اسلام آباد کے شہر خوش جمال کی شاہراہ دستور، کچھ عالی مرتبت ایوانوں، درباروں او دفتروں کو جلومیں لئے بیٹھی ہے جن میں اونچے درجے کے عالی نسب لوگ رہائش رکھتے، دفتر لگاتے یا دربار سجاتے ہیں۔ کچھ عرصے سے اس ”مقدس علاقے“ کو ریڈ زون یعنی ، سیکورٹی کے حوالے سے حساس ترین اور انتہائی کڑے تحفظ کا مستحق علاقہ قرار دیدیا گیا ہے۔ جس طرح دستور کی قبا پر جابجا آمریت کے پیوند لگے ہیں، اسی طرح شاہراہ دستور پر بھی قدم بہ قدم رکاوٹیں لگی ہیں جہاں بندوق بردار پولیس ہمہ وقت تیار کھڑی رہتی ہے۔ کم حیثیت بستیوں سے آنے والی ہوا بھی یہاں سے راستہ نہیں پاسکتی۔ اب اس جزیرے کو ڈیڑھ کلو میٹر لمبی دیوار کے حصار میں لئے جانے کا منصوبہ ہے جس پر فاقہ زدہ قوم کے آٹھ ارب روپے خرچ آئیں گے۔
پیر کے روز اس ناقابل تسخیر قلعے کی حفاظت کے لئے نئی تہہ در تہہ فصیلیں کھڑی کردی گئیں۔ ناکے تو لگے ہی تھے، گاڑیاں اور ٹرک بھی کھڑے کردیئے گئے۔ چار سو خاردار تاروں کے گچھے پھیلادیئے گئے۔ پولیس اور رینجرز کے تازہ دم دستوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ ججز کالونی کو جانے والے تمام راستے سیل کردیئے گئے ۔ سپریم کورٹ کے دروازوں پر بھاری قفل ڈال دیئے گئے۔ سارا علاقہ ایک نوع کے کرفیو کا سماں پیش کررہا تھا اور ریاست اپنی تمام ترقوت کے ساتھ مستعد کھڑی تھی۔ خبر ملی تھی کہ باجوڑ، سوات یا ڈیورنڈ لائن کے اس پار سے کوئی خوں آشام دہشت گرد، ججز کالونی میں چھپا بیٹھا ہے اور کسی آن وہ شاہراہ دستور پر آکر غارت گری پھیلانے کو ہے۔ وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی کے افراد تڑپ رہے تھے لیکن کسی کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہ تھی۔
سرِ شام معلوم ہوا کہ اس ”خوں آشام دہشت گرد“ کا نام، افتخار محمد چوہدری تھا اور وہ وکلا کی دعوت پر ایک تقریب میں شرکت کے لئے سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ وہ گھر سے نکل تو آیا لیکن چار گھنٹے تک اسے سڑک پر روکے رکھا گیا۔ اسے نرم سے نرم الفاظ میں پست قسم کی بدذوقی اور اعلیٰ درجے کی بے حکمتی کہا جائے گا۔ پرویز مشرف کے عہد بے آبرو میں ایسے مکروہ تماشوں کی گنجائش تھی کہ وہ عوام، آئین، قانون، جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے کوئی رشتہ نہ رکھتا تھا۔ حیا باختہ طاقت آزمائی اس کا فلسفہ حکمرانی تھا۔ سو نواب اکبر بگٹی کے قتل سے جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کو زندہ جلادینے تک اس نے جو کچھ بھی کیا، اسے آمریت کی روایتی درندگی کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن ایک جمہوری حکومت کو جو عوامی ہونے کی دعویدار بھی ہو۔ اس نوع کے بازاری سرکس زیب نہیں دیتے۔ جنرل حمید گل اور چوہدری پرویز الٰہی پر قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کے صرف دو دن بعد اس حکیمانہ کارروائی کو پی پی پی کے مشیران ذی شان کا دوسرا بڑا کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔
میں مسلسل اس اُدھیڑ بُن میں رہتا ہوں کہ آخر جسٹس افتخار محمد چوہدری کا قصور کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آمریت کے درباروں کا بھی نامطلوب تھا اور جمہوریت کے ایوانوں میں بھی معتوب ہے۔ ”جانے والا بھی“ اسے کیوں اپنا شمن خیال کرتا تھا اور آنے والے بھی کیوں اس کے لہو کے پیاسے ہیں؟ کیا اس لئے کہ وہ برسوں کے سڑے بسے نظام کے لئے خطرہ ہے؟ اسٹیل ملز کی نج کاری، کراچی کی شاہراہوں پر کمرشل پلاٹس کی تخلیق، گوادر میں قیمتی پلاٹوں کی بندر بانٹ، ڈھائی لاکھ ایکڑ سرکاری زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ، زور آوروں کی نام نہاد پنچائیت عدالتیں، بے بس و لاچار خواتین پر مظالم، رہائشی علاقوں میں صنعتی منصوبے، بلاجواز بڑھتی ہوئی گرانی، انسانی اعضاء کی اسمگلنگ ، منوبھیل قبیلے کا اغوا، نیومری سٹی کا منصوبہ، اسلام آباد کے فارم ہاؤسز، میڈیا پر ظالمانہ تشدد، لاکھوں ووٹرز کے ناموں کا عدم اندراج، سیکڑوں لاپتہ افراد کی تلاش، شریف برادران کی وطن واپسی، دوبارہ زبردستی جلاوطنی پر توہین عدالت کی کارروائی، نک چڑھے سرکاری عمال کی عدالت میں طلبی، ریاست سے زیادہ توانا ایجنسیوں کی سرزنش، مظلوموں کی دادرسی کے لئے سویوموٹو نوٹس کے اختیار کا استعمال …ان میں سے کس اقدام کو ”گناہ کبیرہ“ قراردیا جائے؟ کیا انصاف یہی ہے کہ جب سے افتخار چوہدری رخصت ہوا ہے ، لاپتہ افراد کے مقدمے کی ایک تاریخ بھی نہیں پڑی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو پاؤ ں تلے روندتے ہوئے نواز شریف کو دوبارہ جلا وطن کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی کا مقدمہ داخل دفتر کردیا گیا؟ حکومت بضد ہے کہ اس کی من پسند عدالت ہی کو حقیقی عدالت اور اس کے منظور نظر ججوں کو ہی جج مانو۔ کیا عدل اس طرح قائم ہوتا ہے؟ کیا حکمران نہیں جانتے کہ قضا کے منصب پر بیٹھنے والا وہی شخص عوام کے اعتبار پر پورا اترتا ہے جو بے خوف ہو، جس کا دل حکمرانوں کے رعب و جلال سے پاک ہو، جو ریاست کے منہ زور اہلکاروں کو لگام دے سکے، جو غریب، نادار اور پسے ہوئے طبقوں کی دعاؤں میں بستا ہو، جو لمبے ہاتھوں والے جابروں کو لگام ڈال سکے، جو حکمرانوں کی خودسری پر کوڑے برسانا جانتا ہو اور جو معاشرے کو احساس دلاسکے کہ کوئی اس کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا۔ اونچی شہ نشینوں سے اذن لے کر فیصلے کرنے اور اقتدار کی گل زمینوں میں بادبہاری کی طرح اٹکھیلیاں کرنے والے کچھ بھی ہوں، منصف نہیں ہوسکتے۔
افتخار محمد چوہدری انسان ہے، اور کوئی انسان خطا سے پاک نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے معرکے سرانجام دینے اور عظمتوں کی بلندیوں کو چھونے والوں کی زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی جھول مل جائے گا۔ افتخار چوہدری بھی اپنے عہد منصفی میں مصلحت یا کمزوری کا شکار ہوتے ہوں گے۔ لیکن پاکستان کے لوگ اس افتخار محمد چوہدری کو جانتے ہیں جس نے 9 مارچ 2007ء کی ایک فتنہ ساماں دوپہر کے بطن سے جنم لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سرآسمان سے جا لگا اور وہ سوکھی دھرتی پر گھنے ابر مہرباں کی طرح محیط ہوگیا۔ تکبر کی بدمستی کے شکار آمر کے لئے یہ عجب منظر تھا کہ کئی وردی پوش جرنیلوں کی موجودگی میں، اس کے عین سامنے بیٹھا بے وردی شخص، اس بے دردی کے ساتھ اس کے حکم سے سرتابی کررہا ہے۔ اب تو بہت سے سورما پیدا ہوچکے ہیں لیکن سومنات پر کاری ضرب افتخار محمد چوہدری ہی نے لگائی۔ جس کے جان لیوا موسموں میں وہ ٹھنڈی ہوا کا پہلا جھونکا تھا۔ وکلا نے افتخار کے حرفِ انکار کو ایک پُروقار تحریک میں بدل دیا۔ سکڑی سمٹی اپوزیشن نے انگڑائی لی۔ جلاوطنوں کی راہیں کھل گئیں۔ افتخار محمد چوہدری ان انتخابات کا مرکزی موضوع بن گیا۔ نتائج چونکا دینے والے تھے۔ آمر ہار گیا، جج جیت گیا۔ لیکن جیت جانے کے بعد بھی وہ نامطلوب ہے۔ نئے حکمران بھی اسے مشرف کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ شاید انہیں بھی ڈر ہے کہ خالص، بے لاگ اور کھرے انصاف کی روایت چل نکلی تو عدلیہ توانا ہوجائے گی۔ عدلیہ توانا ہوگئی تو عوام حشرات الارض کی سطح سے اوپر اٹھ آئیں گے، انتظامیہ کمزور ہوجائے گی اور قانون کو موم کی ناک بنانا مشکل ہوجائے گا۔ وہ خوف زدہ ہیں کہ عوام اور عدلیہ کا یہ گٹھ جوڑ اس فرسودہ نظام کو بہا لے جائے گا جو ایک سامراج کی شکل اختیار کر گیا ہے اور جسے اپنی مرضی کا قانون، اپنی مرضی کے جج، اپنی مرضی کا انصاف اور اپنی پسند کا احتساب چاہئے۔
فاروق نائیک لطیف کھوسہ اور ہم نواؤں کو اندازہ نہیں کہ بے معنی حیلہ سازیوں اور لایعنی چالبازیوں سے افتخار محمد چوہدری کو عدلیہ سے خارج کردینا کتنا بڑا ظلم ہوگا۔ اس معاشرے پر ظلم جو چھ دہائیوں سے بے لاگ انصاف کی راہ دیکھ رہا ہے۔ اس عدلیہ پر ظلم جو پہلی بار عوام کی نگاہوں میں معتبر ٹھہری تھی۔ ان افتادگان خاک پر ظلم جنہیں ایک دیوار گریہ میسر آگئی تھی۔ اس پاکستان پر ظلم جو ایک نئے مستقبل کے خواب دیکھنے لگا تھا اور اس آئین پر ظلم جس پر خدانخواستہ کسی مہم جو نے ایک بار پھر حملہ کیا تو کوئی اس کا دفاع کرنے والا نہ ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ آمر کے لئے نامطلوب شخص، جمہوریت کے پرچم برداروں کا بھی معتوب ہے؟ اس کا قصور، اس کا گناہ تو بتادیا جائے۔ اس کے جرم قبیح کی نشاندہی تو کردی جائے جس کے سبب وہ منصب قضا کے لائق نہیں رہا۔