹتا ہے نہ جذبہ و احساس کی کوئی تازہ کلی کھلتی ہے۔ امریکہ کے ہاں نائن الیون کو ہونے والی واردات، دنیا بھر میں مشکوک تو ہے، خود امریکہ میں اس کے بارے میں لا تعداد سوالات اٹھائے گئے اور ابھی تک اٹھائے جا رہے ہیں۔ واردات کو ایک بھیانک ڈرامہ ثابت کرنے والی تمام تر تحقیقاتی رپورٹس امریکہ میں سامنے آئیں اور بیشتر دستاویزی فلمیں بھی امریکہ ہی میں بنیں۔ علمی اور فنی سطح پر اس کے بارے میں طویل بحث مباحثہ ہوا۔ عوامی سطح پر بھی مکمل یکسوئی پیدا نہ ہو سکی۔ خاص طور پر جارج ڈبلیو بش کے ردعمل اور افغانستان و عراق پر جارحانہ لشکر کشی کے حوالے سے تو اختلاف کی زبردست لہر اٹھی۔ لاکھوں امریکیوں نے امریکہ کے طول و عرض میں بہت بڑے بڑے مظاہر کئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نام نہاد دہشت گردی کو کچلنے کی حکمت عملی کے خلاف امریکی عوام نے عالم اسلام سے بھی زیادہ توانا آواز اٹھائی۔ یورپ کے عوام بھی بلبلا اٹھے۔ ٹونی بلیئر صرف اس لئے برطانوی عوام کے لئے ایک گالی بن کر رہ گیا کہ اس نے برطانیہ کو امریکہ کا دم چھلہ بنا لیا۔ یہاں تک کہ اسے قبل ازوقت منصب چھوڑنا پڑا۔ اور اب اس کی لیبر پارٹی شرمناک شکست کے دہانے پر کھڑی ہے۔ امریکی بنیادی طور پر ایک ڈری سہمی قوم ہے۔ اس کے لئے ساری دنیا بحر الکاہل کے ایک ساحل سے بحر اوقیانوس کے دوسرے ساحل تک پھیلی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی امور، عالمی معاملات اور دنیا کی سیاسی نزاکتیں ان کے لئے بے معنی ہیں۔ وہ ان سے باخبر بھی نہیں۔ ان کی یونیورسٹیوں کا سب سے کمزور شعبہ بین الاقوامی تعلقات ہے۔ پاکستان کا ایک عام شہری دنیا کے بارے میں جتنا جانتا ہے، اتنا امریکہ کا اچھا پڑھا لکھا شخص بھی نہیں جانتا۔ بلاشبہ ان کو اپنی زندگی عزیز ہے اور اس مقصد کے لئے وہ اپنی حکومت کو وسیع اختیار دینے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن وہ فطری طور پر جنگ و جدل کے شائق نہیں۔ نائن الیون کے بعد انسانی حقوق کے حوالے سے بنائے گئے سخت گیر ضابطوں کے بارے میں بھی امریکی قوم پوری طرح یکسو نہیں۔ امریکی وکلاء، دانشوروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کھل کر ان ضابطوں کی مخالفت کی۔ بالآخر، امریکی انتظامیہ نے اپنے عوام کو باور کرا لیا کہ حقوق غصب کرنے والے قوانین اور ضابطوں کے تازیانے صرف تارکین وطن، بالخصوص مسلمانوں کی پیٹھ پر پڑے۔ افغانستان سے پکڑے جانے والے ” دہشت گردوں “ میں امریکی اور یورپی باشندے بھی تھے۔ سب کے سب اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں اور اپنے پیاروں کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ عقوبت خانوں کا رزق ہونے والے سارے کے سارے مسلمان ہیں۔ اس لئے امریکی باشندوں کو اس بات سے زیادہ غرض نہیں کہ کس طرح کے کڑے ضابطے بنائے جا رہے ہیں۔ شکار جانے اور شکاری۔
امریکہ نے نائن الیون کو جواز بنا کر جس ” دہشت گردی “ کو ختم کرنے کے لئے کروسیڈ کا آغاز کیا۔ اسے ساری دنیا ” دہشت گردی “ نہیں مانتی۔ امریکہ کی تاریخ اس طرح کی خونخوار مہمات سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران امریکہ نے کم و بیش 141 ممالک میں فوجی مداخلت کی اور ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیا۔ ان مہمات کے دوران لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔ 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں تین ہزار انسانوں کی ہلاکتوں کا انتقام لینے کے لئے امریکہ، افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ گزشتہ سات برس کے دوران افغانستان میں جو کچھ ہوا اور اب تک ہو رہا ہے، اس کی تفصیل سے کچھ حاصل نہیں۔ اپنے پیاروں کے قتل کا انتقام لینے کے لئے دوسروں کے پیاروں کو قتل کرنا یقیناً قابل ستائش نہیں اور پاکستان کے قبائلی عوام کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا لیکن کیا امریکہ کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کا انتقام لینے کے لئے دوسرے ملکوں پر چڑھ دوڑے اور معصوم انسانوں کے پرخچے اڑاتا رہے۔
پاکستان کے لوگوں کے جذبہ و احساس کی توہین اور ان کی فکر کی تضحیک نہیں ہونی چاہئے۔ وہ ہر گز خونخوار نہیں۔ وہ ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ دہشت گردی پھلے پھولے۔ وہ ہر گز نہیں چاہتے کہ میریٹ ہوٹل جیسے خوں رنگ واقعات پیش آئیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی آرزو رکھتے ہیں کہ ان کے بچے امریکیوں کی بمباری اور ان کے ” آتش جہنم “ نامی میزائلوں سے محفوظ رہیں۔ ان کے ہاں رنگا رنگ سوالات کا پیدا ہونا عین فطری عمل ہے کیونکہ وہ اس بے چہرہ جنگ کا احاطہ نہیں کر رہا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ ہم افغانستان پر حملے کے لئے امریکہ کا دست و بازو کیوں بنے ہوئے ہیں؟ وہ نہیں جان پا رہے کہ ہماری فوج اپنے ہی عوام سے کیوں الجھی ہوئی ہے؟ وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ اگر ہم امریکہ کے اتحادی ہیں، اگر ہم اس کی ہمہ پہلو مدد کر رہے ہیں، اگر ہم اس کے ” نان نیٹو الائی “ ہیں تو پھر وہ ہماری فوج، ہماری حکومت اور ہمارے عوام کی سوچ کو ٹھوکر مار کر اپنی من مانی کیوں کر رہا ہے؟ ہماری زمینی اور فضائی حدوں کو تاراج کیوں کر رہا ہے؟ اور اگر کر رہا ہے تو ہمارا کردار و عمل کیا ہونا چاہئے؟
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کا المیہ اس لئے وقوع ہوا کہ اس وقت بھی طاقت آزمائی کو مسئلے کا حل سمجھ لیا گیا تھا۔ بنگالیوں کے مطالبات کو جاننے ان کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے اور ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے یہ حکمت عملی بنی کہ ان کو مارو۔ جس دن قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر کے ٹکہ خان کا خوں آشام آپریشن شروع ہوا اس دن بھٹو صاحب نے کہا ” شکر ہے پاکستان بچ گیا “۔ آج بھی کچھ لوگ باجوڑ، سوات اور وزیرستان کے آپریشن کو پاکستان بچانے کی جنگ سمجھتے ہیں، لیکن نفرتیں خاردار جڑی بوٹیوں کی طرح اگ رہی ہیں اور ایک ایسی فصل جوان ہو رہی ہے جسے کاٹنے میں جانے کتنے برس لگیں گے۔
چند باتیں واضح ہو جانی چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کے لوگ دہشت گردی کے خلاف ہیں اور ہر نوع کی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ اسکولوں کو جلانے، بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنے اور سر عام گردنیں اڑانے والے تصور اسلام کے حامی نہیں۔ تیسری یہ کہ وہ امریکہ سے جنگ نہیں چاہتے بلکہ حتی الامکان اچھے تعلقات کے طلب گار ہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ دہشت گردی کی جس لہر نے نائن الیون کے بعد پاکستان میں سر اٹھایا، وہ امریکی یلغار کے بطن سے پھوٹی۔ اگر امریکہ کی سفاکانہ لشکر کشی جاری رہتی ہے اور پاکستان اسی طرح اس لشکر کا ہر اول دستہ بنا رہتا ہے تو شاید پاکستان کے لوگوں کو یہ باور کرانا مشکل ہو کہ یہ ان کی جنگ ہے۔ امریکی طیاروں نے صرف پہلے سال پاکستان کے ہوائی اڈوں سے 57,800 اڑانیں بھریں اور افغان بستیوں کو غارت کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں بے گناہ انسانوں کی گردنیں اڑائیں۔
بحث مباحثہ ہر جاندار سوسائٹی کا حق ہے۔ پاکستانی بلاشبہ ایک قوم ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں ان کا یہ قومی تشخص پوری طرح ابھر کر سامنے آیا تھا اور آج بھی یہ تشخص پوری قوت کے ساتھ دلوں میں مورچے بنائے بیٹھا ہے۔ امریکی وار آن ٹیرر کے مکروہ اثرات و نتائج کے حوالے سے یکسو نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ قومی احساس سے محروم ہیں۔ معاملہ صرف یہ ہے کہ ان کا ذہن تسلیم نہیں کر رہا اور ان کے دل میں یقین کا چراغ نہیں جل رہا۔
تازہ ترین