• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
14اکتوبر 2015ء بروز بدھ، کے کالم ’’چیلنج‘‘ کا عنوان تھا۔
’’انتخابی ریڈار پر’’819‘‘ آنسو؟‘‘
طالب علم نے اس کے ذریعہ تین سوال اٹھائے تھے:(1) کیا پاکستان پیپلز پارٹی ختم ہو چکی ؟ (2) پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قیادت کہاں ہے؟ کون ہو سکتا ہے؟ کس کو ہونا چاہئے؟ کیا منظور وٹو؟ کیا قمر زمان کائرہ؟ کیا اعتزاز احسن؟ کیا عزیز افضل چن؟ یا کوئی اور، اور ان معزز حضرات سمیت ’’اور کوئی‘‘ جو بھی ہے، جہاں بھی ہے؟ کیا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی سیاسی فلسفے کی کسی مشابہت یا کسی علامت کی یاد دلا سکتا ہے؟ پنجاب کی قیادت کا وہ ’’فرد‘‘ کیا ’’آخری قہقہہ غریب عوام کا ہو گا‘‘ کانعرہ مستانہ لگاتے وقت، اپنی صدا میں ذوالفقار علی بھٹو کے نعرہ مستانہ پر مشتمل گیت کا کوئی ایک بول بھی سنا سکے گا؟ (3) قومی انتخابی ریڈار پر پیپلز پارٹی کا نام کیا واقعی ’’819‘‘ ہے؟
جناب بشیر ریاض نے ’’جنگ‘‘ لاہور کی اشاعت (مورخہ یکم نومبر 2015) میں اپنے رشحات فکرکے ذریعہ ان سوالوں کا تاریخی جواب قلم بند کر دیا، جناب بشیر ریاض پاکستان پیپلز پارٹی کی معتبر ترین تاریخ اور گواہی ہیں، آج بھی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان کا منصب انہی کے سپرد کیا گیا ہے۔
(1) جناب بشیر ریاض کا کہنا ہے:’’18اکتوبر کو سانحہ کارساز اور 23اکتوبر کو بیگم نصرت بھٹو کی چوتھی برسی خاموشی سے گزر گئی۔ بیگم نصرت بھٹو کی خدمات کے اعتراف میں سب سے بڑا قومی اعزاز پاکستان دیا گیا لیکن پنجاب میں پارٹی نے ان کا نام و نشان مٹا دیا ہے۔
(2) پنجاب میں پیپلز پارٹی کا جو حشر ہوا ہے اس کی ذمہ دار یقیناً پنجاب میں صوبائی قیادت اور وہ سابق وزراء ہیں جنہوں نے دور اقتدار میں تمام تر توجہ اپنی ذات پر مرکوز رکھی۔ 2013کے عام انتخابات میں پی پی پی قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی اور پنجاب میں اس کا مکمل صفایا ہو گیا۔
(3) گزشتہ دنوں ایک لیڈر نے ٹی وی پر یہ انکشاف کیا ہے کہ پی پی پی میں شریک چیئرپرسن کا کوئی عہدہ نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کئی سال تک شریک چیئرپرسن کے عہدے پر فائز رہی ہیں اور جلا وطنی کے ایام میں بھی لندن سے پارٹی ہدایات اور بیانات شریک چیئرپرسن کی حیثیت سے جاری ہوتے تھے۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جناب آصف علی زرداری پارٹی کے راہبر ہیں جبکہ پارٹی راہبر کا سرے سے کوئی عہدہ ہی نہیں ہے۔ شریک چیئرپرسن کے عہدے کی نفی اور راہبر کے عہدے کی تخلیق سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری کو پارٹی امور سے علیحدہ کر دیا جائے۔
(4) مجھے یاد ہے کہ آج کے ایک اہم رہنما نے گورنر ہائوس لاہور میں ایک تقریب میں صدر کی خوشامد کے دریا بہا دیئے تھے اور میں یہ سن کر خوشامد کی اس طغیانی میں غوطے کھانے لگا تھا۔ انہوں نے بڑے پُر جوش انداز میں کہا، جناب صدر! آپ بھٹو صاحب اور بی بی شہید سے بھی زیادہ ہردلعزیز اور فہم و فراست کے مالک ہیں اور پی پی پی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں‘‘۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور سمیت پارٹی قیادت کے موجود کردار اور عمل کا جناب بشیر ریاض کے نقطہ نظر کی رو سے مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ جزوی سی باتوں اور جزوی سے رویوں کی مثالیں بعد میں دوں گا، سب سے پہلے پنجاب کی موجودہ قیادت کو قومی سیاسی اصول کے ترازو میں تولتے ہیں!
بیرسٹر عامر حسن کون تھا؟ کیا وہ کوئی آزاد امیدوار تھا؟ کیا وہ جاگیردار یا صنعتکار تھا؟ کیا پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد اس کے دامن پہ کسی سیاسی آوارگی کے نشانات کی نشاندہی کی جا سکتی تھی؟ ان تینوں باتوں کا کوئی وجود نہیں پھر 11اکتوبر 2015کے قومی ضمنی انتخاب میں یہ بیرسٹر عامر حسن کون تھا؟
تو یہ بیرسٹر عامر حسن دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت 11اکتوبر 2015کے اہم ترین قومی ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کا امیدوار ڈکلیئر کیا۔صوبائی اسمبلی کی ضمنی نشست پر افتخار شاہد نامزد کئے گئے۔ یہ دونوں حضرات ذاتی حیثیت سے نہیں پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے نامزد کردہ انتخابی امیدواروں کی حیثیت سے 11اکتوبر 2015کے انتخابی معرکے میں اترے یا اتارے گئے تھے!
پاکستان پیپلز پارٹی کے حامیوں اور عام آدمی کو بھی، نتیجہ ووٹوں کی عددی شکست کے ناقابل ذکر ہندسوں کی صورت میں سننا اور سہنا پڑا، سیاسی عمل کے فیصلہ کن بیرو میٹرز کے مطابق یہ المیہ قابل برداشت قابل علاج اور قابل تلافی تھا اگر اس سیاسی عمل کے بیرو میٹرز اس ضمنی انتخاب میں پنجاب پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے مکمل عملی بغاوت، لاتعلقی، لاپروائی، باہمی حسد و رقابت اور عملی جدوجہد سے مکمل اعراض کے عملی خاک واں کو سامنے نہ لاتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا نامزد کردہ امیدوار بیرسٹر عامر حسن اس حلقے کے گلی کوچوں میں ہوا کے ایک بے بس سے جھونکے کی مانند اڑتا پھرا جس کا سوائے اس کے کوئی والی وارث نہ تھا جو سب کا والی وارث ہے۔
پنجاب پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت اور قومی سطح پر شناخت شدہ دیگر رہنمائوں نے اپنے اس امیدوار کو ’’خیرات‘‘ کی سطح پر ایک عوامی جلسہ دان کیا جس سے ازراہ مہربانی صوبائی صدر، بعض صوبائی لیڈروں اور ازراہ اخلاق شیری رحمان صاحبہ نے خطاب کیا، تمام تر احترام و وقار تسلیم کرتے ہوئے شیری رحمان صاحبہ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ پنجاب میں اس محاذ پر کیا کرنے آئی تھیں اور پنجاب کے جوشیلے عوام کو ایک مفکرانہ شخصیت کے غیر عوامی انداز سے کیا حاصل ہو سکتا تھا؟ دراصل، جیسا کہ عرض کیا یہ جلسہ پیپلز پارٹی پنجاب نے بہ جبروا کراہ اپنے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کو ’’دان‘‘ کیا تھا، چنانچہ ’’خیرات‘‘ کی جتنی طاقت ہوتی ہے وہی سامنے آنی تھی، آسمان سے ستارے توڑنے کی تو نیت ہی نہ تھی انتخاب پنجاب کے شہر لاہور میں ہو، لاہور کے ہر کونے میں انجام فتح و شکست سے قطع نظر جئے بھٹو کے نعرے نہ گونجیں نہ سنائی دیں، یہ کیسی بے نیت صوبائی قیادت تھی؟
یہ بھی آصف علی زرداری کے دور صدارت کا وقوعہ ہے، ’’واردات کامقام‘‘،’’ایوان صدر‘‘، جہاں ان عوام دشمن اور دہاڑی باز وزراء یا افراد میں سے ایک نےآصف صاحب سے ’’دستہ بستہ‘‘ عرض کیا تھا ’’جناب شریک چیئرپرسن صاحب! آپ ذوالفقار علی بھٹو سے ’’بڑے لیڈر‘‘ ہیں، بھٹو صاحب کی تصویر آپ کے بعد ہونی چاہئے!‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جس نے پارٹی کے قیام کے بعد پہلے منعقدہ عام انتخابات قومی اسمبلی کی 6نشستوں میں سے پانچ پر کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑے، وہ پنجاب کی موجودہ قیادت کی سیاسی بے اصولیوں اور سیاسی کرپشن کے نتیجے میں، بیرسٹر عامر حسن تک پہنچتے پہنچتے ’’819‘‘ آنسوئوں کی کہانی بنا دی گئی۔
شریک چیئرپرسن نے 11اکتوبر کی اس عبرت ناک شکست کا اصل راز جاننے کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے، کیا ’’819‘‘ آنسوئوں کا وجود سب سے بڑی حقیقت نہیں، اور کیا چاہئے؟
ابھی گفتگو جاری رہے گی؟
سعود ساحر صاحب کی خدمت میں!
14؍اکتوبر 2015، بروز بدھ، میرے شائع شدہ کالم بہ عنوان انتخابی ریڈار پر ’’819‘‘ آنسو؟‘‘ کے حوالے سے برادر مکرم سعود ساحر صاحب نے اپنے نظریات و احساسات کا اظہار کیا، میرے لئے ان کے جذبات زندگی کی ایک متاع، ان کا میرے کالم کی طرف متوجہ ہونا، ایک اعزاز سے کم نہیں۔
میں سدا کا سست رو، مرنجاں مرنج، وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں، بایں ہمہ ان کے حوالے سے ہمیشہ باخبر رہا کہ دراصل میں اسی نظریاتی قبیلے کی ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج ہوںجسے سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کی آمد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ان کے خلاف ایک طویل فکری اور سیاسی جنگ لڑی ۔بس چار اپریل 1979کی رات نے ذہن تہہ و بالا کردیا ہے،تاریخی اور سیاسی معاملات میں اپروچ کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی جیسی لبرل پارٹی کا حامی ہوں اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے قدآور رہنما کے افکار کا تذکرہ اور دفاع ملک قوم کی خدمت سمجھتا ہوں۔
ہم سب اپنا عہد گزار چکے،سعود ساحر وہ نام ہے جس نے اصولوں پر کردار کی مثال قائم کی ان کی نظریاتی دیانتداری شک و شبہ سے بالا ہے، ہمیں،پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کو وقت کے فیصلے پر چھوڑ دینا چاہئے، وقت نے ابھی اس جماعت کو مکمل مسترد نہیں کیا البتہ اس کے اپنوں کی نااہلیوں کا جرمانہ ضرور کردیا ہے جسے وہ بھگت رہے ہیں، آپ سلامت رہیں، بہت جلد قدم بوسی کے لئے حاضر ہوں گے۔
تازہ ترین