• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
New Us President Donald Trump

یہ یقینی طور پر ایک غیر متوقع فتح ہے لیکن ایک شخص اس کامیابی کے لئے انتہائی پرامید تھا اور وہ تھا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا نیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔اس طرح امریکہ کی تاریخ میں ایک نیا اورحیرت انگیز باب لکھا گیا۔ ایک شخص جسے حکومت کا کسی شکل میں کوئی تجربہ نہ ہو اور کبھی کسی منتخب عہدے پر نہ رہا ہو وہ امریکہ کا نیا صدر ہے۔ اس نے اپنے ناقدوں اور مخالفین کو چپ کرا دیا ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی کی خبر سن کر دنیا بھر کے مبصرین بھونچکے رہ گئے ۔اسٹاک مارکیٹس پر یہ خبر گویا نائیٹروجن بم بن کے گری ،اربوں ڈوب گئے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سربراہ کے طور ٹرمپ زبردست قوت کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں جائیں گے جہاں صدارت، ریپبلکن سینیٹ اورریپبلکنز کے زیر کنٹرول ایوان نمائندگان ہوگی۔ اور ٹرمپ وہ سب کچھ کر سکیں گے جو اوباما چاہنے کی باوجود نہیں کر سکے۔ ایک نیا امریکہ جنم لے چکا ہے جو اب روایتی امریکی سیاست کو مسترد کر کے نئے فیصلے کرنے کے لئے نئی دنیا بنانے چلا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ امریکی ادارے بہت مضبوط ہیں، وہاں ایک شخص خواہ وہ امریکی صدر ہی کیوں نہ ہو اپنی من مانی نہیں کر سکتا لیکن یاد رہے وائٹ ہاؤس کا مکین اب ایک مختلف شخص ہے جس نے روایتی امریکی سیاست کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس کے پاس اپنے وعدے پورےکرنے کے مواقع ہیں۔ وہ اپنے نامزد شخص سے سپریم کورٹ کی خالی جگہ کو پر کرے گا۔ ٹرمپ کو اس ڈیڈ لاک کا شکار نہیں ہونا پڑے گا جس کا صدر براک اوباما کو سامنا تھا۔ ٹرمپ نے انتخابی ریلیوں کے دوران پہلے مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی کی بات کی مگر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد انھیں اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقلتیوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف بیان نے مسلم ووٹرز کو ناراض کیا مگر بعض پاکستانی نژاد امریکی ووٹرز نے ان کی حمایت بھی کی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی کی اور کہا کہ میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ ماحول دیکھنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ معاملہ بہت گرم ہے۔ اگر دونوں ملک دوستانہ ماحول میں ساتھ رہیں تو یہ بہت اچھا ہوگا اور مجھے امید ہے کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں ۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار انہوں نے مسئلہ کشمیر سے بھی کیا۔ گو کہ ان کی کامیابی پر بھارت میں جشن کا سا سماں ہے لیکن پاکستان کے ساتھ آنےوالے دنوں میں امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئے گی کیونکہ آنے والا وقت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ خطے میں چین کے بڑھتےاثر پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات امریکہ کے اپنے مفاد میں ہیں ۔ماضی کو دیکھا جائے تو عموماً ری پبلکن دور صدارت میں پاکستان کو فائدہ ہوا ہے جبکہ ڈیموکریٹس کے دور میں پاک امریکا تعلقات کھچاؤ کا شکار رہے۔گو ٹرمپ کو ان کے پالیسی بیانات کے باعث دنیا بھر کے لیے 'خطرہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اپنے بیانات سے قطع نظر ٹرمپ پاکستان کے لیے کسی حقیقی خطرے کا باعث نہیں ہو سکتے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا میں حکومتی تبدیلی بالواسطہ طور پر پاکستان پر کچھ اثرات ضرور مرتب کر سکتی ہے چنانچہ آنے والے دنوں میں پاک بھارت تعلقات اور پاک بھارت افغان تعلقات میں تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔بلاشبہ یہ سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ امیدوار ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا، جنھوں نے ’قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی، جنھوں نے رائے عامہ کے جائزوں اور تمام پیش گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا۔ٹرمپ کی صدارت پر پاکستان یا دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت خود امریکیوں کو زیادہ تشویش ہے ۔

تازہ ترین