سید سرفراز شاہ صاحب کی ایک اور نئی کتاب ’’ارژنگِ فقیر‘‘ شائع ہوگئی ہے۔ جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں :’’مایوسی سے بچنے کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ رب کے ساتھ دل سے تعلق قائم کرلیاجائے اور وہ تعلق قائم کرنے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی رات عشا کی نماز کےبعددو نفل پڑھ کر رب سے کہئے ’’یا باری تعالیٰ! آج سے میں نے اپنا آپ، اپنی اولاد اور اپنے متعلقین اور اپنے معاملات سب تیرے سپرد کردیئے۔ اب میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میرے تمام مسائل رب میرے بہترین مفاد میں حل کردےگا۔‘‘ اپنے تمام مسائل، پریشانیاں، فکریں، گٹھڑی میں باندھ کر رب کے حوالے کردیں اور پھر ان سے لاتعلق ہو جائیں۔ اس کے بعد اپنی مقدور بھر کوشش کرتے رہیں اور نتائج کو بھلا دیں۔ مزے سے سیٹی بجاتے رہیں۔ رب جو عطاکردے اسے خوش دلی سے قبول کرلیں۔ ہر حال میں ہنستے اورقہقہے لگاتے رہیں۔ یہ سوچ کر کہ یہ میرا تو پرابلم ہی نہیں ہے۔ جب آپ ایسا کرلیں تو ڈپریشن تو دور کی بات ہے کوئی رنجیدگی بھی قریب سے نہیں گزرے گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ رب کے ساتھ یہ تعلق ایمانداری سے قائم کیجئے گا۔‘‘
شاہ صاحب قبلہ نے رب کائنات سے قرب حاصل کرنے کا نسخہ ٔ کیمیا بیان کردیا ہے جس پر عمل کرکے انسان دنیا کے تمام بکھیڑوں سے انتہائی آسانی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اس سے قبل شاہ صاحب قبلہ کی چار کتابیں ’’کہے فقیر‘‘، ’’فقیر رنگ‘‘ ، ’’فقیر نگری‘‘ ، ’’لوح فقیر‘‘ شائع ہوچکی ہیں۔ قبلہ شاہ صاحب اتوار کی صبح اقبال ٹائون میں اپنی رہائش گاہ پر درس دیتے ہیں۔ سوال و جواب کی ان نشستوں میں جو کچھ بیان ہوتاہے یہ تمام کتابیں انہی خوبصورت نشستوں کی گفتگو پر مشتمل ہیں جس میں حاضرین مختلف دنیاوی، روحانی اور دینی موضوعات پر سوال کرتے ہیں اور شاہ صاحب قبلہ اس طرح ان کا جواب دیتے ہیں کہ سوالی کو مکمل جواب مل جاتا ہے اور انہیں کتابی صورت دینے سے ہر خاص و عام اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ قبلہ شاہ صاحب لاہور، کراچی اور کبھی کبھی لندن میں خاص و عام کے لئے مجالس منعقد کرتے ہیں جسے ’’دعا‘‘کے نام سے منسوب کیاگیا ہے۔ جس میں شاہ صاحب دعا کرتے ہیں اور دوابھی تجویز فرماتے ہیں۔ ا ن کا حسن یہ ہے کہ جو بھی آئے بلا تفریق دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیتے ہیں ۔ شاہ صاحب ماضی میں بڑے سرکاری افسر رہے ان کے مرشد پاک حضرت یعقوب شاہ وارثی نے انسانی خدمت کرنے کے لئے انہیں’’ روحانی فیض‘‘ سے مالا مال کردیا۔ وہ اب بھی ایک بڑے صنعتی ادارے سے منسلک ہیں۔ شکل و صورت سے درویش یا فقیر نہیں لگتے عام رہن سہن ہے ۔
جناب سید نعیم قادری اپنی طرز کی ایک واحد روحانی شخصیت تھے جنہوں نے لارنس روڈ میں اپنی کوٹھی میں خود کو ’’پابند‘‘ کردیا تھا۔ ایک بار دل کی تکلیف ہوئی سب نے اصرار کیا لیکن اس پابندی کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے یہاں تک کہ جب رخصت ہوئے تو وہیں دفن ہونے کی وصیت فرمائی۔ انہیں قبلہ شاہ صاحب کے پیر و مرشد کی زیارت کا شرف حاصل رہا۔ وہ قبلہ سرفراز شاہ کے روحانی طور پر اعلیٰ مقام و مدارج کے معترف ہی نہیں بلکہ اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ سرفراز شاہ صاحب کا پیر بہت ہی تگڑا ولی تھا۔ وہ اپنا سب کچھ اپنے اس مرید خاص کو دے گیا۔ قبلہ قادریؒ نے اپنے بیڈ روم میں حاجی وارث علی شاہ ؒ کی تصویر لگا رکھی تھی اور کہا کرتے تھے کہ حاجی صاحبؒ حیات ہیں اور میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ ایک بار ضعیم قادری (جوان کے بھتیجے ہیں) کو کہاکہ انور کو کہو کہ میں سید سرفراز شاہ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے شاہ صاحب قبلہ تک ان کی بات پہنچا دی اور شاہ صاحب کی ہدایت کے مطابق ایک شام شاہ صاحب چند عقیدت مندوں کے ہمراہ لارنس روڈ تشریف لے گئے۔ جناب قادری صاحبؒ نے پرتپاک استقبال کیا۔ رسمی خیر خیریت کے بعد دونوں کے درمیان ’’سوال و جواب‘‘ کی صورت معرفت کی باتیں بھی ہوئیں۔ وہ کیا تھیں اس کا مطلب ہماری سمجھ سے بالا تر تھا۔ تاہم اتنی بات سچی ہے کہ اللہ والے ان لوگوںکا دم غنیمت ہے کہ جو دکھی انسانیت کے لئے سہارا ہیں۔ لوگوں کا دکھ درد سنتے ہیں او ر دعا سے ان میں ’’امید‘‘ پیدا کرتے ہیں۔ فقیر جسے کہتے ہیں اور وہ کیا ہوتا ہے اس بارے میں ترددکرنے کی ضرورت نہیں۔ اسی کتاب ’’ارژنگ ِ فقیر‘‘ میں شاہ صاحب نے اس کی وضاحت کردی ہے اور فقیر کا تعارف بھی کروا دیا ہےکہ ’’فقیر پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اپنی انا کو مار دیتا ہے البتہ وہ رہتا انسان ہی ہے۔ جس طرح ایک عام انسان کی طبیعت صاف ستھری اور سلیقے والی چیز دیکھ کر ہشاش بشاش ہو جاتی ہے اسی طرح خوش اطوار اور خوش عادات شخص کو دیکھ فقیر کی نفاست پسند طبیعت خوش ہوتی ہے۔ فقیر کی نفیس طبع کے خلاف کوئی بات ہوگی تو عام انسان کی مانند کسی کی طبیعت پر بھی گراں گزرے گی۔‘‘ کتاب میں ایک جگہ اور لکھا ہے کہ ’’فقیر کسی کی بات کو مائنڈ نہیں کرتا۔ فقیر پر رب تعالیٰ کا ایسا کرم ہے کہ وہ ان باتوں سے اوپر چلا جاتا ہے۔ اسے کسی نے کن الفاظ میں مخاطب کیا اور کس انداز میں دعا کی درخواست کی اور کوئی کس طرح اس کے پاس آبیٹھا۔ فقیر اپنی ذات اور رویہ پر کنٹرول کرلیتا ہے۔ اپنی طبیعت اور ردعمل پر قابو پالیتا ہے۔ لیکن رہتا وہ انسان ہی ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے پاس بیٹھ کر غیرمہذبانہ حرکتیں کرتا ہے تو فقیر اس پر React تو نہیں کرے گا چڑے گا بھی نہیں۔ ناگواری بھی محسوس نہیں کرے گا لیکن اس کی طبیعت کی نفاست پر یہ رویہ گراں گزرےگا۔ ‘‘قبلہ شاہ صاحب کی اس کتاب میں انسانی زندگی سے مختلف پہلوئوں کا تفصیلاً ذکر ہے اور رہنمائی بھی کی گئی ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے ذہن انسانی میں کئی نئے دریچےوا ہوتے ہیں!!!