امریکہ کے بارے میں میرا خیال یہ رہا ہے کہ وہ ہمارا بیوفا محبوب ہے۔ اس نے کئی بار ہمارا دل توڑا ہے اور جب اس کا جی چاہا ہم سے اپنی محبت کا والہانہ اظہار بھی کیا ہے۔ ویسے میں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ سیاست کی طرح خارجہ تعلقات بھی انسانی رشتوں اور جذبات کے پابند نہیں ہوتے ۔ لیکن یہاں معاملہ امریکہ کا ہے کہ جس کا ہم سے بلکہ ساری دنیا سے ایک عجیب وغریب رشتہ ہے۔ اس کے کتنے روپ ہیں۔ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کے کئی اہم شعبوں پر امریکہ کا غلبہ ہے۔ امریکہ کی حقیقت کچھ بھی ہو، وہ ایک خواب بھی ہے۔ خواہ ہم اس سے نفرت کریں یا محبت( اور یہ دونوں کام بہ یک وقت کئے جاسکتے ہیں) ہم اسے نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ اس تعلق کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہمارے متوسط اور دولت مند طبقے کے کئی لاکھ خاندانوں کے افراد امریکہ میں رہتے ہیں۔ کتنے ہی گھرایسے ہیں جن کے خالی کمروں میں یادیں رہتی ہیں اور جن میں اکیلے رہ جانے والے بوڑھے والدین انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی کھڑکی کھول کر تصویروں سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ کسی حد تک میری بھی یہی کہانی ہے ۔ لیکن میں امریکہ سے اپنے تعلق کو ایک اور نظر سے بھی دیکھتا ہوں۔ مجھے یہ غلط فہمی رہی ہے کہ میں اس ملک کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں اس ملک کی تاریخ اور اس سے زیادہ اس کے ادب اور کلچر سے واقف ہوں۔ ہرسال کے دوروں کے علاوہ، بہت سال ہوئے میں امریکہ میں پہلے ایک سال اور پھر دوسال کے لئے رہا بھی ہوں۔ اسی لئے میں نے امریکہ کی داخلی سیاست میں مسلسل دلچسپی لی ہے۔ ہراہم تقریر کوغور سے سنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آٹھ سال پہلے جب سیاہ فام اوباما نے صدارتی انتخاب جیتا تھا اور اس رات تقریر کی تھی، تومیری آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ یہ امریکی جمہوریت کا کیسا اعجاز تھا کہ اوباما جیسا شخص دنیا کے سب سے طاقت ور ایک ایسے ملک کا صدر بن سکا کہ جس کی بنیادوں میں افریقہ سے خریدے گئے غلاموں کا لہو شامل تھا ۔ اس ہفتے بھی امریکہ کے صدارتی انتخاب کے نتائج دیکھ کرمیری کیفیت کچھ ایسی تھی کہ آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ حیرت اور مسرت کی نہیں بلکہ ماتم کی گھڑی تھی ۔ احساسات اور تصورات کی ایک پوری عمارت جیسے پلک جھپکتے میں ملبے کا ڈھیر بن گئی ۔ میں نے ان تمام امریکیوں سے ایک جذباتی لگائو محسوس کیا کہ جن کے خواب یوں چکنا چور ہوئے ۔ آپ کہیں گے کہ میرے لئے امریکہ کی سیاست میں اتنی گہری دلچسپی کا کیا جواز ہے۔ کچھ تو اس تعلق کی وضاحت میں کرچکا ہوں۔ مزید یہ کہ صرف امریکہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے واقعات کی دھمک ہم سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہم عراق کی جنگ میں شامل نہیں تھے؟ کیا مسلمان دنیا کی کئی جنگیںہمارے اپنے ملک میں نہیں لڑی جارہیں؟ کیا عالمی طاقتوں کی زور آزمائی سے ہماری اپنی قومی سلامتی کا کوئی تعلق نہیں ؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو قومی سرحدوں پر کوئی انہیں روک نہیں سکتا ۔ دہلی کی آلودہ دھند لاہور کی آلودہ دھند کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ سو امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا واقعہ ( سانحہ؟) ہماری توجہ کا پوری طرح مستحق ہے۔ اپنی بات کہوں تومیں اس طویل سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہوں۔ امریکہ کا جمہوری نظام ایک پہیلی ہے اور میں اس کے اسرارورموز کو بڑی حد تک سمجھتا ہوں۔ میں نے دونوں بڑی جماعتوں کے قومی کنونشن براہ راست نشریات میں تکلیف دہ اوقات میں دیکھے ہیں۔ وہ یوں کہ گھڑی کا وقت امریکہ اور پاکستان میں اتنا مختلف ہے۔ اور خود امریکہ کے مشرقی اورمغربی ساحلوں کے درمیان تین گھنٹوں کا فاصلہ ہے۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب میں ساری رات امریکی ٹیلی وژن دیکھتا رہا پہلے توشوق سے کہ ذرا سا بھی شک نہیں تھا کہ ایک خاتون امریکہ کی صدر بن کر تاریخ بنانے جارہی ہیں۔ صبح ہوتے ہوتے ، جب آنکھیں نیند سے بند ہونے لگی تھیں، یہ خوف جاگ اٹھا کہ یہ کمبخت ٹرمپ تو آگے بڑھ رہا ہے۔ کسی دوسری شکل میں، یہ بھی توایک نئی تاریخ بن رہی تھی ۔ امریکہ کی جمہوریت بلکہ اس کا پورا سیاسی اور سماجی نظام ایک کروٹ لےرہا تھا ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیسے ممکن ہے۔ ہاں ایسے چند لوگ تھے کہ جواختلافی بات کہنے کے شوق میں ٹرمپ کی کامیابی کی پیش گوئی کرتے تھے لیکن عقل کسی طرح یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی کہ ٹرمپ امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔ ساری دنیا، دانتوں میں انگلی دبائے، یہ دیکھ رہی ہے کہ یہ انقلاب تورونما ہوچکا ہے۔ عمران خان کو کوئی بتائے کہ سونامی اسے کہتے ہیں۔
میں اسی صدمے میں تھا جب کسی نے مجھ سے پوچھا کہ اب امریکہ دنیا کو کیا منہ دکھائے گا؟ دراصل سوالات توبہت ہیں۔ ایسے بھی جن کا سامنا صرف امریکیوں کوہے اور ایسے بھی جو عالمی سطح پر جمہوریت کی قدروقیمت اور اس کے مستقبل کے بارے میں غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں اپنے حالات کے بارے میں اکثر مایوسی کا اظہار کرتا ہوں اور میرا بڑ ادکھ یہ ہے کہ انتہا پسندی، نفرت اور قوم پرستی کے ریلے میں روشن خیال جمہوری اور انسان دوست قوتیں پیچھے ہٹتی جارہی ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے پوری دنیا اس ڈھلان پر پھسلتی دکھائی دے رہی ہے اور اسی طرح بنیادی طور پر غیر جمہوری رویے جمہوریت کے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کہنے کو تودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن ہندوانتہا پسندوں نے مودی کی قیادت میں اس پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ برطانیہ میں ابھی جون کے مہینے میں، یورپی یونین سے علیحدگی کی عوامی رائے بھی زہر آلود قوم پرستی کا ایک اظہار تھی ۔ یورپ میں، خاص طور پر شام کے پناہ گزینوں کے سوال پر، دائیں بازو کے نسل پرستانہ خیالات سیاست پرحاوی ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مغربی ممالک اپنی تہذیب میں قدامت پرستی کی ملاوٹ کے خطرے کومحسوس کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں آپ یہ دیکھیں کہ امریکی معاشرے میں کس نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور کس کو ان تبدیلیوں سے کس قسم کے خطرات ہیں اور ٹرمپ نے کس طبقے کی شکایتوں اور نفرتوں کواپنی خونخوار سیاسی مہم کا ایندھن بنایا ہے۔ یعنی اگر اوباما کاانتخاب امریکی جمہوریت کی عظمت کی گواہی تھاتو ٹرمپ کی جیت اس جمہوریت کے چہرے پر ایک داغ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب امریکہ کے بارے میں دنیا کے خیالات میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ ایک مقتدر امریکی رسالے نے اسے ایک امریکی المیہ کہاہے۔ ٹرمپ ایک نسل پرست اور فاشسٹ ذہن کا مالک ہے۔ اس کا انتخاب ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ امریکی معاشرے میں ایک تلاطم کی سی کیفیت ہے اور موجودہ جمہوری نظام اسے برداشت نہیں کرپارہا گویا امریکہ کے سیاسی نظام کو ایک دھچکا لگا ہے۔ پھر بھی، مسئلہ صرف یہ نہیں کہ امریکہ کیسے بدل رہا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کیسے بدل رہی ہے۔ ہمارے اپنے مستقبل کا اس سے تعلق ہے کیونکہ ہمیں بھی انتہا پسندی اور نفرت کی قوتوں سے لڑنا ہے۔ اور میں خود کو ہارے ہوئے لوگوں میں شمار کرتا ہوں۔ آپ کو اس کالم کا عنوان اگر شاعرانہ لگتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہےکہ یہ سلیم کوثر کے شعری مجموعے کانام ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے۔ شعر یہ ہے
مجھ کو اسی بات کا تو غم ہے
دنیا مری آرزو سے کم ہے
.