• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ایک دوست کا قد پانچ فٹ اور وزن ڈھائی من ہے، اپنے دوستوں میں اپنی اس ’’قابل رشک‘‘ صحت کی بدولت خاصی چہ میگوئیوں کا باعث بنتے ہیں۔ دوست ان سے اتنی عمدہ صحت کا راز اکثر پوچھتے ہیں مگر وہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ گزشتہ روز میں نے بھی انہیں خاصا ٹٹولا، مگروہ طرح دے گئے، لیکن میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ حوصلہ نہیں ہاروں گا اور آج میدان مار کر ہی اٹھوں گا، چنانچہ بالآخر میری کوششیں رنگ لائیں اور میں اس ’’بھینسے‘‘ کو ’’رنگ‘‘ میں لانے میں کامیاب ہوگیا، یعنی میرے مسلسل سوالوں سے تنگ آکر انہوں نے اپنی پھولی ہوئی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئےکہا ’’میرے عزیز میری صحت کا راز صرف ایک چیز میں مضمر ہے اور وہ ہے ورزش اور صرف ورزش!‘‘ ان کی توند توپھولی ہوئی تھی، یہ کلمات ادا کرتے ہوئے ان کا سانس بھی پھول گیا،
’’ورزش؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں میرے عزیز، ورزش؟‘‘
انہوں نے پورے سکون سے جواب دیا۔
’’مگر کون سی ورزش؟ آپ صبح دوڑ لگاتے ہیں؟‘‘
ارے نہیں بھائی، یہ تو شرفاء کا وطیرہ نہیں، لوگ سمجھیں گے، اچکا ہے کسی کی چیز اٹھا کر بھاگ رہا ہے‘‘۔
’’ڈنڈ بیٹھکیں؟‘‘
’’لاحول ولاقوۃ۔‘‘
’’یوگا؟‘‘
’’استغفراللہ!‘‘
’’ویٹ لفٹنگ؟‘‘
’’نعوذباللہ!‘‘
’’تو روزانہ چہل قدمی کرتے ہیں؟‘‘
’’ارے میاں لعنت بھیجتا ہوں اس چہل قدمی پر! خدا نے سواری کس لئے دی ہے؟‘‘
’’تو پھر آپ بھار جھونکتے ہوں گے؟‘‘ میں نے چڑ کر کہا،
’’ہا ہا ہا‘‘ جیسے ان کی توند میں بھونچال سا آگیا، ’’اب تم راہ پر آئے ہو، میاں میری پہلی ورزش تو یہی ہے یعنی تم نے ایک مزے کی بات کہی تو ہنسنے سے پیٹ کی ورزش ہوگئی۔‘‘ اور اس کے بعد انہوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا غالباً یہ ان کی طرف سے جبڑوں، پھیپھڑوں اور پیٹ کی ورزش تھی اور کورس میں تھی!
تب یہ دوست مجھ پر آہستہ آہستہ کھلے اور انہوں نے اس انکشاف سے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ وہ تو اشیائے زمانہ کے برعکس اپنے جسم کے ایک ایک عضو کی علیحدہ علیحدہ ورزش کرتے ہیں۔
’’میاں! تم لوگ کیا جانو ورزش کیا ہوتی ہے‘‘ انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ’’یہ ہاتھ دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’میں نے درخت کے تنے جیسے اس ہاتھ کو ہاتھ لگائے بغیر ایک نظر دیکھا اور کہا، ہاں دیکھ رہا ہوں!‘‘
’’اور انگلیاں بھی؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’تو عزیزم انگلیوں کی ورزش علیحدہ ہے اور ہاتھ کی علیحدہ! تم لوگ سگریٹ پیتے ہو اور آدھا سگریٹ جل جاتا ہے، مگر تم ’’گل نہیں جھاڑتے!‘‘
’’مگراس کا تعلق اس سارے مسئلے سے کیا ہے؟‘‘
’’اسی سے تو ہے!‘‘
انہوں نے مسکرانے کی کوشش میں جبڑوں کی ورزش کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں ہر کش کے بعد گل جھاڑتا ہوں جس کے لئے درمیان والی دو انگلیوں اور انگوٹھے کو جھٹکنا پڑتا ہے، یہ انگلیوں اور انگوٹھے کی ورزش ہے۔ دن میں بیسیوں دفعہ یہ ورزش کرتا ہوں، تم لوگ تو بہت سست الوجود ہو!‘‘
’’اور حضرت ہاتھ کی ورزش کس طرح فرماتے ہیں!‘‘
’’یہ تو ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہے، حضرت نے فرمایا ’’بس یوں ہے کہ دفتر میں افسران بالا کو آتے جاتے ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا ہوں، یہ ورزش کی ورزش ہے اور اس سے بڑوں کے احترام کا فرض بھی پورا ہو جاتا ہے۔‘‘
’’بیٹھے بٹھائے پیٹ کی ورزش ہوگئی، انگلیوں اور انگوٹھے کی ہوگئی، ہاتھ کی ہوگئی، مگر پائوں کی ورزش کے لئے تو آپ کوبہرحال اپنی جگہ سے ہلنا جلنا پڑتا ہوگا، کچھ چلنا پھرنا پڑتا ہوگا!‘‘
ارے نہیں میاں نہیں! یہ روگ تو تمہی لوگوں نے پالے ہوئے ہیں، میرے پاس ایک موٹر سائیکل ہے، جسے اسٹارٹ کرنے کے لئے دن میں ہر بار پندرہ بیس ککیں لگانا پڑتی ہیں بلکہ میں تو ورزش کو صحت انسانی کے لئے اس قدر ضروری سمجھتا ہوں کہ اہل محلہ کو بھی اس طرف راغب کرنے میں لگا رہتا ہوں۔ چنانچہ اکثر جب ضرورت پڑتی ہے تو موٹر سائیکل کو دھکا انہی سے لگواتا ہوں!‘‘
پانچ فٹ قد اور ڈھائی من وزن والے اس دوست کی یہ باتیں میں نے سنی تو جی چاہا کہ ان کے ہاتھ چوم لوں، اور یوں ان کی اس مشقت کو خراج تحسین پیش کروں جو وہ خود کو اسمارٹ رکھنے کے لئے روا رکھتے ہیں مگر میں نے بوجوہ خود پر قابو پایا اور چلتے چلتے پوچھا کہ ’’یا اخی! اتنی بھرپور ورزش کے بعد تو ظاہر ہے آپ کو ڈائٹنگ وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی جس کی وبا ان دنوں عام ہے!‘‘
’’یہ تم نے بہت اچھا سوال کیا‘‘ انہوں نے پہلو بدلتے ہوئے غالباً پہلو دار ورزش کرتے ہوئے کہا ’’مگرتم یہ سن کر حیران ہوگئے کہ میں اس معاملے میں بھی بہت احتیاط برتتا ہوں ، میں ڈائٹنگ تو نہیں کرتا، مگر میں نے اپنی خوراک بہت معتدل رکھی ہوئی ہے، یعنی صبح صرف دو انڈے چائے کے ایک کپ اور تین پراٹھوں کے ساتھ کھاتا ہوں، دوپہر کو دس بارہ روٹیاں تندور سے منگوا لیتا ہوں اور گھر میں جو پکا ہو اس کے ساتھ کھا مر لیتا ہوں، میرا رات کا کھانا بھی اسی طرح ہلکا پھلکا ہی ہے، یہی کوئی پائو بھر چاول، چند چپاتیاں اور ایک آدھ مرغی کا شوربہ یا پھر رات کو سوتے وقت جگ میں جو دودھ سماتا ہے اس میں دو تین چھٹانک گھی کا تڑکا لگا کر پی لیتا ہوں، میں تو شاید اپنی خوراک اس سے بھی سادہ رکھتا مگر عزیزم باقی اعضائے جسمانی کی طرح آخر دانتوں کی ورزش بھی تو ضروری ہے، اب ذرا جاتے جاتے میرے جیب میں ہاتھ ڈال کر میری سگریٹ کی ڈبیہ تو نکالنا، گزشتہ دس منٹ سےمیں انگلیوں کی ورزش سے غفلت برت رہا ہوں!‘‘
تازہ ترین