• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے تیسرے دورِ اقتدار کے پہلے نصف میں، وزیراعظم نوازشریف کا یہ دوسرادورۂ امریکہ تھا( اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے تین وزٹ اس کے علاوہ تھے)وائٹ ہاؤس کے اووَل آفس میں اوباما ، نواز ملاقات کے علاوہ، بلیو روم کی تقریب بھی سیاسی و صحافتی حلقوں کی گہری توجہ کا مرکز تھی، جہاں اسٹیج پر مریم نواز، امریکی خاتونِ اوّل مشعل اوباما کے شانہ بشانہ تھیں۔ (حاضرین میں پاکستانی خاتونِ اوّل محترمہ کلثوم نواز بھی اپنی دونواسیوں کے ساتھ موجود تھیں) اور اب وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے ’’ثمرات‘‘ پر تجزیوں کے ساتھ پاکستانی سیاست میں مریم نواز کا آئندہ کردار بھی تبصروں کا موضوع ہے۔ فیلڈمارشل ایوب خاں ، بیرونی دوروں میں بیگم صاحبہ کی بجائے اپنی صاحبزادی نسیم اورنگ زیب کو لے جاتے۔ بیگم صاحبہ کے لئے شاید پروٹوکول کے تقاضوں کو نبھانا مشکل تھا۔ بھٹو صاحب بے نظیر کو ساتھ رکھتے۔ آکسفورڈ میں تعلیم کے دِنوں میں بھی اس کا اہتمام کیا جاتا۔ اندراگاندھی کے ساتھ شملہ مذاکرات میں 19سالہ بینظیر بھی موجود تھیں۔ کہا جاتا ہے، بھٹو صاحب انہیں فارن آفس میں اہم ذمہ داری کے لئے تیار کر رہے تھے۔ ضیا الحق کے مارشل لاء میں بھٹو صاحب کی قید اور پھر دُنیا سے رخصتی کے بعد ابتلاوآزمائش کے دِنو ں میں بیگم نصرت بھٹو اُن کی جانشین قرار پائیں۔ مصائب میں ماں بیٹی دونوں ساتھ تھیں۔ اپریل 1986میں خود اختیار کردہ جلاوطنی سے واپسی پر بے نظیر بھٹو پارٹی کی شریک چیئرپرسن تھیں، جس کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ وہ پارٹی کی تاحیات چیئرپرسن بھی ہوگئیں۔
لیکن مریم کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ 12اکتوبر 1999کو میاں صاحب کی معزولی تک ، بیگم صاحبہ اور مریم کی سیاست سے دلچسپی نظری حد تک تھی۔ گھر میں سیاست پر گفتگو ضرور ہوتی لیکن شریف فیملی کی خواتین کا عملی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ، مگر میاں صاحب کے ’’جرم‘‘ کا خمیازہ تو انہیں بھی بھگتنا تھا چنانچہ تمام خواتین 38روز تک گھر میں یوں نظر بند رہیں کہ وہ اپنے اپنے کمروں میں قید تھیں، بڑے میاں صاحب(مرحوم) اور والدہ صاحبہ کے لئے بھی کوئی رعایت نہیں تھی۔ ٹیلیفون کاٹ دیئے گئے تھے۔ اخبارات بھی دستیاب نہ تھے، ریڈیو اور ٹیلیوژن بھی اُٹھالئے گئے ۔ گھریلو ملازمین کمروں میں کھانا پہنچادیتے لیکن انہیں بھی گفتگو کی اِجازت نہ تھی۔ 38روز بعد خواتین کو رہائی ملی لیکن شریف فیملی کے تمام مرد اب بھی زیرحراست تھے۔ مسلم لیگیوں میں سے بیشتر نے مصلحت اور مفاہمت کی چادر اوڑھ لی تھی۔ تب بڑی بیگم صاحبہ نے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا میں اپنے شوہر کی قسمت کا فیصلہ دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتی۔ موجودہ حالات میں میرا سیاست میں عملی کردار ناگزیر ہے۔ رفتہ رفتہ خوف ٹوٹنے لگا، کارکنوں میں ہمت اور حوصلہ لوٹ آیا۔ بیگم صاحبہ رکاوٹوں کو توڑ کر آگے بڑھیں۔ 8جولائی کو دُنیا بھر کے ٹی وی چینلزدِن بھر یہ مناظر دِکھاتے رہے کہ پولیس بیگم صاحبہ کی گاڑی اُٹھا کر لے جارہی ہے۔ گاڑی کے اندر جاوید ہاشمی اور تہمینہ دولتانہ بھی تھے۔ یہ سب لوگ گاڑی کے اندر ہی دس گھنٹے تک حراست میں رہے۔ 14اگست کو مزارِ قائد پر بیگم کلثوم نواز کی آمد پر پولیس کے بدترین لاٹھی چارج سے کئی افراد زخمی ہوگئے۔ کراچی پریس کلب میں بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں’’ آئین بحال ہوجائے تو مشرف کی جگہ وہ کال کوٹھڑی ہوگی جس میں نوازشریف کو رکھا گیا ہے۔‘‘ میاں صاحب کی جیل سے رہائی اور ملک بدری میں سعودی دوستوں کے علاوہ بیگم صاحبہ کی جدوجہد کا دَخل بھی تھا۔ ابتدا میں مریم بھی اپنی والدہ کے ساتھ نظر آئیں، لیکن پھر دادا کے کہنے پر وہ گھر کی چاردیواری تک محدود ہوگئیں۔ تب مریم کے بچے بہت چھوٹے تھے اور انہیں ماں کی توجہ کی ضرورت تھی۔ 10دسمبر 2000کو جلاوطن ہونے والوں میں مریم بھی تھیں۔ وطن واپسی پر مریم نے جاتی امرا میں جدید ترین ہسپتال اور جدید تعلیمی ادارے چلانے والے شریف ٹرسٹ کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 2013کے عام انتخابات سے قبل عمران خان کا ’’سونامی‘‘ مسلم لیگ(ن) کے لئے ایک نیا چیلنج لایا تھا۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ خواتین اور نوجوان نسل ’’سونامی‘‘ کی نذر ہوچکی لیکن یہ جزوی صداقت تھی۔ نوجوانوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت بھی موجود تھی لیکن یہ منظم نہ تھی۔ حمزہ شہباز کا رابطہ مسلم لیگ کے نوجوان ورکرز سے تھا۔ مریم نے طالبات کے کالجوں کا رُخ کیا۔ اُن کی تقاریر گہرا رنگ جمارہی تھیں۔ نپے تُلے الفاظ، فقرے سے فقرہ اور لفظ سے لفظ جڑا ہوا، ذہانت کی چمک دمک کے ساتھ پُراعتماد لہجہ، اُردو کے علاوہ انگریزی کا بھی قابلِ رشک تلفظ، کہیں کہیں اقبال کے شعر یا مصرعے کا برمحل استعمال گفتگو کو چار چاند لگادیتا۔ مسلم لیگی خواتین بھی مریم کے گرد جمع ہونے لگیں۔ کسی رسمی عہدے کے بغیر وہ ملک بھر میں مسلم لیگ(خواتین ونگ) کی رہنمائی کر رہی تھیں۔ 11مئی کے انتخابات کے لئے انہوں نے لاہور میں میاں صاحب کے حلقے کی کمان سنبھالی۔ مریم کی جدوجہد ثمر بار رہی تھی۔ 11مئی کے انتخابات میں مسلم لیگ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرنے والوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی تھی۔ اعداد وشمار کے مطابق16سے 24سال کے 37فیصد نوجوانوں نے مسلم لیگ ن کو، 26فیصد نے تحریک ِ انصاف کو اور 16فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیئے تھے۔ 25سے 29سال کے ووٹوں میں 30فیصد مسلم لیگ(ن)، 22فیصد تحریک ِ انصاف اور19فیصد پیپلزپارٹی کے حصے میں آئے۔ 30سے 35سال کے رائے دہندگان میں 36فیصد نے مسلم لیگ (ن) ،15فیصد نے تحریک ِ انصاف اور 19فیصدنے پیپلزپارٹی کوووٹ دیئے تھے۔ اِدھر الیکشن مکمل ہوئے، اُدھر مریم دوبارہ منظر سے غائب ہوگئیں جس طرح بیگم صاحبہ مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے بعد واپس گھر کی چاردیواری میں چلی گئی تھیں۔
میاں صاحب کے تیسرے دورِ اقتدار میں، ملک کے نوجوان اُن کی توجہ کا خصوصی مرکز تھے ۔ اس کے لیے 100ارب روپے کی ’’پرائم منسٹر یوتھ لون اسکیم‘‘ کی نگرانی کے لئے اُن کی نظر اپنی ہونہار صاحبزادی پر گئی۔ 7دسمبر2013کی شام پرائم منسٹر آفس کی اس تقریب میں پُراعتماد لہجے میں مریم کی نصف گھنٹے کی گفتگو نے سب کو متاثر کیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر مریم اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئیں۔ اب میڈیا کے معاملات اُن کی توجہ کا مرکز تھے۔ سیاسی معاملات پر اُن کے ٹوئٹ پر ان کی سیاسی بصیرت اور ذہانت کے عکاس تھے اوراب وہ خواتین میں فروغِ تعلیم کے لئے صدر اوباما اور خاتونِ اوّل مشعل کے پروگرام’’Let girls learn‘‘میں پارٹنر ہیں۔ مشعل نے اس کے لئے انہیں امریکہ آمد کی خصوصی دعوت دی تھی۔اس منصوبے میں پاکستان کے لئے 70ملین ڈالر مختص کئے گئے ہیں جس سے دس سے 19سال کی 2لاکھ خواتین استفادہ کریں گی۔ اس موقع پر مریم کی تقریر اُن کی ذہانت اور خوداعتمادی کا شاہکار تھی اور اس کے ساتھ تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کو نیا موضوع ہاتھ لگ گیا ۔ مستقبل میں مریم کا سیاسی کردار؟ کیا وہ اپنے والد کی سیاسی جانشین ہوں گی؟ اور یہ بھی کہ امریکی ، آئندہ برسوں میں بھی پاکستان کی سیاست میںمسلم لیگ کا اہم کردار دیکھتے ہیں۔
پس نوشت:۔ کراچی سے برادرم نصیر سلیمی نے افسوسناک خبر دی۔ شہر قائد ، نام و نمود سے بے پروا ایک صاحبِ خیر سے محروم ہوگیا۔ چوہدری اِلٰہی بخش 85سال کی عمر میں آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ تحریک ِ پاکستان کے دِنوں میں مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور نوازشریف کی مسلم لیگ کو، قائداعظم کی مسلم لیگ سمجھ کر تادمِ آخر عہدوفا نبھاتے رہے۔ وہ چوہدری رحمت علی میموریل سوسائٹی کے بانی صدر کے علاوہ انجمن ِ گوجراں کے مرکزی ناظمِ اعلیٰ اور سندھ کے صدر بھی تھے لیکن نسلی و لسانی تعصب انہیں چھو کر بھی نہ گزرا۔ وہ برادریوں کو محض تعارف کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اپنے رزق کا بڑا حصہ اہل حاجت کی نذرکردیتے۔ رمضان کے دِنوں میں اپنی بیکری کی قیمتیں کم کردیتے ۔ ضرورت مندوں کے لئے افطاری کا مفت اہتمام ہوتا، وہ افطار پیکٹ اپنے گھر بھی لے جاسکتے تھے۔ اکتوبر 2005کے زلزلے کے متاثرین کے لیے شب وروز ایک کردیئے۔ نوازشریف لانڈھی جیل میں گرفتار تھے تو ملک بھر سے آنے والے اُن کے ملاقاتیوں کی میزبانی کرتے۔ وزیراعظم نوازشریف ، صدر ممنون حسین کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے تھے لیکن کبھی کسی سیاسی مفاد کا خیال تک ذہن میں نہ لائے۔
تازہ ترین