لاہور (صابرشاہ) نومبر 2015ء میں چینی کمپنی چائنہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کو 43 سال کیلئے لیز پر دیا گیا طویل ترین ساحلی علاقہ گوادر پورٹ بالآخر اتوار کے روز بین الاقوامی تجارت کیلئے آپریشنل ہو گیا ہے۔ اور گوادر بندرگاہ سے پاکستان کی سب سے بڑی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ 62 سال قبل 1954 میں جب پہلی بار اس علاقے کی اہمیت سامنے آئی تو اس وقت یہ شہر عمان کا حصہ تھا۔ آج گوادر کا جو نیا چہرہ سامنے آیا ہے اس میں یہاں سے دنیا کے 196 ملکوں کے ساتھ 4764 سمندری جہازوں کے ذریعے تجارت کی سہولت موجود ہے۔ اس کرہ ارض پر 224 سال قبل کنٹینرز کے ذریعے تجارت کی روایت کو سامنے رکھیں تو نئے دور کی گوادر پورٹ کی سہولیات ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ گوادر جس کا مطلب ’’ہواکا دروازہ‘‘ہے 637 ایکڑ پر پھیلے گوادر پورٹ کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے خلیج فارس تک رسائی ممکن ہے جبکہ گوادر پورٹ کو دبئی پورٹ کا متبادل بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ گوادر کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 8 ستمبر 1958میں پاکستان نے عمان سے ایک چھوٹا سا بے آباد علاقہ گوادر جو مچھلیوں کا گائوں سمجھا جاتا تھا ،ساڑھے 5 ارب روپے میں خریدا تھا۔ اس وقت سلطان محمد شاہ جو آغا خان کہلاتے تھےنے اس رقم کی ادائیگی میں بہت بڑا حصہ ادا کیا۔ اس معاہدے میں دو اہم شقیں شامل کی گئیں۔ (۱) سارا بلوچستان عمان کیلئے فوجی چھائونی بنے گا جس کے نتیجے میں بلوچی عمانی فورسز کا اہم حصہ شمار ہوں گے۔ (۲) گوادر کے وسائل میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ یکم جولائی 1977 میں گوادر کو بلوچستان میں شامل کر لیا گیا۔ 1993 میں حکومت پاکستان نے ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت گوادر کو بین الاقوامی بندرگاہ میں تبدیل کیا جانا تھا اور اس کارابطہ پاکستان کی تمام مرکزی شاہراہوں اور ریلوے سے جوڑنا تھا۔22 مارچ 2002میں حکومت کے زیر انتظام گوادر میں ترقیاتی کام کا آغاز ہوا اور مارچ 2007 میں اس منصوبے کا فیز1مکمل کر لیا گیا۔ گوادر بندرگاہ کا افتتاح20مارچ 2007میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے کیا۔ اس موقع پر ان کے ساتھ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز ، گورنر بلوچستان اویس احمد غنی اور اس وقت کے چینی وزیراطلاعات لی شینگ لین بھی تھے۔ مارچ2007میں چین نے گوادر بندرگاہ کی ابتدائی لاگت کا 80 فیصد 248 ملین ڈالر یعنی 24 کروڑ 80 لاکھ ڈالر فراہم کئے۔ صدر پرویز مشرف نے گوادر کے نواحی علاقوں کی ترقی کیلئے 5کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا اور یقین دلایا کہ وفاقی حکومت گوادر میں تعلیم، صحت اور سیوریج کی سہولیات کی فراہمی کے لئے مزید ایک کروڑ روپے دے گی۔2015میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ شہر اور بندرگاہ میں سی پیک منصوبے کے تحت 1.62 بلین ڈالر یعنی 1ارب62کروڑ ڈالر سے مزید ترقیاتی کام شروع کئے جائیں گے۔ اس منصوبے کے تحت شمالی پاکستان اور مغربی چین کو بندرگاہ کے ذریعے باہم ملانا مقصد تھا۔ بندرگاہ ایل این جی لانے کے لئے بھی بہترین ذریعہ ثابت ہو گی جو کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت اڑھائی ارب ڈالر گوادر نواب شاہ پروجیکٹ بنے گا۔ اس ضمن میں گوادر سپیشل اکنامک زون میں جون2016 میں تعمیر شروع کی گئی جو کہ بندرگاہ سے ملحقہ 2292 ایکڑ رقبہ پر بنائی جا رہی ہے۔ یہاں ہم پوری دنیا میں لائنر شپس اور کنٹینرز کے ذریعے تجارت کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ورلڈ شپنگ کونسل کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر400 لائنر سروسز دستیاب ہیں بیشتر ہفتہ وار چلتے ہیں۔ سامان کی ترسیل کیلئے ابتدائی طور پر کنٹینرز کی شکل میں بحری جہاز کے آگے یا پیچھے لگائے جاتے تھے اور سامان کا 60 فیصد حصہ ہر سال بذریعہ سمندر لے جایا جاتا تھا۔ لائنر شپس ٹرانسپورٹ میں 60 فیصد سمندری تجارتی سامان شامل ہوتا جس میں سالانہ 4 کھرب ڈالر مالیت کا سامان شامل ہوتا تھا۔ ورلڈ شپنگ کونسل نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ شپنگ کنٹینرز کے استعمال کا رواج انوکھا نہیں ہے جدید کنٹینرز کی طرز کے باکس1792 میں انگلینڈ میں ریل گاڑی اور گھوڑا گاڑی میں بھی ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں۔امریکہ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران چھوٹے سائز کے کنٹینرز اس مقصد کے لئے استعمال ہوتے رہےہیں جس سے سامان کی ترسیل مفید اور موثر انداز میں ہوتی تھی تاہم 1955 میں کیرولینا (امریکہ) میں ٹرک کمپنی کے مالک میلکم میکلین نے اسٹیم شپ کمپنی خریدی تاکہ ٹرکوں کے ذریعے ہونے والا کام بحری جہازوں کے ذریعے ہو سکے۔ انہوں نے یہ جان لیا کہ ایک بھرے کنٹینر کو گاڑی میں رکھ کر کسی دوسری جگہ بھجوانا زیادہ موثر اور آسان رہے گا۔ ویب سائٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ برسہابرس سے زمین پر بسنے والے انسان بحری جہازوں کے ذریعے سامان کی ترسیل کرتے آ رہے ہیں جیسا کہ قدیم تہذیب فونشیائی کے لوگ، مصری، یونانی، رومن، پرتگالی، ہسپانوی اور برطانوی لوگوں کی اس حوالے سے اپنی تاریخ ہے۔ سمندر میں سفر کرنے والے ان لوگوں نے نئے خزانے تلاش کئے وہ اس سفر میں خوراک، زیورات اور دیگر نادر اشیاء لاتے اور یہ اشیاء ان کے اپنے ملک کے لوگوں کیلئے نایاب ہوتی تھیں جنہیں وہ بڑے شوق سے منہ مانگے داموں خریدتے تھے ، تاہم یہ طریقہ زیادہ آسان نہیں تھا۔سامان کو انفرادی طور پر پیٹیوں بوریوںاور بڑے منہ والے ڈرموں میں بھرنا اور اسے بڑے جہاز میں رکھنا اور پھر اسے باری باری اتارنا نسبتاً مشکل اور سست رفتار عمل تھا۔20ویں صدی کے آخری حصے تک سمندر کے راستےسامان کی تجارت اور ترسیل کیلئے مذکورہ بالا طریقے سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ رائج نہیں ہوا تھا۔یہاں دنیا کی بہترین کٹینرز بندگاہوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جہاز پر سامان لادنے کیلئے وزن کا جو پیمانہ متعین کیا گیا ہے یعنی TWENTY FOOT EQUIVALENT UNITSیہاں ’’فور بز میگزین اور دی جنرل آف کامرس اینول کی ٹاپ 50ورلڈ کنٹیز پورٹس کی فہرست ، لائیڈ کے سالانہ ٹاپ 100پورٹس اور دی ورلڈ شپنگ کونسل کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کے 20مصروف ترین پورٹس کا ذکر جن میں بیشتر چین میں واقع ہیں۔