5ستمبر 2015 کےـ ’’جنگ ‘‘ میں سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کا کالم ’’عبدالحفیظ پیرزادہ کا آخری ارمان‘‘ کے عنوان سے چھپا ہے۔ اپنے کالم میں عبدالحفیظ پیر زادہ کی تعریف کرتے ہوئے حامد میر صاحب نے سندھ کے قومی رہنما محترم جی ایم سید پر انتہائی سنگین اور بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔ان الزامات کی حقیقت کی طرف میں بعد میں آتا ہوں لیکن چونکہ جناب حامد میر نے یہ ساری باتیں جناب پیرزادہ کے حوالے سے کی ہیں تو پہلے میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوںکہ کالم نویس کی پیرزادہ صاحب کے بارے میں معلومات صحیح نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’پاکستان واپسی کے بعد انہوں (پیرزادہ) نے سیاست چھوڑدی‘‘ جوکہ درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1984-85 میںلندن میں سندھی، بلوچ، پختون فرنٹ کے قیام کے بعد اس کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان آکر تنظیم کو آرگنائز کرنے کی غرض سے عبدالحفیظ پیرزادہ نے پورے ملک کے دورے کئے۔ بعد میں ان کے فرنٹ کی دوسری قیادت سے اختلافات ہوگئے تو وہ کچھ عرصے کیلئے خاموش ہوگئے۔ 1989 میں میر غوث بخش بزنجو کے انتقال کے بعد ان کی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی کو نئے سرے سے منظم کیا گیا تو جناب پیرزادہ اس میں شامل ہوئے اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے جبکہ صدربزنجو صاحب کے صاحبزادے بیزن بزنجو تھے۔
جناب حامد میر کا مذکورہ کالم میں کہنا ہے کہ جی۔ ایم۔ سید نے 1990 کے الیکشن میں اپنے امیدواروں کیلئے غلام اسحاق خان او راسد درانی کے ذریعے حکومت سے پیسے لئے۔ اتنی بڑی شخصیت پر اتنا بڑا الزام لگاتے ہوئے کالم نویس نے کوئی ثبوت نہیں پیش کیا۔ پوری دنیا یہ جانتی ہے، اور مانتی ہے، کہ جی ۔ایم۔ سید نے زندگی میں کوئی کام خفیہ طریقے سے نہیں کیا۔ وہ جو کچھ بھی کہتے اور کرتے تھے وہ اعلانیہ طور پر ببانگِ دہل کرتے تھے۔ اگر جنرل ضیاالحق ان سے ملنے آئے تو وہ ملاقات بھی دن دیہاڑے صحافی حضرات کی موجودگی میں ہوئی جبکہ وہ جماعت (پیپلزپارٹی) جس کو حامد میر اسٹیبلشمنٹ کا مخالف بنا کر پیش کر رہے ہیں اس کے لیڈر کس طرح چھپ چھپ کر فوجی ڈکٹیٹر سے ملتے تھے، باخبر صحافی ہونے کے ناطے حامد میر ضرور ان سے واقف ہونگے نہیں تو سابق بیوروکریٹ سعید مہدی کا انٹرویو سن یادیکھ لیں۔ جی۔ایم ۔ سید نے تو دہلی میں راجیو گاندھی سے اپنی ملاقات اور اس میں کی گئی باتیں بھی واپس آکر خود ہی دنیا کو بتادیں۔ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے زیرِ نظر کالم کے دو ٹکڑوں کاحوالہ دینا ضروری ہے۔ ابتدا ہی میںکہا گیا ہے کہ ’’عبدالحفیظ پیرزادہ اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب مکمل کر چکے تھے۔ کتاب پبلشر کے حوالے کی تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ پیرزادہ صاحب نے اپنی کتاب کی اشاعت کو ملتوی کردیا کیونکہ اس کتاب میں انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو پر خاصی تنقید کی تھی اور سنگین الزامات لگائے تھے۔ پیرزادہ صاحب کا خیال تھا کہ یہ کتاب محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں شائع ہوتی تو بہتر ہوتا تاکہ وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع کر سکتیں‘‘۔ آگے چل کر پیرزادہ صاحب کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’1990 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے انہیں بلایا اور اسلامی جمہوری اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی ۔ پیرزادہ صاحب نے صدر کو بتایا کہ وہ سیاست چھوڑ چکے ہیں۔ صدر غلام اسحاق خان نے ان سے کہا کہ آپ کے سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید سے بڑے قریبی تعلقات ہیں، آپ انہیں آئی جے آئی کی حمایت کے لئے راضی کریں ہم ان کے امیدواروں کی مالی مدد کریں گے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے غلام اسحاق خان کا پیغام جی۔ ایم سید کو پہنچایا۔ جی۔ ایم سید پیپلز پارٹی کی نفرت میں آئی جی آئی سے تعاون پر راضی ہوگئے۔ جی۔ایم۔ سید نے چھ انتخابی امیدواروں کے لئے رقم طلب کی۔ کچھ دنوں بعد آئی ۔ ایس آئی۔ کے سربراہ اسد درانی کراچی میں عبدالحفیظ پیرزادہ کے گھر آئے اور بتایا کہ صدر صاحب نے جی۔ایم۔ سید کے چھ امیدواروں کے لئے پانچ لاکھ فی کس کے حساب سے 30 لاکھ روپے منظور کئے ہیں۔ اسد درانی نے پانچ پانچ لاکھ کے چھ چیک پیرزادہ کی موجودگی میں اعجاز جتوئی کے حوالے کر دیئے۔‘‘
کتنی عجیب بات ہے کہ جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنی کتاب کی اشاعت کو تو ایکدم اس لئے روک دیا کہ اس میں بینظیر بھٹو پر تنقید تھی اور وہ اس دنیا میں نہیں رہی تھیں لیکن اسی عبدالحفیظ پیرزادہ نے جی۔ایم۔ سید کے انتقال کے بیس برس بعد ان پرانتہائی سنگین الزامات لگانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی اور حامد میر جیسے سینئر صحافی نے بغیر تصدیق کئے ان الزامات کو جوں کا توں چھاپ دیا اپنے اس اعلان کے ساتھ کہ پیرزادہ صاحب نے آئی ایس آئی سے پیسے تو لئے لیکن اپنے لئے نہیں۔ لیکن تاریخی حقیقتیں جناب حامد میر کے بیان کردہ واقعات کو غلط ثابت کرتی ہیں اور اس بنیاد کوہی جھٹلاتی ہیں جس پر یہ ساری کہانی کھڑی کی گئی ہے۔ 1990میں عبدالحفیظ پیرزادہ سیاست چھوڑ نہیں چکے تھے بلکہ وہ ایک اہم جماعت پاکستان نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے اور انہی 1990کے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے حلقہ دادو III (محال کوہستان) سے امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد 1991 میں جیکب آباد ضلع کے گڑھی خیرو حلقے سے سندھ اسمبلی کیلئے ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی جناب پیرزادہ امیدوار تھے(اس کا ذکر 10 ستمبر کے جنگ میں حسن مجتبیٰ کے کالم میں بھی آچکا ہے) ۔ یہ انتخاب اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے آہنی ہتھکنڈوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ہوا تھا۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حامد میر صاحب خود لکھتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے چیک حفیظ پیرزادہ کے گھر پر اعجاز جتوئی کے حوالے کردیئے۔ تو اس سے یہ کیسے اخذ کیا گیا کہ پیسے جی۔ ایم ۔ سید نے لئے ۔اس بات کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر حفیظ پیرزادہ کے جی ۔ ایم ۔ سید سے ’قریبی تعلقات‘ تھے اور غلام اسحاق خان نے رابطہ بھی ان ہی سے کیا تو پھر چیک اعجاز جتوئی کے حوالے کیوں کئے گئے۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اعجاز جتوئی کا ذکر بھی ان کے انتقال کے 18سال بعد کیا گیا ہے جب وہ ’’ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع‘‘ نہیں کرسکتے۔ حاصل مقصد یہ ہے کہ جناب حامد میر کے کالم اور اس میں دیئے گئے جناب پیرزادہ کے انٹرویو سے یہ بات کہیں بھی اور کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتی کہ جی۔ ایم ۔ سید نے چیک لئے جبکہ اسی کالم سے اتنی بات ثابت ہو چکی ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ چیک لے کر پیرزادہ صاحب کے گھر پہنچے تھے۔ یہ بات بھی تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہوچکی ہے کہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے 1990 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا جبکہ یہ بات تو خود حامد میر صاحب نے لکھی ہے کہ اصغر خان کیس میں ’عبدالحفیظ پیرزادہ کا نام بھی ان سیاستدانوں کے ساتھ آیا جنہوں نے آئی ایس آئی سے رقوم وصول کی تھیں‘۔ تو ان سارے حقائق کی روشنی میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ جناب پیرزادہ نے رقم اپنے لئے نہیں بلکہ جی۔ایم۔ سید کے لئے لی تھی؟